Mars K Musafir - Article No. 1410

Mars K Musafir

مریخ کے مسافر - تحریر نمبر 1410

یہ راکٹ زمین سے بھیجا گیا آخری راکٹ تھا ،جو مریخ پر پہنچ گیا تھا۔

ہفتہ 11 مئی 2019

حسام عباس
یہ راکٹ زمین سے بھیجا گیا آخری راکٹ تھا ،جو مریخ پر پہنچ گیا تھا۔ایٹمی جنگ کے خوف سے انسانوں کو مریخ پر بسانے کا منصوبہ بنایاگیا تھا۔اس مقصد کے لیے یہاں محفوظ مکانات ،باغات اور دوسری ضروری تعمیرات پہلے ہی مکمل کرلی گئی تھیں ۔بہت سے افراد مریخ پر پہنچائے جا چکے تھے ۔راکٹ سبزہ زار میں محفوظ طریقے سے اُترا اور چند لمحوں بعد اس کی تھرتھراہٹ ختم ہوگئی۔
راکٹ کا دروازہ ہلکی سی آواز کے ساتھ کھلا اور اس میں سے بہت سے افراد سبزہ زار پر چھلانگیں لگا کر اُترے ۔
ان کی تعداد چھبیس تھی ۔ان میں جوزف ،اس کی بیوی ڈیلا اور دو بچے جارج اور میلن بھی شامل تھے،جو اِدھر اُدھر دیکھ رہے تھے،جب کہ ان کے ساتھ آئے ہوئے باقی افراد چہل قدمی کرتے ہوئے پہلے سے بنائی ہوئی محفوظ بستی کا رُخ کررہے تھے ۔

(جاری ہے)

جوزف کو یوں محسوس ہوا جیسے مریخ کی تندوتیزہواؤں اور سردموسم سے ان کی صحت خراب ہو جائے گی۔

ہوا کے تھپیڑے ان کے چہرے پر جیسے چبھ رہے تھے۔
اچانک جوزف نے کہا:”مجھے لگتا ہے کہ ہمیں واپس زمین پر جانا ہو گا۔یہ جگہ ٹھیک نہیں ہے۔“
”واپس ؟تم ہوش میں تو ہو جوزف!“ڈیلانے اسے گھورتے ہوئے جواب دیا۔
”ہاں،تم نہیں سمجھ پاؤگی۔ہمیں فوراً زمین پر لوٹ جانے کی تیاری کرنی چاہیے۔“جوزف نے کہا۔
”سنو!ہم لوگ زمین سے کروڑوں میل دور آچکے ہیں ۔
سنا تم نے ،میں نے کیا کہا؟کروڑوں میل․․․․․“ڈیلانے ایک ایک لفظ چباتے ہوئے ادا کیا۔
”مگر میں ․․․․․․“
”میرا خیال ہے ،ہمیں بستی کی جانب چلنا چاہیے۔جارج ،ایلن!تم دونوں جلدی میرے پاس آؤ۔“ڈیلا ،جوزف کی بات کاٹتے ہوئے آگے بڑھ گئی۔
بستی میں بہت سے لوگ آس پاس کی دکانوں میں بیٹھے ،خوش گپیوں میں مشغول تھے۔جوزف شش وپنج میں مبتلا تھا کہ اسے کیا کرنا چاہیے۔
وہ ڈیلا کو کیسے یقین دلائے کہ یہاں کا ماحول انسانوں کے لیے سازگار نہیں ہے ۔یہی سوچتے سوچتے وہ اس گھر کے سامنے پہنچ چکا تھا،جو انھوں نے دس لاکھ ڈالر میں خریدا تھا۔
” سنو جارج!تم ان کھنڈرات میں بالکل نہیں جاؤ گے۔ایلن کو بھی بتا دینا ۔وہاں خطرہ ہے۔“جوزف نے تھکے ہوئے سے انداز میں جارج کو ہدایت کی۔
جارج نے سر ہلادینے پر ہی اکتفاکیا۔
وہ لوگ نئے گھر میں داخل ہو چکے تھے۔
”چھے مہینے گزرگئے ہیں ۔ہمارے باغیچے میں اُگی ہوئی سبزیوں کا ذائقہ کافی عجیب ساہے اور گھاس کا رنگ بھی بدل چکا ہے ۔“جوزف نے افسردگی سے کہا اور کھڑکی سے باہر دیکھنے لگا،جہاں کچھ لڑکے بے فکر ہو کر فٹ بال کھیل رہے تھے۔
”میں جانتی ہوں۔“ڈیلانے بے پرواہوکر جوزف کو جواب دیا۔
جوزف نے کہا:”میں تو اب بھی کہوں گا کہ ہمیں واپس ہو جانا چاہیے،یہاں کا ماحول اچھا نہیں ہے ۔
یہ موسم ہمارے جسم کا حلیہ بگاڑدے گا۔“
”میں ایسا بالکل نہیں سمجھتی“ڈیلانے ایک نظر جوزف کو دیکھا اور دوبارہ کتاب پڑھنے میں مصروف ہوگئی۔
”پاپا!پاپا!وہ ہو گیا․․․․․․جیسا سوچا․․․․․․تھا․․․․․“ایلن لڑکھڑاتی ہوئی آئی اور جوزف کے قریب گرکرپھوٹ پھوٹ کررونے لگی۔
”ہم کبھی واپس گھر نہیں جاسکیں گے۔کبھی نہیں․․․․“
”ایلن میری بیٹی !کیا ہوا ہے ؟پلیز ،مجھے بتاؤ!“جوزف نے پریشانی کے عالم میں پوچھا۔

