Mehnat Ka Jadu - Article No. 1603

Mehnat Ka Jadu

محنت کا جادو - تحریر نمبر 1603

دور دراز کے کسی قصبے میں ایک محنتی لکڑ ہارا رہتا تھا۔وہ دن بھر کڑی محنت سے قریبی جنگل میں لکڑیاں کا ٹا کرتا تھا۔شام ہوتے ہی وہ کٹی ہوئی لکڑیاں قصبے کے بازار میں بیچ آتا۔

منگل 17 دسمبر 2019

عرفان الحق
دور دراز کے کسی قصبے میں ایک محنتی لکڑ ہارا رہتا تھا۔وہ دن بھر کڑی محنت سے قریبی جنگل میں لکڑیاں کا ٹا کرتا تھا۔شام ہوتے ہی وہ کٹی ہوئی لکڑیاں قصبے کے بازار میں بیچ آتا۔ان لکڑیوں کے بدلے اسے جتنے پیسے ملتے وہ بہت زیادہ تونہ ہوتے تھے ،مگر سادہ مزاج لکڑہارے اور اس کی بیوی کی گزر بسر کے لیے کافی ہوتے۔
دونوں میاں بیوی کے ہاں کوئی اولاد نہیں تھی جس کی کمی دونوں کو بہت محسوس ہوتی تھی اور وہ نیک اولاد کے لیے اللہ میاں سے دعائیں مانگتے رہتے تھے۔بچوں کی غیر موجودگی انھیں افسردہ بھی کردیا کرتی تھی،مگر اسے اللہ کی رضا جان کے مطمئن ہو جایا کرتے تھے۔لکڑہارے نے گھر کا سونا پن دور کرنے اور اپنی بیوی کا دل بہلانے کے لیے ایک طوطاپال رکھا تھا۔

(جاری ہے)

طوطے کی ٹیں ٹیں اور بول چال چھوٹے سے گھر میں رونق لگائے رکھتی تھی۔
لکڑہارے کی بیوی اس طوطے سے بے حد پیار کرتی تھی۔اس طوطے کی ایک خاص بات یہ بھی تھی کہ اس کے پَروں میں سے دو چمکتے ہوئے پَر سنہرے رنگ کے بھی تھے۔ان پَروں کی چمک اتنی تھی کہ وہ سونے کے معلوم ہوتے تھے۔اس خوبی نے اس طوطے کی خوب صورتی میں چار چاند لگا دیے تھے۔سارے قصبے میں لکڑہارے کے اس طوطے کی دھوم تھی۔
بہت سے لوگوں نے لکڑہارے اور اس کی بیوی سے اس طوطے کو منہ مانگے داموں میں خریدنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا،مگر دونوں میاں بیوی اس طوطے کو اپنی اولاد کی طرح پیار کرتے تھے،اس لیے انھوں نے طوطے کو فروخت کرنے سے صاف انکار کردیا۔
اس قصبے میں رحمو نام کا ایک لڑکا بھی رہتا تھا۔جو قصبے کے واحد حلوائی کا اکلوتا ،مگر نکما بیٹھا تھا۔حلوائی کی شدید خواہش تھی کہ رحمو کاروبار میں اس کا ہاتھ بٹائے،مگر رحمو کا کام دن بھر شیخیاں بگھارنا اور جادوئی کہانیاں پڑھنا تھا۔
جادوئی کہانیاں پڑھ پڑھ کر وہ اپنے آپ کو بھی کسی طلسمی کہانی کا کردار سمجھنے لگا تھا اور کسی جادوئی ذریعے سے پیسے کمانا اس کی زندگی کا واحد مقصد بن کررہ گیا تھا۔اس نے جانے کہاں سے سن لیا کہ لکڑہارے کا طوطا کوئی عام طوطا نہیں ہے،بلکہ یہ ایک جادوئی طوطا ہے۔اس کے دونوں سنہرے پَروں کو روشنائی میں ڈبو کر مخصوص طریقے سے جو بھی لکھا جائے گا وہ سچ ہو جائے گا۔
جو تصویر بنائی جائے گی وہ حقیقت کا روپ دھار لے گی۔یہ سب کچھ جانتے ہی وہ لکڑہارے اور اس کی بیوی کے پیچھے پڑ گیا کہ وہ کسی نہ کسی طرح طوطا اس کے ہاتھ فروخت کردیں،مگر دونوں نے ہمیشہ کی طرح اس بار بھی صاف انکار کردیا۔ان کے اس حد درجہ انکار نے رحمو کا شک یقین میں بدل دیا کہ ہو نہ ہویہ طوطا جادوئی طوطا ہے،جبھی یہ لوگ اسے کسی قیمت پر فروخت کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

