Maghroor Badshah Ka Anjaam - Pehla Hissa - Article No. 2360
مغرور بادشاہ کا انجام (پہلا حصہ) - تحریر نمبر 2360
بادشاہ سلامت نے گزرتے ہوئے آنکھ اٹھا کر بھی اس کی طرف نہیں دیکھا اور باہر نکل گئے
بدھ 28 ستمبر 2022
محمد فہیم عالم
”حضور!السلام علیکم!آپ کا یہ ادنیٰ غلام آپ کی خدمت میں آداب عرض کرتا ہے۔“اس نے جھک کر بادشاہ سلامت کو سلام پیش کیا اور بلند آواز میں بولا۔
”ہاں تو برہان الدین!میں کہہ رہا تھا․․․․“بادشاہ سلامت نے ایک نظر اس کی طرف دیکھ کر ہاتھ کے اشارے سے اس کے سلام کا جواب دیا اور پھر دائیں پہلو میں بیٹھے اپنے وزیر یا تدبیر برہان الدین کی طرف متوجہ ہو گیا۔بادشاہ سلامت کی اس بے رخی پر اسے حیرت و تعجب کا ایک زور دار جھٹکا لگا۔
”بادشاہ سلامت اس وقت مصروف ہیں۔شاید اس لئے توجہ نہیں کی“اس نے سوچا اور دربار کے ایک کونے میں کھڑا ہو گیا۔بادشاہ سلامت اپنے وزیر سے کافی دیر تک گفتگو کرتے رہے۔وہ بے چین اور منتظر نگاہوں سے بادشاہ سلامت کی طرف دیکھ رہا تھا۔
”کوئی اور فریادی تو باقی نہیں ہے؟“بادشاہ سلامت وزیر سے گفتگو مکمل کر چکے تو سوالیہ نظروں سے دروازے پر کھڑے منادی کی طرف دیکھا۔
”نہیں حضور!․․․․“منادی نے عرض کیا۔
”ٹھیک ہے!دربار برخواست کیا جاتا ہے“بادشاہ سلامت کی بارعب آواز دربار میں گونجی۔تمام درباری دروازے کا رخ کرنے لگے۔
”اوہ․․․․!تو یہ بات تھی۔حضور!مجھ سے اکیلے میں ملاقات کرنا چاہتے تھے۔“اس نے دل ہی دل میں سوچا اور وہ دروازے سے گزرتے ہوئے درباریوں کو دیکھتا رہا۔یہاں تک کہ تمام دربار خالی ہو گیا۔بادشاہ سلامت اپنے تخت سے اٹھے اور دروازے کی طرف بڑھے ان کے ساتھ وزیر یا تدبیر اور خدام بھی تھے۔وہ بھی دروازے کے پاس ہی کھڑا تھا۔بادشاہ سلامت نے گزرتے ہوئے آنکھ اٹھا کر بھی اس کی طرف نہیں دیکھا اور باہر نکل گئے۔وہ ہکا بکا انہیں جاتے دیکھتا رہا۔اسے ان سے کم از کم یہ امید نہ تھی۔جب تک بادشاہ سلامت نظروں سے اوجھل نہ ہو گئے اس نے ان سے نظریں نہ ہٹائیں پھر وہ ایک جھٹکے سے اپنی جگہ سے دروازے کی طرف بڑھا۔مارے غم و غصے کے اس کا چہرہ سرخ ہو رہا تھا۔باہر اس کا گھوڑا بندھا ہوا تھا۔وہ گھوڑے پر سوار ہوا اور اس کو ایڑ لگا دی۔کچھ ہی دیر بعد اس کا گھوڑا ہوا سے باتیں کر رہا تھا۔
وہ اپنے ملک یونان کا شاہی طبیب تھا۔اس کا نام حکیم داؤد تھا۔وہ بہت ہی قابل اور ذہین آدمی تھا۔یونان کے بادشاہ سلامت سمیت ہر آدمی اسے بڑی قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھتا تھا۔تقریباً ایک سال قبل اچانک اس کے پڑوسی ملک کا بادشاہ گھوڑے سے گر پڑا جس سے اس کی گردن کے مہرے سرک گئے اور بادشاہ اپنی گردن ہلانے سے قاصر ہو گیا۔اس کی گردن اکڑ کر رہ گئی تھی۔اس کے ملک کے شاہی طبیبوں نے بہت کوشش کی کہ کسی طرح بادشاہ کی گردن کے مہرے واپس اپنی جگہ پر بیٹھ جائیں مگر وہ ناکام رہے۔بادشاہ بے حد تکلیف میں تھا۔اکڑی ہوئی گردن کے ساتھ اس کے لئے ایک ایک لمحہ گزارنا بھاری ہو رہا تھا۔ان دنوں یہ یونانی حکیم داؤد اس پڑوسی ملک میں اپنے ایک دوست حکیم کو ملنے آیا ہوا تھا۔اس کو بادشاہ سلامت کی بیماری کی خبر ملی تو وہ دربار میں حاضر ہوا۔