”ریڈیوپر․․․․․ریڈیو پر بتایا جارہا تھا کہ ․․․․․․ایٹمی جنگ شروع ہو چکی ہے۔ایک بم ہمارے شہر پربھی گراہے۔شہر مکمل تباہ ہو چکا ہے۔اگر یہ جنگ جاری رہی تو دنیا سے ہر قسم کے جانداروں کا خاتمہ ہو جائے گا۔اب شاید زمین سے ہمارا رابطہ منقطع ہو جائے گا۔“ایلن نے روتے ہوئے ساری بات جوزف کو بتائی۔
جوزف کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر روئے ،خوب چیخے اور چلائے اور ایسی مایوس کن خبر سنانے کے ”جرم“میں بیٹی کو خوب ڈانٹے ،مگر اس نے گہری سانس لے کر ایلن کا سراپنے سینے سے لگالیا۔

چند ہفتوں بعد جوزف مرکزی مارکیٹ سے گزرا۔لوگ بے فکر بیٹھے تھے اور ہنسی مذاق جاری تھا۔جوزف کو بہت جھنجلاہٹ محسوس ہوئی۔اس نے چلا کر کہا:”بس کرو․․․․․!بس کرواب!بہت ہو چکا۔میں تم لوگوں کو آخری بار خبر دار کررہاہوں کہ واپس چلو،یہاں سے !یہ جگہ انسانوں کے لیے نہیں ہے۔“
لوگ حیرت زدہ ہو کر ایک دوسرے کو دیکھنے لگے اور پھر یکا یک ایک زبردست قہقہہ اُمڈ پڑا ۔
تمام لوگ ہنس کر لوٹ پوٹ ہونے لگے۔
”ارے جیمز!میرے دوست!تم تو میری بات کا یقین کرو۔تم نے کبھی سوچا بھی ہے کہ․․․․․“
”ہاں!میں نے سوچا ہے جوزف! کہ میں یہاں ․․․․․․بہت خوش ہوں۔“
”بکواس بند کرو۔دیکھو اپنی آنکھیں․․․․․“
”کیا ہوا میری آنکھوں کو ؟“
”یہ سر مئی رنگ کی تھیں نا؟“
”یقینا ،تھیں۔