اب حال یہ تھا رحموطوطا حاصل کرنے کے لیے دن بھر مختلف منصوبے بنا تا رہتا تھا۔بہت سوچ بچار کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ اس طوطے کو چرائے بغیر کوئی اور طریقہ نہیں ہے۔لکڑہارے کے گھر کی دیوار زیادہ اونچی نہیں تھی۔رحمو کے خیال میں رات کے اندھیرے میں وہ آسانی سے اس دیوار کو پھلانگ کر طوطے کا پنجرہ اُٹھا کے لا سکتا تھا۔طوطے کے شور سے بچنے کے لیے اس نے دو تین ہری مرچیں بھی رکھ لیں تھیں۔
ایک رات جب سب گہری نیند سورہے تھے ،رحمو اپنے گھر سے نکلا۔اس نے کالے رنگ کا چست لباس پہن رکھا تھا۔جس نے اسے تاریکی کا حصہ بنا دیا تھا۔سارا قصبہ سنسان پڑا تھا دور دور تک کوئی نظر نہیں آرہا تھا۔وہ احتیاط سے چلتا ہوا لکڑہارے کے گھر جا پہنچا۔آگے پیچھے نظر دوڑا کر وہ جھٹکے سے دیوار پر چڑھ گیا،مگر جب دوسری طرف اُترنا چاہا تو ایک دم اس کا پاؤں پھسلا اور زور دار آواز کے ساتھ رحمو لکڑہارے کے صحن میں جاگرا۔

