Maara Hua Sanp - Article No. 1506

Maara Hua Sanp

مرا ہوا سانپ - تحریر نمبر 1506

”گھومبا“بہت ضدی اور اڑیل سانپ تھا۔اُس کا جب اور جہاں دل چاہتا ،حملہ کر دیتا۔اُسے اس بات سے کوئی غرض نہیں تھی کہ اُس کے اس حملے کی وجہ کتنے حشرات کو نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔سب سے زیادہ اس حملے کا خمیاز ہ چیونٹیوں کو بھرنا پڑتا تھا۔

منگل 27 اگست 2019

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ چینو ،منٹو ،نینو ،پینو اور شینو چیونٹیوں کے گروہ کے سب سے ہو شیار اور عقلمند چیونٹیاں تھیں۔یہ پانچوں اکٹھے ہی کھیل کھیل کر بڑی ہوئیں ،لیکن ایک مصیبت سے یہ سب کے سب تنگ تھے ۔انہیں لگتا تھا کہ بار بار ٹیلا بدلنے سے انہیں مختلف پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔کبھی غلہ،یہاں سے وہاں ڈھونا ،کبھی بیمار چیونٹیوں کو اٹھا کر جگہ بدلنا اور اس روز روز کے سفر سے اکثر بہت بوڑھی آنٹی چیونٹیاں فوت بھی ہو جاتی تھیں۔
ٹیلا تبدیل کرنا بھی مجبوری تھی اور اس مجبوری کا نام تھا”گھومبا“۔
”گھومبا“بہت ضدی اور اڑیل سانپ تھا۔اُس کا جب اور جہاں دل چاہتا ،حملہ کر دیتا۔اُسے اس بات سے کوئی غرض نہیں تھی کہ اُس کے اس حملے کی وجہ کتنے حشرات کو نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔

(جاری ہے)

سب سے زیادہ اس حملے کا خمیاز ہ چیونٹیوں کو بھرنا پڑتا تھا۔حشرات الارض میں اپنا کھانا ذخیرہ کرکے رکھنے میں چیونٹیوں کا کوئی بھی ثانی نہیں۔

چیونٹیوں کا یہ پورا گروہ خاندان کی شکل میں ٹیلے میں رہتا۔نظم و نسق میں بھی یہ بہت اعلیٰ ضبط کا مظاہرہ کرتی تھیں۔اگر کبھی کسی اور کیڑے مکوڑے کو بھی اناج کی ضرورت پڑتی ،وہ ”بی چیونٹی“سے آکر مانگتے۔”بی چیونٹی“گروہ کی سب سے بزرگ چیونٹی کو کہا جاتا تھا۔
چیونٹیاں بہت حساس تھیں۔اگر کہیں غلے کی خبر ملتی تو فوراً آکر ایک دوسرے کو اطلاع کر تیں ۔
اُن کا غلہ کیا تھا؟ایک بڑا ساخراب امرود بھی بہت ہوتا۔وہ سب جاتی اور مل کر بڑا سا خراب امرود لے آتی۔وہ امرود اور تو کسی کے کام نہیں آسکتا تھا،لیکن چیونٹیاں اس امرود کے ساتھ پوری سردیاں گزار سکتی تھیں۔
سردیوں میں ویسے بھی یہ ننھی منھی جانیں باہر تو نکلتی نہیں،لیکن خوراک تو ہر موسم کی ضرورت ہے۔
”گھومبا“کی سب سے خراب عادت یہ تھی کہ جب چیونٹیوں کا یہ گروہ سردیوں میں ٹیلے (بل)میں دبک کر بیٹھ جاتا تو وہ کنڈلی مار کر ٹیلے کے پاس بیٹھتا ۔
پہلے اپنی لمبی سانس لے کر پھنکا رتا اور پھر زبان باہر نکال کر لہراتا۔چھوٹی چھوٹی چیونٹیاں ڈرجاتی تو وہ ننھے سے ٹیلے پر حملہ کرکے ساری اوپر کی مٹی نیچے اور نیچے کی مٹی اوپر کر دیتا۔چیونٹیوں کا سارا انتظام وانصرام تباہ ہوجاتا۔بسا اوقات چھوٹے نوکیلے پتھر بزرگ چیونٹیوں پر آکر گرتے اور وہ ہلاک ہو جاتیں۔چیونٹیاں فطرت کے قانون سے واقف تھیں۔

انہیں سانپ کی خوراک بننے پر کوئی اعتراض نہیں تھا مگر وہ خوراک بنانے سے زیادہ پریشان کرنے میں دلچسپی رکھتا تھا ۔وہ بھلا ذرہ برابر بھی چیونٹیوں کی پرواہ کرتا تھا؟وہ کھانے سے زیادہ ستانے پر یقین رکھتا تھا۔
چینو،منٹو،پینو ،شینو اور نینو گھومبا کی ان حرکات سے سخت نالاں تھیں۔اور ایک دن وہ اس معاملے کے حل کے لئے بی چیونٹی کے پاس جا پہنچیں۔

