Jeet Giya Insaan - Article No. 2210

Jeet Giya Insaan

جیت گیا انسان - تحریر نمبر 2210

تمہارے جانے کے بعد مجھے احساس ہو گیا تھا کہ میں نے تمہیں اضافی پیسے دے دیے ہیں،میں نے مانگنا مناسب نہیں سمجھا،سوچا تمہیں یاد آ جائے گا تو خود ہی دے جاؤ گے

جمعہ 11 مارچ 2022

جمال رومی
بارش کا سلسلہ وقفے وقفے سے جاری تھا۔اس وقت شام کے چار بجے تھے۔عابد چائے کا کپ ہاتھ میں تھامے کھڑکی سے بارش کا نظارہ کر رہا تھا۔
”عابد بیٹا!“امی کی آواز سن کر عابد ان کی جانب متوجہ ہو گیا۔
”جی امی؟“عابد نے سوالیہ نظروں سے امی کی طرف دیکھا۔
”بیٹا مجھے جلدی سے آدھا کلو دہی لا دو۔
“امی نے کہا اور عابد کے ہاتھ میں سو روپے کا نوٹ تھما دیا۔عابد نے عجلت میں چائے ختم کی اور دہی لینے کے لئے گھر سے باہر چلا گیا۔
عابد بارہ سال کا ایک دُبلا پتلا،لیکن ہونہار لڑکا تھا۔وہ مطالعے کا بے حد شوقین تھا۔کم عمری میں اس نے کئی کتابوں کا مطالعہ کر رکھا تھا۔
دودھ دہی کی دکان عابد کے گھر سے زیادہ دور نہیں تھی۔

(جاری ہے)

عابد جلد ہی مرکزی سڑک پر پہنچ گیا۔


”مجید انکل!آدھا کلو دہی دیجیے گا۔“عابد چہرے سے بارش کا پانی صاف کرتے ہوئے دکان دار سے بولا۔
”اچھا بیٹا!ابھی دیتا ہوں۔“انھوں نے جواب دیا اور دہی نکالنے میں مصروف ہو گئے۔
دکان پر لوگ معمول سے بہت کم تھے۔مجید بھائی ایک ادھیڑ عمر کے شریف اور ایمان دار انسان تھے۔ پچھلے کئی برس سے عابد کے محلے میں ان کی دودھ دہی کی دکان تھی۔

عابد نے گھر پہنچتے ہی سب سے پہلے دہی کی تھیلی اور بقایا پیسے امی کے حوالے کیے۔
”یہ کیا ہے عابد؟“امی چونک کر بولیں۔
عابد نے دیکھا امی حیرت سے کبھی دہی کی تھیلی کی طرف دیکھتیں اور کبھی پیسوں کی طرف۔
”کیا ہوا امی؟“عابد نے کہا:”آپ نے دہی لانے کے لئے ہی تو کہا تھا۔“
”ہاں بیٹا!لیکن میں نے صرف سو روپے کا نوٹ دیا تھا۔
“امی نے سرخ نوٹوں کو گنتے ہوئے کہا۔
امی زیرِ لب بڑبڑائیں:”اسی روپے کا دہی،بیس روپے واپس آنے چاہئے تھے،یہ چار سو بیس روپے ہیں۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ مجید بھائی نے پورے چار سو روپے اضافی دے دیے۔شاید یہ سمجھ کر کہ تم نے انھیں پانچ سو روپے کا نوٹ دیا ہے۔“پھر احسان سے کہا:”فوراً جاؤ اور یہ رقم ان کو واپس کرو۔“
امی نے چار سرخ نوٹ عابد کی طرف بڑھائے۔

”امی!آپ یاد کریں،آپ نے پانچ سو روپے کا نوٹ دیا ہو گا۔“عابد بولا۔
عابد کو خود بھی یاد نہیں تھا کہ نوٹ سو کا تھا یا پانچ سو کا۔وہ امی کا دیا ہوا نوٹ مٹھی میں دبا کر سیدھا دکان پر پہنچ گیا تھا۔
”نہیں،مجھے اچھی طرح یاد ہے،میں نے سو روپے کا نوٹ ہی دیا تھا۔“امی نے یقینی انداز میں کہا۔
”اچھا امی!بعد میں چلا جاؤں گا،بارش تیز ہو گئی ہے۔
“عابد نے بہانہ بنایا۔اس وقت اس کا دل نہیں چاہ رہا تھا کہ وہ دوبارہ باہر جائے۔اس کا دل چاہ رہا تھا کہ اتنے اچھے موسم میں کہانیوں کی کوئی مزیدار کتاب پڑھے۔
”نہیں،بہت دور نہیں ہے دکان،ابھی جاؤ۔“امی بولیں اور عابد کو چارونا چار گھر سے باہر جانا ہی پڑا۔دکان پر گتے کا ایک ٹکڑا لگا ہوا تھا:”’وقفہ برائے نماز“۔
”اوہ نماز کا وقت ہے۔
کل دے دوں گا۔“عابد نے سوچا اور گھر لوٹ آیا۔امی کھانا بنانے میں مصروف تھیں اس لئے انھوں نے عابد سے دوبارہ نہیں پوچھا۔
اسکول میں عابد کا اگلا دن بہت اچھا گزرا۔چار سو روپے عابد کی جیب میں پڑے تھے۔اس نے یہ سوچ کر پیسے اپنے پاس رکھ لیے تھے کہ اسکول کی چھٹی کے بعد واپس کر دے گا۔چھٹی کے وقت عابد نے گزشتہ روز والے واقعے کا تذکرہ اپنے دوست ظہیر سے کیا۔