لکڑہارا صحن میں بچھی ہوئی چار پائی پر سورہا تھا۔وہ رحمو کے گرنے کی زور دار آواز سے آنکھیں ملتا ہوا جاگ اُٹھا۔حواس بحال ہونے پر کیا دیکھتا ہے کہ گھر کے صحن میں ایک اجنبی شخص سر سے لے کر پاؤں تک کالے کپڑوں اور چہرے پر نقاب ڈالے پڑا کراہ رہا ہے۔لکڑہارے نے چور چور،کا شور مچادیا اور دیکھتے ہی دیکھتے آس پاس کے گھروں سے لوگ ڈنڈے لے کر لکڑہارے کے گھر میں داخل ہو گئے۔
چور کو دیکھ کر غصہ تو سب کو بہت آیا ،مگر اس کی یہ حالت اور درد بھری صدائیں سن کر اس چور کو اُٹھایا اور چار پائی پر لٹا کر اس کا نقاب اُلٹ دیا۔
نقاب کا اُلٹنا تھا کہ رحمو کا چہرہ سب کے سامنے آگیا۔لوگوں پر حیرت کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔چھوٹے سے قصبے میں سب لوگ ایک دوسرے سے واقف ہوتے ہیں۔رحمو کے ابا سب کی نظر میں ایک شریف انسان تھے ،کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ان کا بیٹا رحمو اس طرح چوری کرتے ہوئے پکڑا جائے گا۔
رحمو کا بھی شرم اور درد سے حال بُرا تھا۔اس کا دل چاہتا تھا کہ زمین پھٹ جائے اور وہ اس میں سما جائے،تاکہ اسے لوگوں اور اپنے ابو کا سامنا نہ کرنا پڑے،مگر اب پچھتائے کیا جب چڑیا چگ گئی کھیت۔
اس کے والد کو گھر سے بلوایا گیا۔وہ آئے اور غصے میں لگے اس کو مارنے پیٹنے۔بڑی مشکل سے قصبے والوں نے رحمو کو بچایا۔سب اس کی اس گھٹیاحرکت کی وجہ جاننا چاہتے تھے۔
پہلے تو ندامت کے مارے رحمو کی آواز نہ نکلی،مگر جب لوگوں کا دباؤ بڑھا اور پولیس کو بلائے جانے کی دھمکی دی گئی تونا چار رحمو نے اپنا منہ کھولا اور اپنی بے وقوفی کا سارا ماجرا قصبے والوں کو سنا ڈالا۔رحمو کی بات سن کر کچھ لوگ تو قہقہہ لگا کر ہنس پڑے اور رحمو کا مذاق اُڑانے لگے،جب کہ کچھ لوگ ،جواب بھی بھوت پریت اور جادو ٹونے کو حقیقت مانتے تھے،وہ اس بات کو آزمانے کا مشورہ دینے لگے۔
لکڑہارا اور اس کی بیوی اس بات کے سختی سے مخالف تھے،کیونکہ اس سے ان کے طوطے کو تکلیف پہنچتی،مگر جب سب کا اصرار بہت بڑھا تو انھیں بھی اجازت دینا پڑی۔
قینچی لائی گئی اور طوطے کی ٹیں ٹیں کی پروانہ کرتے ہوئے اس کے دونوں سنہرے پَروں کو کتر دیاگیا۔ پڑوس کے گھر سے روشنائی لاکر،رحمو کو دیے گئے کہ وہ جس طرح چاہے،اپنی اور مجمع میں موجود اپنے جیسے دوسرے لوگوں کی تسلی کرلے۔
رحمو نے ایک چھوٹا سا پرندہ بنایا اور انتظار کرنے لگا کہ کب اس کے بنائے ہوئے پرندے میں جان آئے اور آسمانوں میں اُڑتا چلا جائے،مگر کافی دیر بعد بھی اس تصویر میں کسی قسم کے زندگی کے آثار نظر نہ آئے تو رحمو کی پشیمانی اور بھی بڑھ گئی۔جادو وغیرہ کے چکر میں پڑ کر اپنی اور اپنے والد کی عزت ہمیشہ کے لیے گنوادینے کا احساس اس پر حاوی ہونے لگا۔
رحمو پھوٹ پھوٹ کر روتے ہوئے لکڑہارے کے قدموں میں گر پڑا اور معافی مانگنے لگا۔لکڑ ہارے نے اسے اُٹھا کر گلے سے لگالیا۔
اس کے آنسو پونچھ کر کہنے لگا کہ بیٹا!تم میرے چھوٹے بھائی کی طرح ہو،اس لیے معافی مانگنے کی تو کوئی ضرورت نہیں،مگر میری ایک بات ہمیشہ یادرکھنا۔ اصل جادو انسان کے اندر ہوتاہے اور وہ ہے محنت کا جادو۔اپنے بازؤں کے زور پر حاصل کی گئی دولت چاہے جتنی بھی کم ہو،مگر اس میں برکت اور سکون دنیا کے کسی بھی خزانے سے زیادہ ہوتاہے۔
لکڑہارے کی سیدھی سچی باتوں نے رحمو کی آنکھیں کھول دیں۔وہ آگے بڑھ کر اپنے والد کے گلے لگ گیا اور ان سے معافی مانگ کر اس نے آئندہ ان کا دوست وبازو بننے کا عہد کیا اور محنت سے روزی کمانے لگا اور محنت کو اپنی زندگی کا سب سے بڑا اُصول بنالیا۔

Browse More Moral Stories