Pachtawa - Article No. 2190

Pachtawa

پچھتاوا - تحریر نمبر 2190

کاش وہ صرف اور صرف پڑھائی پر توجہ دیتا وہ دوسروں کی گاڑیاں،موبائل اور پاکٹ منی سے متاثر نہ ہوتا اور محنت کرکے اپنی زندگی سنوارتا،ماں باپ کی دل آزاری نہ کرتا․․․․!۔لیکن اب کیا ہو سکتا ہے،اب تو وقت گزر چکا جو کبھی واپس نہیں آ سکتا چاہے وہ کتنا ہی پچھتائے

منگل 15 فروری 2022

عطرت بتول
”پاپا آج آپ میرے سکول مجھے لینے نہ آئیے گا میں خود ہی آ جاؤں گا“ سرمد نے سکول بیگ کاندھے پر لٹکایا اور گیٹ کی طرف جاتے ہوئے پاپا سے کہا۔ ”کیوں؟“ پاپا حیران ہو کر بولے”وہ اصل میں پاپا مجھے شرم آتی ہے آپ کی پرانی سی موٹر سائیکل پر بیٹھتے ہوئے،میرے سب دوستوں کے پاس گاڑیاں ہیں ان کے ڈرائیور یا ان کے والدین انہیں گاڑیوں میں لینے آتے ہیں“ سرمد کی بات سن کر اس کے پاپا کا چہرہ اُتر گیا اور وہ تیزی سے واپس مڑ گئے اور سرمد سکول کے اندر چلا گیا۔
یہ آج صبح کا واقعہ پہلا نہیں تھا،روزانہ سرمد کا سکول جانے سے پہلے موڈ خراب ہو جاتا تھا وہ تمام راستے خاموشی سے بائیک پر بیٹھا رہتا تھا آج پاپا نے پوچھ لیا تھا تو یہ جواب ملا کہ اسے بائیک پر بیٹھتے ہوئے شرم آتی ہے۔

(جاری ہے)


سرمد کے پاپا کا ایک چھوٹا سا جنرل سٹور تھا،وہ زیادہ پڑھے لکھے نہیں تھے لیکن وہ چاہتے تھے کہ ان کے بچے پڑھ لکھ جائیں اور اچھے انسان بنیں اس کے لئے وہ بہت محنت کرتے تھے،اسی وجہ سے انہوں نے سرمد کو بہت اچھے سکول میں داخل کروایا تھا،اس کے دو چھوٹے بھائی اور بہن بھی اسی سکول میں پڑھتے تھے،سرمد سب میں بڑا تھا اور ساتویں کلاس میں پڑھتا تھا،پاپا کو اس سے بہت اُمیدیں تھیں لیکن سرمد کی وہاں چند امیر زادوں سے دوستی ہو گئی تھی،وہ ان کی گاڑیاں اور ان کی پاکٹ منی دیکھ کر ان جیسا ہی بننا چاہتا تھا اور پاپا کو بہت تنگ کرنے لگا تھا، کبھی کہتا مجھے آپ کا سستا سا موبائل دیکھ کر بہت شرم آتی ہے اسے باہر نہ لے کر جایا کریں،کبھی بائیک پر بیٹھتے ہوئے موڈ خراب کر لیتا۔

اسے ذرا احساس نہ تھا کہ اپنے محدود وسائل کے باوجود اس کے پاپا اس کی زندگی بہتر بنانے کے لئے کتنی محنت کرتے ہیں، اس کی ماما کپڑوں کی سلائی کرتی ہیں دونوں سارا دن کام کرکے تھک جاتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ سرمد اور اس کے بہن بھائیوں کی فرمائشیں پوری کریں۔
سرمد کی غلط سوچ اور اس کے منفی رویے کا اثر اس کے چھوٹے بہن بھائیوں پر بھی پڑ رہا تھا جس وجہ سے ماما پاپا ہر وقت پریشان رہنے لگے تھے۔
آخر ایک دن اس کے پاپا کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا تنگ آ کر انہوں نے سرمد سے کہا ”بس کل سے تم سکول نہیں جاؤ گے،میرے ساتھ دوکان پر بیٹھو گے“ کیا․․․․؟
سرمد نے حیرانی سے پوچھا تو پاپا بولے”تمہیں اپنی غربت پر شرم آتی ہے،آج تم پارٹی کے لئے مہنگے کپڑوں کی ضد کر رہے ہو جو میں افورڈ نہیں کر سکتا یہ ہی کر سکتا ہوں کہ تمہیں سکول ہی نہ بھیجوں“ ”ٹھیک ہے“ سرمد نے بھی غصے سے کہا اور زور سے دروازہ بند کرتا ہوا باہر نکل گیا․․․․!
آج اس بات کو بہت سال ہو گئے ہیں سرمد کے چھوٹے بہن بھائی پڑھ لکھ چکے ہیں اور اس سے بہت آگے نکل چکے ہیں۔
چھوٹے بھائی نے میٹرک میں پوزیشن لی تو اسے سکالر شپ مل گئی باقی پڑھائی اس نے سکالر شپ پر کی اس کے پاپا اس سے بہت خوش تھے،بہن کو تعلیم مکمل کرنے کے بعد لکچرر شپ مل گئی،سرمد سے دوسرے نمبر والا اس سے چھوٹا بھائی ڈاکٹر بن گیا۔آج سرمد افسردہ سا جنرل سٹور پر بیٹھا ہوتا ہے اور سوچتا ہے کاش اس کی سوچ غلط نہ ہوتی،کاش وہ صرف اور صرف پڑھائی پر توجہ دیتا وہ دوسروں کی گاڑیاں،موبائل اور پاکٹ منی سے متاثر نہ ہوتا اور محنت کرکے اپنی زندگی سنوارتا،ماں باپ کی دل آزاری نہ کرتا․․․․!۔
لیکن اب کیا ہو سکتا ہے،اب تو وقت گزر چکا جو کبھی واپس نہیں آ سکتا چاہے وہ کتنا ہی پچھتائے۔
بچو․․․․!آپ اس کہانی سے سبق سیکھیں،آپ کا وقت بہت قیمتی ہے اسے ضائع نہ کریں۔امیر بچوں کی نقل کرنے کی کوشش نہ کریں،جو ماں باپ لے کر دیں اس پر خوش رہیں ہمیشہ اپنے سے نیچے والوں کو دیکھیں کہ وہ کیسے زندگی گزارتے ہیں،اپنی توجہ صرف اور صرف پڑھائی پر مرکوز رکھیں،صرف اسی سے آپ کی زندگی بہترین بن سکتی ہے۔

Browse More Moral Stories