Mil Jul Kar - Article No. 2010

Mil Jul Kar

مِل جُل کر - تحریر نمبر 2010

اب ہم آپ کو کبھی نہ ستائیں گے

بدھ 7 جولائی 2021

عشرت جہاں
دونوں بہن بھائی پھر سے کوئی نئی شرارت سوچ رہے تھے۔مومن کے ہاتھ میں اسٹیپلر تھا۔اقصیٰ نے کتابیں کاپیاں سامنے رکھ لیں۔دونوں نے اسٹیپل کرنے کی کوشش کی،مگر جب کامیابی نہ ملی تو اقصیٰ نے نئی ترکیب سوچ لی۔ایک ایک کرکے کاپی سے صفحے پھاڑے پھر انھیں موڑ کر اور اوپر تلے رکھ کر پنیں لگانے لگے۔دونوں اپنے کام میں مصروف تھے۔
امی کے آنے کی خبر اس وقت ہوئی جب مومن کا کان امی کے ہاتھ میں تھا۔
”یہ کیا کیا؟“وہ غصے سے بولیں۔کاپیوں کے صفحے بھی پھاڑے جا چکے تھے۔
”گھائیں مائیں۔“اقصیٰ نے مزے سے جواب دیا۔
”ابھی نکالتی ہوں تمہاری گھائیں مائیں۔“امی نے جھنجلا کر اقصیٰ کا کان بھی پکڑ لیا:”کاپیوں،کتابوں کی بربادی کر رکھی ہے دونوں نے۔

(جاری ہے)


”سب بے کار تو ہیں،کیا کریں گے ان کا۔“اقصیٰ بولی۔
”کتابیں کبھی بے کار نہیں ہوتیں انھیں پڑھو،سمجھو اور سمجھاؤ۔“
”اسکول بند ہیں امی!جب اسکول نہیں جانا تو کیا کریں انھیں سنبھال کر۔“مومن بہن کی حمایت میں بولا۔
”ان کی حالت درست کرو اور بیٹھ کر پڑھو۔“
”ہم نہیں پڑھیں گے،جب اسکول نہیں جانا تو کیوں پڑھیں۔
“اقصیٰ نے ماں کو لاجواب کرنا چاہا۔
”اقصیٰ!آپ بڑی بہن ہیں بھائی چھوٹا ہے،ایسے میں اسے کچھ پڑھاؤ،کچھ سمجھاؤ۔“امی نے دونوں کے کان چھوڑ دیے۔
”امی جان!پڑھاتی تو ہوں یہ میری بات ہی نہیں مانتا۔“
”میں آپی سے نہیں پڑھوں گا،یہ مارتی ہیں۔“شکایتی پوٹلی کھلتی جا رہی تھی۔
باورچی خانے سے شوں شوں کی آواز بلند ہو رہی تھی۔
امی جان انھیں ان کے حال پر چھوڑ کر باورچی خانے کی طرف چلی گئیں۔تھوڑی دیر بعد وہ بچوں کے لئے دو پیالوں میں کھیر لے آئیں۔
”ارے امی نے تو میری کھیر میں بادام ڈالے ہیں۔“اقصیٰ،مومن کو جلانے کے لئے بولی۔
”میری کھیر میں کشمش نہیں ڈالے۔“مومن نے منہ بسورا۔
”میری کھیر میں تمہارے کشمش بھی ہیں۔“اقصیٰ نے مزید جلایا۔

