Mehnat Ka Dana - Article No. 2373

Mehnat Ka Dana

محنت کا دانہ - تحریر نمبر 2373

جناب!گزرے زمانے میں ایسے ہی گندم کے دانے ہوا کرتے تھے۔لوگ انھیں پیس کر خوب آٹا حاصل کرتے تھے۔ان کا ذائقہ بھی لاجواب تھا۔

پیر 17 اکتوبر 2022

محمد احمد ابنِ آدم
ایک نیک دل بادشاہ کسی ملک پر حکومت کرتا تھا۔اس کی وسیع سلطنت میں جا بجا کھیت اور باغات پھیلے ہوئے تھے۔ایک دن بادشاہ اپنے محل کے باغ میں ٹہل رہا تھا کہ اسے ایک درخت کے نیچے کبوتر کے انڈے جتنا گندم کا دانہ ملا۔پہلے تو وہ حیران ہوا اور اسے پتھر سمجھا،مگر جب اس نے غور سے دیکھا تو معلوم ہوا کہ وہ گندم کا دانہ ہے،جو موجودہ زمانے کے دانے سے کئی گنا بڑا ہے۔
بادشاہ نے فوراً باغ کے مالی کو بلایا اور اس سے پوچھا:”ہمیں اس گندم کے دانے کے بارے میں بتاؤ۔یہ کہاں سے آیا ہے؟“
بے چارہ مالی پریشان ہو گیا،کیونکہ وہ خود اتنا بڑا گندم کا دانہ پہلی بار دیکھ رہا تھا۔اس نے جواب دیا:”بادشاہ سلامت!میں نے ایسا دانہ آج سے پہلے نہ دیکھا اور نہ اس کے بارے میں کبھی سنا۔

(جاری ہے)

شاید آپ کے وزیروں میں سے کسی کو اس کے بارے میں علم ہو۔


بادشاہ کو یہ مشورہ اچھا لگ گیا۔اس نے فوراً تمام وزیروں کو دربار میں بلوا لیا۔جب سب آگئے تو اس نے ایک پلیٹ میں رکھے گندم کے دانے کی طرف اشارہ کرکے کہا:”آج ہمیں یہ بڑا سا گندم کا دانہ اپنے باغ میں ملا ہے۔جسے شاید کوئی پرندہ وغیرہ اُٹھا کر لایا ہو گا۔آپ میں سے کسی کو اس کے بارے میں معلوم ہے کہ یہ کہاں سے آسکتا ہے اور کہاں اتنے بڑے دانوں والی گندم اُگتی ہے؟“
سب وزیر خاموشی سے ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے اور سوچ رہے تھے کہ شاید بادشاہ کو غلط فہمی ہو گئی ہے جو اتنی بڑی چیز کو گندم کا دانہ سمجھ رہے ہیں،مگر جب انھوں نے اسے چھو کر دیکھا تو وہ بھی حیران رہ گئے۔
کسی کے پاس بادشاہ کی تسلی کے لئے جواب نہ تھا۔یہ دیکھ کر بادشاہ جھنجھلا گیا۔
اس صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے اس کے ایک دانا اور زیرک وزیر نے اسے مشورہ دیا:”بادشاہ سلامت!ہم سب وزیر امورِ سلطنت میں مصروف رہتے ہیں،اس لئے ہم نے کبھی اس طرف دھیان نہیں دیا۔میرے خیال میں کسی بوڑھے کسان سے پوچھنا چاہیے جو اس کے بارے میں صحیح معلومات دے سکے۔

بادشاہ نے یہ سن کر کچھ سوچا اور اپنے سپاہیوں کو کسی بوڑھے کسان کو پیش کرنے کا حکم دے دیا۔کچھ دیر بعد ایک نہایت بوڑھا آدمی دو لاٹھیوں کے سہارے بادشاہ کے پاس پہنچا۔اس کے بال سفید ہو چکے تھے اور منہ میں دانت بھی نہیں تھے۔آنکھیں بھی کمزور تھیں۔بادشاہ نے بوڑھے کو گندم کا دانہ دکھا کر پوچھا:”بزرگوار!کیا آپ نے ایسی گندم کہیں دیکھی ہے؟“
بوڑھے نے بڑی مشکل سے بادشاہ کا سوال سنا اور جواب دیا:”نہیں․․․․․آپ میرے والد صاحب سے پوچھیں شاید وہ کچھ بتا سکیں۔