”ارے یار،تو کیا ہوا۔“ظہیر نے عابد کے شانے پر ہاتھ مار کر کہا:”مزے کرو چار سو روپے تمہارے ہو گئے۔“
”کیا مطلب؟“عابد نے پلکیں جھپکائیں:”یہ پیسے میرے کیسے ہو گئے؟“
”ارے بھئی تم نے پیسے چوری تھوڑی کیے ہیں۔“ظہیر نے دلیل دی:”یہ پیسے تمہارے نصیب کے ہیں،تمہاری قسمت میں تھے،اس لئے تمہیں مل گئے،بات ختم۔

ظہیر کی بات سن کر عابد زیر لب بڑبڑایا:”یہ ٹھیک نہیں ہے،یہ ٹھیک نہیں ہے۔“
”ٹھیک نہیں ہے۔“ظہیر نے سوالیہ انداز میں عابد کی بات دہرائی:”تو پھر جاؤ،دکان دار کو یہ پیسے واپس کر دو۔“ظہیر نے لاپروائی کے سے انداز میں کندھے اُچکائے اور آگے بڑھ گیا۔
عابد سر جھکائے بوجھل قدموں سے گھر کی جانب چل پڑا۔اس کا ذہن سوچوں میں گم تھا۔
ظہیر کی بات نے اس کے دل میں ایک عجیب سی ہلچل پیدا کر دی تھی۔اس نے سوچا کہ کیا عابد واقعی ٹھیک کہہ رہا تھا؟
وہ بھی تو کتابیں پڑھتا ہے،وہ غلط کیوں کہے گا،یہ پیسے میں نے چوری نہیں کیے،یہ میری قسمت میں تھے،اس لئے مجھے مل گئے۔
عابد ایک ایماندار لڑکا تھا۔اس نے سوچا:”لیکن اس طرح مجید بھائی کا نقصان ہو گا۔“وہ جتنا زیادہ سوچ رہا تھا اتنا ہی اُلجھتا جا رہا تھا۔
اس کے اندر کا اچھا انسان اسے مسلسل ٹوک رہا تھا کہ ایسا کرنا ہر گز ٹھیک نہیں ہے،لیکن دوسری طرف ظہیر نے جو بات اس کے دماغ میں ڈال دی تھی وہ بات بھی اس کو بے چین کر رہی تھی۔
منفی خیالات سے اس کا ذہن بھرتا جا رہا تھا کہ اس میں میری کیا غلطی ہے،مجید بھائی کو دھیان رکھنا چاہئے تھا۔اگر میں انھیں غلطی سے زیادہ پیسے دے دیتا تو کیا وہ مجھے میرے پیسے واپس کرتے!پھر اسے یاد آیا کہ ایک دن دودھ لینے کے بعد وہ بقایا پیسے لینا بھول گیا تھا تو اگلے دن مجید بھائی نے آواز دے کر اسے بلایا تھا اور پیسے واپس کیے تھے۔