”تواب دیکھو جیمز!ان میں سنہری نقطے نمودار ہو چکے ہیں۔“
جیمز ایک لمحے کے لیے چونک اُٹھا۔پھر اس نے ہیری سے آئینہ مانگا اور جوزف کودیتے ہوئے کہا:”لو،دیکھو ،تمھاری آنکھیں تو سنہری ہو بھی چکی ہیں اور․․․․․․اور اپنی جلد کارنگ دیکھو،کیسا سیاہ رنگ ہے۔پہلے تم بھی تو ایسے نہیں تھے نا؟“
لوگ ایک دوسرے کو دیکھ دیکھ کر ہنسنے لگے۔
جوزف خون کے گھونٹ پی کررہ گیا۔”دیکھوجیمز!تمھیں میرے ساتھ چلنا چاہیے۔ہم مل کر راکٹ ٹھیک کریں گے۔پلیز ․․․․․“‘
”نہیں،بالکل نہیں،میں نہیں جانا چاہتا زمین پر۔اس جہنم میں جہاں انسان کی کوئی قیمت نہیں ہے۔
قیمت ہے تو صرف بادشاہت کی ،حکومت کی ،خزانے کی۔ہر کوئی یہ چاہتا ہے ،پوری دنیا اس کے قبضے میں آجائے ۔نہیں ،کبھی نہیں۔

جوزف لوٹ آیا۔اس نے جارج کو ساتھ لیا اور راکٹ کی خرابی دور کرنے کی کوشش کرنے لگا۔ایلن اور اس کی ماں ڈیلا ،ان کے ساتھ بیٹی نہر کے پار ،سیاہ پہاڑوں کو دیکھ رہی تھیں۔
چھے سال بعد ایک اور راکٹ مریخ کی سطح پر اُترا اور کچھ لوگ یہ چلاتے ہوئے کودے:”جنگ ختم ہو چکی ہے ۔ہم نے جنگ جیت لی ہے ۔ہمارا ملک فتح یاب ہوا ہے ۔اب تمھیں لوٹ آنا چاہیے۔
اے عظیم ملک کے عظیم باشندو!ہم تمھیں لینے آئے ہیں۔“
کچھ دیر بعد کچھ سپاہی،کرنل رابرٹ ڈوسن کے پاس آئے اور کہا:”جناب!قصبہ ویران ہو چکا ہے ۔
ہماری کھودی ہوئی نہر خشک اور تعمیر شدہ عمارتیں سیاہ ہو چکی ہیں ۔گھر ،باغیچے ،سیب اور آڑو کے فارم ،مارکیٹ اور زمینی رابطہ سینٹر جو ہم نے روبوٹس کے ذریعے سے قائم کیے تھے،سب سیاہ ہو چکے ہیں۔

کرنل نے پوچھا :”کسی سے بات ہوئی تم لوگوں کی؟“
سپاہی نے بتایا:”نہیں جناب !بستی ویران ہے۔البتہ ایک جگہ سے ایک تباہ حال راکٹ ملا ہے۔“
”اور کچھ ․․․․․․․“ کرنل نے حیرت سے پوچھا۔
”جناب!سیاہ پہاڑوں کے پار کچھ لوگ ملے ہیں ۔وہ کالی رنگت اور سنہری آنکھوں والے ہیں۔وہ ذہنی طور پر کمزور ہیں،لیکن ہماری زبان آسانی سے سمجھ لیتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ہم زمین پر رہنا چاہتے ہیں۔“
”مجھے لگتا ہے کہ ہمارے بھیجے ہوئے امریکیوں کو ان ہی لوگوں نے مار دیا ہے ۔“
مگر جناب!یہ مریخی لوگ بڑے امن پسند ہیں۔مجھے لگتا ہے کہ کسی وبا کی وجہ سے ہمارے لوگوں کا خاتمہ ہوا ہوگا۔“
”فوراً واپس چلنے کی تیاری کرو،یہ جگہ رہنے کے قابل نہیں ہے۔“
کاش!انھیں کوئی یہ بتادیتا کہ جنھیں تم مریخ کی مخلوق سمجھ رہے ہو،وہ تمھارے ہی ہم وطن ہیں۔“

Browse More Moral Stories