بادشاہ نے اس کے والد کو بلوا لیا۔کچھ دیر بعد ایک اور بوڑھا آدمی ایک لاٹھی کے سہارے بادشاہ کے دربار میں آیا۔اس کے سفید بالوں میں کچھ کالے بال بھی تھے۔منہ میں بھی دو چار دانت سلامت تھے۔نظر بھی کچھ بہتر تھی۔مجموعی طور پر وہ اپنے بیٹے سے ذرا بہتر حال میں تھا۔بادشاہ اسے اس حالت میں دیکھ کر حیران ہوا اور پھر اسے گندم کا دانہ دکھا کر سوال کیا:”بڑے صاحب!کیا آپ اس طرح کی گندم کے بارے میں جانتے ہیں؟“
بوڑھے نے گندم کا دانہ دیکھا اور کہا:”جناب!میں نے اتنا بڑا دانہ کہیں نہیں دیکھا۔
ہمارے زمانے میں گندم کا دانہ بڑا تو تھا،مگر یہ تو کافی بڑا ہے،شاید میرے والد آپ کو کچھ بتا سکیں۔“
بادشاہ نے بے چینی کے عالم میں اس بوڑھے کے باپ کو دربار میں بلوا لیا۔کچھ دیر بعد ایک شخص بغیر کسی سہارے کے دربار میں داخل ہوا۔اس کے سر کے بال آدھے سفید اور آدھے کالے تھے۔منہ میں دانت بھی اپنے بیٹے اور پوتے سے زیادہ تھے۔یعنی یہ بوڑھا صحت کے معاملے میں اپنے بیٹے اور پوتے سے کئی گنا اچھے حال میں تھا،حالانکہ یہ کافی بڑی عمر کا تھا۔
بادشاہ اسے دیکھ کر مزید حیران ہو گیا۔اس نے بوڑھے کو گندم کا دانہ دکھا کر پوچھا:”حضرت!کیا آپ نے ایسی گندم کہیں دیکھی ہے؟“
بوڑھے نے گندم کا دانہ بڑے غور سے دیکھا اور پھر خوشی سے مسکراتے ہوئے بولا:”جی ہاں بادشاہ سلامت!“
بادشاہ نے حیرانی سے اُچھلتے ہوئے کہا:”سچ․․․․․مگر کہاں؟“
بوڑھے نے جواب دیا:”جناب!گزرے زمانے میں ایسے ہی گندم کے دانے ہوا کرتے تھے۔
لوگ انھیں پیس کر خوب آٹا حاصل کرتے تھے۔ان کا ذائقہ بھی لاجواب تھا۔“
بادشاہ بولا:”اچھا!اس زمانے میں گندم اتنی بڑی کیسے ہوتی تھی؟“
اس بوڑھے نے مسکراتے ہوئے جواب دیا:”بادشاہ سلامت!اس دور میں زمین ساری اللہ ہی کی سمجھی جاتی تھی۔ہر شخص اپنی ضرورت کے مطابق کاشت کرتا اور اس سے اپنے گھر والوں کا پیٹ پالتا،مگر جوں جوں لوگوں میں اضافہ ہوا اور زمین چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں بٹتی چلی گئی،اس طرح گندم کا دانہ بھی چھوٹے سے چھوٹا ہوتا گیا۔
مطلب یہ ہے کہ برکت ختم ہوتی گئی۔“
بادشاہ نے حیرانی سے بوڑھے کی بات سنی اور بولا:”جناب!میرا آپ سے آخری سوال یہ ہے کہ مجھے یہ بتائیں کہ اس بات میں کیا راز ہے کہ آپ عمر میں اپنے بیٹے اور پوتے سے بڑے ہیں،مگر ان کی طرح لاٹھیوں کے سہارے نہیں آئے اور آپ کی جسمانی حالت بھی ان سے کافی بہتر ہے۔“
یہ سن کر بوڑھا بولا:”بادشاہ سلامت!دراصل بات یہ ہے کہ ہمارے دور میں ہر شخص محنتی تھا۔
اپنا کام خود کرتا تھا۔ہم صبح سے شام تک لگاتار محنت کرتے تھے اور کسی دوسرے پر انحصار نہیں کرتے تھے،مگر جیسے جیسے زمانہ بدلا،لوگ دوسروں کے محتاج ہوتے گئے۔کھیتوں میں کام کرنے کے لئے مزدور رکھ لیے گئے اور دیگر سہولیات سے فائدہ اُٹھانا شروع کر دیا،اس سے وہ کمزور ہوتے چلے گئے۔میرا بیٹا ایک لاٹھی کے سہار آیا۔مطلب اس نے دوسروں پر انحصار تو کیا،مگر کچھ کم جب کہ میرا پوتا دو لاٹھیوں کے سہارے آیا۔مطلب وہ مکمل طور پر دوسروں سے کام لیتا ہے۔آج کے لوگ اسی لیے کمزور اور ناتواں ہیں۔“
بادشاہ اس بوڑھے سے بہت متاثر ہوا۔اس نے اسے انعام دے کر اپنے دربار میں مشیر رکھ لیا۔

Browse More Moral Stories