”بی چیونٹی!ہم روز روز اپنی ہی چیونٹی بہنوں کی لاشیں اٹھا کر تھک گئے ہیں۔“چینو نے بات شروع کی۔
”پہلے اتنی دور سے غلہ لے کر آتے ہیں ،پھر غلہ کے ساتھ ساتھ بوڑھی آنٹیوں کو بھی ڈھونا پڑتا ہے۔“
منٹو نے پچھلی دو ٹانگوں پر کھڑے ہو کر سامنے کی ٹانگیں ہوا میں اٹھا لی جیسے اپنی تھکاوٹ ورزش سے دور کر رہا ہو۔
”جب ایک جگہ سے دوسری جگہ جاؤ،ساری مٹی دوبارہ کھودنا پڑتی ہے۔
ورنہ آرام دہ نیند بھی نہیں آتی۔“پینو نے جمائی لیتے ہوئے کہا۔
”اور اس آرام دہ نیند کے چکر میں ہماری ٹانگیں کتنی دفعہ زخمی ہو چکی ہیں۔“پچھلی کھدائی میں شینو کی ٹانگ پر زخم آئے تھے۔اس لئے اُس نے بھی اپنا حصہ ڈالا۔نینو اس سب کی باتیں سن کر تنگ آگئی اور دونوں ٹانگیں پھیلا کر اُن سب کے سامنے جا کھڑی ہوئی۔
”تمہیں پتہ بھی ہے”بی چیونٹی“کے سر میں کتنا درد رہتاہے۔
پھر بھی تم لوگ وہ مسئلے بیان کررہے ہو جو کہ ان کو پہلے سے معلوم ہیں۔سیدھا سیدھا مدعا بیان کرو۔وہ تدبیر بتاؤ جو ہم لوگوں نے سوچی ہے ۔بلکہ تم لوگ رہنے دو،میں خود بتاتی ہوں۔“
نینو اب تقریباً بی چیونٹی کے سر پر چڑھتی ہوئی تھی اور اُن کے کان میں گھس کی ساری تدبیر بتارہی تھی۔پہلے پہل بی چیونٹی نے اُن سب کو منع کیا،لیکن اُن کے ازحد اصرار پر آخر کار مان ہی گئی۔
اگلی صبح گرمیوں کے آخری دنوں کی وجہ سے ہلکی ہلکی دھوپ تھی۔گھومبا پھن لہراتا ہوا آیا اور ٹیلے کے پاس کنڈلی مار کر بیٹھ گیا۔ٹیلے کے اندر چیونٹیوں کی شور کی آوازیں پہلے زیادہ تھی ،پھر کم ہو گئی۔حسب معمول گھومبانے ٹیلے پر حملہ کیا۔ٹیلا ٹوٹ کر رہ گیا۔اُس نے زبان پر ذخیرہ غلے کا ذائقہ لیا۔چار دس چیونٹیوں کو زخمی کیا اور چل دیا۔گھومبا اس دفعہ بہت حیران ہوا کیونکہ اس بار اُسے حملہ کرنے میں کوئی تکلیف برداشت نہ کرنی پڑی،ورنہ ہر دفعہ پانچ شیطان چیونٹیوں کا ٹولہ اس کی دم پر آکر کاٹتا تھا۔
اور جب بھی وہ پیچھے پڑتا،وہ بھاگ کر پتوں کے نیچے چھپ جاتے تھے۔اُسے لگا کہ شاید اب اُن چیونٹیوں کو بھی حملے کی عادت ہو گئی ہے۔اس لئے اس دفعہ خاموشی سے حملہ سہہ گئی ہیں۔وہ خراماں خراماں اپنے بل میں واپس چلا گیا۔کیونکہ سردیوں کے شروع ہوتے ہی اُس نے ایک حملہ مزید کرنا تھا نئے ٹیلے پر۔
چیونٹیوں نے نئے ٹیلے پر سب سے پہلے اپنا اناج پہنچایا۔
منٹو نے اناج کی ذمہ داری اٹھا رکھی تھی۔وہ باقی چیونٹیوں کو بتاتا جارہا تھا کہ سب سے نیچے والی تہہ میں اناج رکھنا ہے ۔چینو اور پینو کے ذمہ مٹی کی کھدائی تھی۔وہ تیس سیکنڈ اپنی اگلی دوٹانگیں رگڑتے اور اگلے تیس سیکنڈ پچھلے دو ٹانگیں رگڑتے۔نتیجتاً مٹی کھوددی جاتی۔اُن کے ساتھ اور بھی بہت سے چیونٹے اور چیونٹیاں مدد کروا رہی تھی۔نینو نے اپنے ذمہ بوڑھی چیونٹیوں کو نئے ٹیلے پر پہنچانے کا ذ مہ لے رکھا تھا۔
وہ اس نئے ٹیلے پر اناج کے ارد گرد بوڑھی چیونٹیوں کا رہنے کا انتظام کررہا تھا۔شینو کے ساتھ سب طاقتور چیونٹیاں لگی ہوئی تھی۔کیونکہ اُس کا کام یہ تھاکہ ٹیلے کے ارد گرد مٹی کے اندر پتھر رکھے جائیں ۔ایک پتھر پندرہ چیونٹے مل کر اٹھاتے اور پھر آرام کرتے۔ان نازک جانوں کی کمر اتنا بوجھ کیسے اٹھا سکتی تھی۔اب دو ٹیلے تھے۔ایک نیا ٹیلہ جہاں ابھی گھومبا نے تباہی مچائی اور اس کو ازسر نو آباد کیا گیا ۔
اور ایک بالکل ہی نیا ٹیلہ اس ٹیلے سے تھوڑا فاصلے پر جھاڑیوں میں چھپا ہوا․․․․․․․
رات ہوئی تو باقی تھکے مانے چیونٹے سو گئے۔چینو ،منٹو ،نینو ،پینو اور شینو سب کے سونے کے بعد خاموشی سے ٹیلے سے باہر نکلے اور برگد کے درخت کی جڑ سے بارود نکالنے لگے۔انسان کے بچے بعض اوقات پٹاخوں سے کھیلتے وقت باقی ماندہ پٹاخے یہیں چھوڑ جاتے تھے اور انہی سے چیونٹیوں کو طریقہ نجات سوجھا تھا۔