”حضور!دہکتے ہوئے انگارے منگوائیے․․․․“اس نے عرض کیا۔
بادشاہ سلامت نے ایک خادم کو ہاتھ سے اشارہ کیا کچھ ہی دیر بعد وہ خادم دہکتے ہوئے انگارے لیے حاضر ہو گیا۔حکیم داؤد نے اپنے تھیلے سے چند بیج نکالے اور انگاروں پر ڈال دیئے۔چند لمحوں بعد بیج جلنے لگے۔اور دھواں اُٹھنا شروع ہوا۔
”حضور!جلدی سے ایک زور دار سانس لیجئے․․․․․!“اس نے چلا کر کہا بادشاہ سلامت نے جیسے ہی زور دار سانس لیا۔دھواں ناک میں داخل ہونے کی وجہ سے بادشاہ سلامت کو ایک زور دار چھینک آئی۔اور مہرے اپنی جگہ واپس آگئے۔
”آہا․․․․میری گردن ٹھیک ہو گئی․․․․․“بادشاہ سلامت نے جیسے ہی اپنی گردن ہلائی مارے خوشی کے وہ چلا اُٹھے۔
”مانگ اے پردیسی طبیب!کیا مانگتا ہے․․․․․؟“بادشاہ سلامت نے پُرجوش لہجے میں پوچھا۔
”حضور!خدا کا دیا ہوا اس غلام کے پاس سب کچھ ہے۔آپ ہمارے ملک یونان کے بادشاہ کے دوست ہیں بادشاہ یونان اس خادم کو دوست رکھتے ہیں۔اور دوست کا دوست بھی دوست ہوتا ہے۔
(جاری ہے)
”حضور!السلام علیکم!آپ کا یہ ادنیٰ غلام آپ کی خدمت میں آداب عرض کرتا ہے۔“اس نے جھک کر بادشاہ سلامت کو سلام پیش کیا اور بلند آواز میں بولا۔
”ہاں تو برہان الدین!میں کہہ رہا تھا․․․․“بادشاہ سلامت نے ایک نظر اس کی طرف دیکھ کر ہاتھ کے اشارے سے اس کے سلام کا جواب دیا اور پھر دائیں پہلو میں بیٹھے اپنے وزیر یا تدبیر برہان الدین کی طرف متوجہ ہو گیا۔بادشاہ سلامت کی اس بے رخی پر اسے حیرت و تعجب کا ایک زور دار جھٹکا لگا۔
”بادشاہ سلامت اس وقت مصروف ہیں۔شاید اس لئے توجہ نہیں کی“اس نے سوچا اور دربار کے ایک کونے میں کھڑا ہو گیا۔بادشاہ سلامت اپنے وزیر سے کافی دیر تک گفتگو کرتے رہے۔وہ بے چین اور منتظر نگاہوں سے بادشاہ سلامت کی طرف دیکھ رہا تھا۔
(جاری ہے)
”کہ شاید بعد میں وہ اس کی طرف متوجہ ہوں“ اُس نے سوچا۔
”کوئی اور فریادی تو باقی نہیں ہے؟“بادشاہ سلامت وزیر سے گفتگو مکمل کر چکے تو سوالیہ نظروں سے دروازے پر کھڑے منادی کی طرف دیکھا۔
”نہیں حضور!․․․․“منادی نے عرض کیا۔
”ٹھیک ہے!دربار برخواست کیا جاتا ہے“بادشاہ سلامت کی بارعب آواز دربار میں گونجی۔تمام درباری دروازے کا رخ کرنے لگے۔
”اوہ․․․․!تو یہ بات تھی۔حضور!مجھ سے اکیلے میں ملاقات کرنا چاہتے تھے۔“اس نے دل ہی دل میں سوچا اور وہ دروازے سے گزرتے ہوئے درباریوں کو دیکھتا رہا۔یہاں تک کہ تمام دربار خالی ہو گیا۔بادشاہ سلامت اپنے تخت سے اٹھے اور دروازے کی طرف بڑھے ان کے ساتھ وزیر یا تدبیر اور خدام بھی تھے۔وہ بھی دروازے کے پاس ہی کھڑا تھا۔بادشاہ سلامت نے گزرتے ہوئے آنکھ اٹھا کر بھی اس کی طرف نہیں دیکھا اور باہر نکل گئے۔وہ ہکا بکا انہیں جاتے دیکھتا رہا۔اسے ان سے کم از کم یہ امید نہ تھی۔جب تک بادشاہ سلامت نظروں سے اوجھل نہ ہو گئے اس نے ان سے نظریں نہ ہٹائیں پھر وہ ایک جھٹکے سے اپنی جگہ سے دروازے کی طرف بڑھا۔مارے غم و غصے کے اس کا چہرہ سرخ ہو رہا تھا۔باہر اس کا گھوڑا بندھا ہوا تھا۔وہ گھوڑے پر سوار ہوا اور اس کو ایڑ لگا دی۔کچھ ہی دیر بعد اس کا گھوڑا ہوا سے باتیں کر رہا تھا۔
