Sabaq - Article No. 1945

Sabaq

سبق - تحریر نمبر 1945

میں نے جب یہ کہانی پڑھی تو میں نے اس سے یہ سبق حاصل کیا تھا کہ بچوں کو ہر لمحے اپنے حواس بحال رکھنا چاہیے اور نہایت ہوشیاری سے اپنی حفاظت کرنا چاہیے

جمعہ 9 اپریل 2021

نذیر انبالوی
احمد کو کہانیاں پڑھنے کا بہت شوق تھا۔اس کے شوق کو دیکھتے ہوئے امی ابو،دادا اور بڑے بھائی کے ساتھ ساتھ چچا ظہیر بھی کبھی کبھی اس کے لئے کہانیوں کی کتابیں لاتے رہتے تھے۔اس نے سب سے یہ کہہ رکھا تھا کہ امتحان میں کامیابی اور سالگرہ کے موقع پر اسے صرف کتابوں کا ہی تحفہ دیا جائے تو اسے زیادہ خوشی ہو گی۔
کتابیں پڑھ پڑھ کر اسے لکھنے اور تقریر کرنے کا فن بھی آگیا تھا۔اسکول کے میگزین ”روشن مستقبل“ میں اس کی کہانی شائع ہوئی تو اس کی خوشی قابل دید تھی۔تقریری مقابلے میں جب اس نے اول درجہ حاصل کیا تو مارے خوشی کے اس کے پاؤں زمین پر نہ ٹکتے تھے۔
اسکول میں پرنسپل اور اساتذہ اس کی تعریف کرتے نہ تھکتے تھے۔وہ اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے پر سب کی آنکھوں کا تارا بن گیا تھا۔

(جاری ہے)


ایک دن احمد حسب معمول اسکول سے پیدل گھر آرہا تھا کہ ایک نوجوان موٹر سائیکل سوار نے اس کے قریب آکر احمد کو غور سے دیکھتے ہوئے کہا:”تم احمد ہو۔“
”جی،جی میں احمد ہی ہوں۔“احمد نے فوراً جواب دیا۔
”جلدی سے موٹر سائیکل پر بیٹھ جاؤ۔“نوجوان نے کہا۔
”کیوں،میں کیوں تمہاری موٹر سائیکل پر بیٹھوں؟“احمد کے قدم تیزی سے گھر کی طرف بڑھ رہے تھے۔

”تمہارے ابو جان ایک حادثے میں شدید زخمی ہو گئے ہیں،وہ اس وقت اسپتال میں ہیں،تمہارے گھر والوں نے مجھے تمہیں لانے کے لئے بھیجا ہے،وقت ضائع مت کرو،جلدی سے موٹر سائیکل پر بیٹھ جاؤ۔“
”میں تمہیں نہیں جانتا،میں اپنے گھر جاؤں گا۔“احمد کسی صورت موٹر سائیکل پر بیٹھنے کے لئے تیار نہ تھا۔
”تم مجھے نہیں جانتے،مگر میں تو تمہیں جانتا ہوں،تمہارے ابو کا نام ارشد ہے،تمہارے دادا عبدالقیوم ہیں اور تمہارے بڑے بھائی کا نام احسن ہے،یہ سب بتانا کافی نہیں،آؤ اب موٹر سائیکل پر بیٹھ جاؤ۔
“نوجوان یہ کہتے ہوئے مسلسل اس کے ساتھ چل رہا تھا۔
”میں اس کے باوجود تمہارے ساتھ نہیں جاؤں گا،میں صرف اور صرف اپنے گھر جاؤں گا۔دادا جان اور امی جان سے ملوں گا۔جاؤ یہاں سے ورنہ میں شور مچا کر لوگوں کو اکٹھا کر لوں گا۔“احمد کی دھمکی کارگر ثابت ہوئی۔نوجوان گھبرا سا گیا۔اسی گھبراہٹ میں وہ تیزی سے بازار کی طرف جاتے ہوئے ایک راہ گیر سے ٹکرایا تو پل بھر میں وہاں ہنگامہ برپا ہو گیا۔
احمد اس ہنگامے سے بے نیاز اپنے گھر کی طرف چلتا رہا۔وہ گھر میں داخل ہوا تو دادا جان کی مسکراہٹ نے اس کا استقبال کیا۔احمد کی گھبراہٹ اور زرد چہرہ دیکھ کر دادا جان نے پوچھا:”احمد!کیا ہوا ہے؟“
”وہ․․․․وہ․․․․ابو جان کہاں ہیں؟“احمد سے بات بھی نہیں ہو پا رہی تھی۔
”وہ اس وقت اپنے آفس میں ہیں،تھوڑی دیر پہلے میری ان سے بات ہوئی ہے۔
“دادا جان نے جواب دیا۔
”تو پھر وہ نوجوان جھوٹ بول رہا تھا۔“
”کون نوجوان؟“دادا جان کچھ سمجھ نہ سکے تھے۔
احمد نے سارا قصہ سنا کر پوچھا:”اسے ہمارے گھر والوں کے نام کیسے معلوم ہو گئے؟“
دادا جان نے اس کی حاضر دماغی کی داد دی اور بتایا:”ایک نوجوان لڑکے نے محلے کے دکان دار سے دوستی کر لی تھی۔وہ گھنٹوں وہاں بیٹھا باتیں کرتا رہتا تھا۔
میرا خیال ہے کہ وہ نوجوان وہی ہو گا اور یہ معلومات اسے دکان دار سے حاصل ہوئی ہوں گی۔“
احمد نے کہا:”میں نے چند دن پہلے ایک کہانی پڑھی تھی،جس میں ایک آدمی اسی طرح غلط بیانی کرکے بچوں کو اغوا کرتا ہے،جب نوجوان نے مجھے موٹر سائیکل پر بیٹھنے کے لئے کہا تو مجھے فوراً وہ کہانی یاد آگئی تھی،جس میں بچہ اس آدمی کی باتوں میں آجاتا ہے اور بغیر کچھ سوچے سمجھے موٹر سائیکل پر بیٹھ جاتا ہے،نوجوان پھر اسے ایک کمرے میں بند کر دیتا ہے۔
بچہ رات تک کمرے میں بھوکا پیاسا بند رہتا۔تاوان کی رقم کے لئے اس کے والد سے رابطہ کیا گیا۔ایک دن بعد بچے کے والد نے مطلوبہ رقم دینے پر آمادگی ظاہر کی۔وقت اور جگہ کا تعین ہو گیا۔جب وہ رقم لے کر پہنچے تو پولیس کے اہلکار فقیروں کا روپ دھارے وہاں پہلے ہی موجود تھے۔اغوا کرنے والے کو وہیں دھر لیا گیا۔شام تک بچہ اپنے گھر پہنچ چکا تھا۔میں نے جب یہ کہانی پڑھی تو میں نے اس سے یہ سبق حاصل کیا تھا کہ بچوں کو ہر لمحے اپنے حواس بحال رکھنا چاہیے اور نہایت ہوشیاری سے اپنی حفاظت کرنا چاہیے،تاکہ کوئی ان کی طرف میلی آنکھ سے نہ دیکھ سکے۔“احمد بولتا چلا گیا۔
دادا نے کہا:”کہانیاں لکھنے کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ بچے اس سے کچھ نہ کچھ سبق ضرور حاصل کریں۔“

Browse More Moral Stories