ان پانچوں نے مل کر پتھروں کے باہر بارود کی سرحد بنائی۔پھر اس بار ودی سرحد کے بعد دوبارہ پتھر رکھے ۔اب کی بار رکھے جانے والے پتھر تعداد میں دو دو تھے۔یعنی ایک کے اوپر دوسرا پتھر اور یکے بعد دیگرے ان پتھروں کی جوڑیاں۔اس سارے کام میں صبح کی ہلکی سی روشنی بھی ہونے لگ گئی۔انہوں نے فوراً اپنی واردات پر مٹی ڈالی اور پتھروں کی پہلی باڑ کے پیچھے جا کر چھپ گئے اور سوگئے۔

سورج پورے جوبن پر تھا۔اور سردی کے موسم میں یہ جو بن بھی کیا خاک جو بن۔خشک سردی کی وجہ سے چیونٹیاں بھی دبکی بیٹھی تھی۔اتنے میں گھومبا کے رینگنے کی آواز آئی۔بوڑھی چیونٹیاں لرز گئیں۔اس بڑھاپے میں اس پھر یہاں سے وہاں کا سفر ۔اُف کیسا عذاب ہے۔رینگنے کی آوا ز قریب آئی۔ٹیلے کے اندر تمام حرکات ساکن ہو گئی اور سارا شور خاموشی میں بدل گیا۔
حملہ ہونے والا تھا۔چینو ،منٹو ،نینو ،پینو اور شینو پتھروں کی قریبی سرحد سے منہ لگائے باہر کا نظارہ کر رہے تھے۔
گھومبا اپنی عادت کے مطابق ٹیلے کے پاس کنڈلی مار کر بیٹھ گیا۔زبان باہر نکال کر پھنکارا۔وہ دل میں سوچ رہا تھایہ چیونٹیاں بے چاری ٹیلا بناتی ہی کیوں ہیں۔انہیں پتہ بھی ہے میں نے یہ مٹی کا گھروندہ مٹی میں ہی ملا دینا ہے۔
غرور اس کی تنی ہوئی گردن میں واضح تھا۔دیکھتے ہی دیکھتے اُس نے حملہ کیا ۔اُس کی زبان جا کر پتھر سے ٹکرائی اور بیرونی پتھروں کی سرحد دراصل پتھروں کی جوڑیوں سے مل کر بنی تھی۔لہٰذا ان پتھروں نے آپس میں رگڑ کھائی اور دیکھتے ہی دیکھتے بارودنے آگ پکڑ لی۔گھومبا آگ کے لئے تیار ہی کب تھا۔وہ اس افتاد پر منہ بھی پیچھے نہ کر سکا ۔اور اُس کی لمبی زبان وہیں جل گئی۔
منہ پر آگ لگنے کی وجہ سے گھومبا درد سے دہرا ہوا اور اس کی دم سیدھا آگ میں جا پڑی ۔اردگرد گھاس پھونس نے بھی آگ پکڑ لی تھی۔باہر کے شور سے ساری چیونٹیاں ٹیلے کے اندر شدید خوف میں مبتلا تھیں۔صرف چینو ،منٹو ،پینو ،نینو اور شینو کی آنکھوں میں اشتیاق تھا۔دیکھتے ہی دیکھتے وہ رعب دار اورمغرور گھومبا جل کر مر گیا۔
چینو ،منٹو ،پینو ،نینو اور شینو ناچتے ہوئے مر ے ہوئے گھومبا کے اوپر آکر بیٹھ گئے۔
انہوں نے ابھی اس کو ٹیلے کے اندر لے کر جانا تھاجو پتھروں کی چار دیواری کی وجہ سے محفوظ تھا۔بی چیونٹی کی آنکھ میں اپنے ننھے سپاہیوں کے لئے فخر تھا۔
درخت پر بیٹھے الّونے سوچا”سچ ہی کہا جاتا ہے ۔زندہ سانپ چیونٹیوں کو کھاتا ہے اور مرے ہوئے سانپ کو چیونٹیاں کھا جاتی ہیں ۔“

Browse More Moral Stories