وہ اپنے ملک یونان کا شاہی طبیب تھا۔اس کا نام حکیم داؤد تھا۔وہ بہت ہی قابل اور ذہین آدمی تھا۔یونان کے بادشاہ سلامت سمیت ہر آدمی اسے بڑی قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھتا تھا۔تقریباً ایک سال قبل اچانک اس کے پڑوسی ملک کا بادشاہ گھوڑے سے گر پڑا جس سے اس کی گردن کے مہرے سرک گئے اور بادشاہ اپنی گردن ہلانے سے قاصر ہو گیا۔اس کی گردن اکڑ کر رہ گئی تھی۔اس کے ملک کے شاہی طبیبوں نے بہت کوشش کی کہ کسی طرح بادشاہ کی گردن کے مہرے واپس اپنی جگہ پر بیٹھ جائیں مگر وہ ناکام رہے۔بادشاہ بے حد تکلیف میں تھا۔اکڑی ہوئی گردن کے ساتھ اس کے لئے ایک ایک لمحہ گزارنا بھاری ہو رہا تھا۔ان دنوں یہ یونانی حکیم داؤد اس پڑوسی ملک میں اپنے ایک دوست حکیم کو ملنے آیا ہوا تھا۔اس کو بادشاہ سلامت کی بیماری کی خبر ملی تو وہ دربار میں حاضر ہوا۔
”حضور!دہکتے ہوئے انگارے منگوائیے․․․․“اس نے عرض کیا۔
بادشاہ سلامت نے ایک خادم کو ہاتھ سے اشارہ کیا کچھ ہی دیر بعد وہ خادم دہکتے ہوئے انگارے لیے حاضر ہو گیا۔حکیم داؤد نے اپنے تھیلے سے چند بیج نکالے اور انگاروں پر ڈال دیئے۔چند لمحوں بعد بیج جلنے لگے۔اور دھواں اُٹھنا شروع ہوا۔
”حضور!جلدی سے ایک زور دار سانس لیجئے․․․․․!“اس نے چلا کر کہا بادشاہ سلامت نے جیسے ہی زور دار سانس لیا۔دھواں ناک میں داخل ہونے کی وجہ سے بادشاہ سلامت کو ایک زور دار چھینک آئی۔اور مہرے اپنی جگہ واپس آگئے۔
”آہا․․․․میری گردن ٹھیک ہو گئی․․․․․“بادشاہ سلامت نے جیسے ہی اپنی گردن ہلائی مارے خوشی کے وہ چلا اُٹھے۔
”مانگ اے پردیسی طبیب!کیا مانگتا ہے․․․․․؟“بادشاہ سلامت نے پُرجوش لہجے میں پوچھا۔
”حضور!خدا کا دیا ہوا اس غلام کے پاس سب کچھ ہے۔آپ ہمارے ملک یونان کے بادشاہ کے دوست ہیں بادشاہ یونان اس خادم کو دوست رکھتے ہیں۔اور دوست کا دوست بھی دوست ہوتا ہے۔
(جاری ہے)
Browse More Moral Stories
آزادی کی چھاؤں
Azadi Ki Chhaon
ایک وفادار نیولا
Ek Wafadar Nevla
ظالم بادشاہ
Zalim Badsha
خلوص کے برتن
Khuloos Ke Bartan
ایک ہی راستہ
Aik Hi Rasta
احمد کا گھوڑا
Ahmad Ka Ghora
Urdu Jokes
بجلی
bijli
ماہرنفسیات
Mahir e Nafsiyat
عورت نے دوسری سے
Aurat ne doosri se
نکاح
Nikah
ٹرین
Train
ماسٹر صاحب
Master sahib
Urdu Paheliyan
بن کھانے کی چیز کو کھایا
bin khane ki cheez ko khaya
دیکھا ایک ایسا دربار
dekha ek aisa darbar
دھرا پڑا ہے سرخ پیالہ
dhara para hai surkh piala
کتیا بھونک کہ جو کہتی ہے
kutiya bhounk ke jo kehti hai
جال کے اوپر چڑیا آئے
jaal ke opar chirya aye
یہ نہ ہو تو کوئی پرندہ
ye na ho tu koi parinda
ArticlesStoriesMiscellaneousGamesBaby NamesUrdu Videos