عابد نے اپنے ذہن سے تمام خیالات جھٹکتے ہوئے فیصلہ کر لیا کہ یہ پیسے اب میرے ہیں اور میں انھیں اپنی مرضی سے استعمال کروں گا،اپنی پسند کی چیز خریدوں گا۔اس کے ذہن میں کہانیوں کی وہ کتاب آئی جو اس نے احمد بھائی کی دکان پر دیکھی تھی،لیکن اس وقت خرید نہیں پایا تھا۔اب اس کتاب کو خریدنے کا ارادہ تھا۔پھر اس نے سوچا کہ کتاب تو ابو بھی لا دیں گے۔
میں ان پیسوں سے مزے مزے کی چاکلیٹس خریدوں گا۔
عابد کا اسکول اس کے گھر سے زیادہ فاصلے پر نہیں تھا۔وہ اسکول پیدل ہی آتا جاتا تھا۔جب وہ مجید بھائی کی دکان کے سامنے پہنچا تو ایک لمحے کے لئے اس کے قدم لڑکھڑائے اور وہ ٹھہر گیا۔اس کے اندر سے کوئی کہہ رہا تھا کہ تمہیں پیسے انھیں واپس کر دینے چاہئیں۔وہ کشمکش کا شکار تھا۔دکان پر بھیڑ معمول سے کچھ زیادہ ہی تھی۔
مجید بھائی تندہی سے اپنا کام سر انجام دے رہے تھے۔ان کے چہرے پر ہمیشہ کی طرح مسکراہٹ تھی۔انھوں نے لمحہ بھر کے لئے سر اُٹھایا۔ایک سرسری نظر عابد پر ڈالی اور پھر گاہکوں کو سامان دینے میں مصروف ہو گئے۔عابد تیز قدم اُٹھاتا ہوا گھر کی جانب چل دیا۔وہ مکمل طور پر شیطان کے بہکاوے میں آچکا تھا۔
عابد رات کو سونے کے لئے بستر پر لیٹا تو ایک بار پھر اس کا ذہن ان پیسوں کی طرف چلا گیا۔
اس کی سوچیں منتشر تھیں۔نیند اس سے کوسوں دور تھی۔عابد کروٹیں بدلتا رہا۔نہ جانے کب اس کی آنکھ لگ گئی،تب اسے خواب میں ایک کمرا دکھائی دیا جس میں سفید روشنی تھی۔پھر اسے ایک دھیمی سی مردانہ آواز سنائی دی۔کوئی اُس سے کہہ رہا تھا:”عابد!ایمان دار بنو․․․․نیک بنو․․․․ایمان داری کو کبھی مت چھوڑو․․․․․ایمان داری پر بے ایمانی کو غالب نہیں آنے دو“یہ مہربان آواز عابد نے پہلے کبھی نہیں سنی تھی۔
جیسے وہ اُس کا کوئی بہت ہی قریبی ہو۔
”عابد!کیا تمہیں پہلی جماعت سے سچ بولنا نہیں سکھایا گیا؟کیا تمہارے والدین نے تمہیں بچپن سے ایمان داری کی تلقین نہیں کی؟شیطان کے بہکاوے میں مت آؤ!“عابد نے بولنے کی لاکھ کوشش کی،لیکن اس کی آواز اس کے گلے میں ہی دب گئی۔وہ بول نہیں پا رہا تھا۔وہ کہنا چاہتا تھا کہ وہ بے ایمان نہیں ہے۔وہ تو ظہیر کی باتوں میں آ گیا تھا۔
بہک گیا تھا۔
عابد کی آنکھ کھلی تو اسے دیر تک اس مہربان آواز اور ان نصیحتوں کی بازگشت سنائی دیتی رہی۔اس کے ذہن سے تمام بُرے خیالات یکسر محو ہو چکے تھے۔اس نے پکا ارادہ کر لیا تھا کہ وہ صبح ہوتے ہی مجید انکل کے پیسے واپس کر دے گا۔
عابد خود کو بہت تروتازہ محسوس کر رہا تھا۔اُس کے دل سے بوجھ ہٹ چکا تھا۔صبح سات بجے عابد باہر جانے کے لئے دروازے کی جانب بڑھ گیا۔

عابد دکان پر پہنچا تو مجید بھائی چڑیوں کے لئے لٹکائے ہوئے برتنوں میں دانہ پانی ڈال رہے تھے۔
”مجید انکل!یہ آپ کی امانت میرے پاس رہ گئی تھی۔“عابد مٹھی میں دبائے ہوئے نوٹوں کو مجید انکل کی طرف بڑھاتا ہوا بولا۔اس کی نظریں جھکی ہوئی تھیں۔”پرسوں دہی لینے آیا تھا،اس وقت آپ نے غلطی سے اضافی پیسے واپس کر دیے تھے۔“
”عابد میاں تمہارا بہت شکریہ!“مجید انکل نے عابد کے ہاتھ سے پیسے لیتے ہوئے کہا:”تمہارے جانے کے بعد مجھے احساس ہو گیا تھا کہ میں نے تمہیں اضافی پیسے دے دیے ہیں،میں نے مانگنا مناسب نہیں سمجھا،سوچا تمہیں یاد آ جائے گا تو خود ہی دے جاؤ گے۔

مجید انکل کی دکان سے واپسی پر عابد دلی اطمینان محسوس کر رہا تھا۔اسے خوشی تھی کہ اُس کے اندر کے اچھے انسان کی جیت ہو گئی ہے۔نیکی اور بدی کے انتخاب کی کشمکش میں عابد نے نیکی کا انتخاب کر لیا تھا۔

Browse More Moral Stories