”میں کھیر نہیں کھاؤں گا۔“مومن نے پاؤں مارے۔
بُری بات،دسترخوان کو پاؤں نہیں مارتے۔“امی نے باورچی خانے سے واپس آکر تنبیہ کی۔
”آپ نے آپی کی کھیر میں بادام ڈالے اور ساری کشمش بھی ڈال دیں میری کھیر میں کشمش نہیں ڈالے۔“مومن منہ پھیر کر بیٹھ گیا۔
”بیٹا!کشمش ختم ہو چکی تھی۔بادام تھے اس لئے میں نے وہ ڈال دیے۔
اگلی بار بابا کشمش لائیں گے تو ضرور ڈالوں گی۔اس وقت تو تم یہی کھا لو۔“امی نے سمجھانا چاہا،جب کہ اقصیٰ مزے لے لے کر کھیر کھا رہی تھی اور مومن کو للچا رہی تھی۔
”ساری کشمش میری پلیٹ میں ہیں یہ دیکھو۔“اس نے ایک چمچ بھرا اور مومن کے سامنے لہراتے ہوئے اپنے منہ میں رکھ لیا۔اس کوشش میں کچھ کھیر دسترخوان پر گِر چکی تھی۔ادھر مومن کا واویلا بڑھ رہا تھا۔

”میں نہیں کھاؤں گا۔“مومن کی بات سن کر امی نے سر پکڑ لیا۔
”مجھے نہیں پتا،مجھے کشمش والی کھیر بنا کر دیں۔“مومن ضد پر اَڑا ہوا تھا۔
تنگ آکر امی نے دونوں کو ڈانٹتے ہوئے کہا:”تم لوگوں کو کیا پتا آج کل میں کس قدر پریشان ہوں،تم کو کیا معلوم گھر میں کھانا کس طرح بن رہا ہے۔تم دونوں کو کیا خبر تمہارے بابا کورونا کی وبا پھیلنے کی وجہ سے دوسرے شہر میں پھنسے ہوئے ہیں،اس وبا کے باعث جو جہاں تھا وہیں رک گیا ہے۔
تم لوگوں کو احساس نہیں ہے کہ اس بلائے ناگہانی نے انسانوں کو کتنا پریشان کیا ہوا ہے۔“امی کی آنکھوں میں آنسو چمکنے لگے۔ وہ اُٹھیں اور مزید کچھ کہے اپنے کمرے میں چلی گئیں۔دونوں خاموش بیٹھے رہ گئے۔
دونوں اپنے اپنے رویے پر غور کر رہے تھے۔بابا کے گھر میں نہ ہونے کی وجہ سے دونوں امی کو بہت ستانے لگے تھے۔اپنی من مانی کرنا،نت نئی شرارتیں کرنا،پڑھائی سے غفلت،امی کا ہاتھ نہ بٹانا۔
دونوں اپنی کوتاہیاں نظر آنے لگیں۔انھوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔
اقصیٰ اُٹھی اس نے دسترخوان پر رکھے کھانے کو ڈھانپ دیا۔دونوں باہر صحن میں آگئے۔کیاری میں لگے پودوں سے موتیا کے پھول اِکٹھے کرکے اپنے ہاتھوں میں لیے اور کمرے میں چلے آئے۔
امی اخبار پڑھ رہی تھیں۔دونوں بہن بھائیوں نے موتیا کے پھول ان کے سامنے رکھ دیے۔انھیں پتا تھا کہ ان کی امی کو موتیا کی خوشبو کس قدر پسند ہے۔

”اب ہم آپ کو کبھی نہ ستائیں گے۔“اقصیٰ بولی۔
”مِل جُل کر کام کریں گے۔“مومن بولا۔
”مِل جُل کر پڑھیں گے۔“اقصیٰ نے کہا۔
”اور مِل جُل کر کھیلیں گے۔“مومن نے بات پوری کی۔دونوں اُمید بھری نظروں سے امی جان کو دیکھ رہے تھے۔انھیں معلوم تھا کہ ان کی امی ان سے ناراض نہیں رہ سکتیں۔وہ ضرور انھیں معاف کر دیں گی۔
”آؤ،پوری دنیا کے انسانوں کے لئے مِل جُل کر دعائیں کریں۔“کہتے ہوئے امی جان نے آگے بڑھ کر دونوں کو گلے لگا لیا۔

Browse More Moral Stories