Niyyat Bakhair - Article No. 1989

Niyyat Bakhair

نیت بخیر - تحریر نمبر 1989

ایک بوتل خون کا عطیہ دینے کے باعث ڈاکٹر صاحب نور احمد کو بڑی مہربان اور ممنون نظروں سے دیکھ رہے تھے

جمعہ 11 جون 2021

نائمہ راضیہ
”اُف،میرے خدایا!سفید پوشی کا بھرم تک رکھنا مشکل ہو گیا ہے۔“نور احمد پائینچوں سے گھسی اور پھٹی ہوئی اپنی اکلوتی پتلون کی طرف دیکھتے ہوئے اپنے آپ سے کہہ رہا تھا۔وہ پتلون کو اپنی ماں کی طرف اُچھالتے ہوئے بولا:امی!آپ ہی اسے ٹھیک کر سکتی ہیں۔“
ماں نور احمد کے لئے ناشتہ تیار کر رہی تھی۔
اس نے پتلون کو ایک طرف رکھتے ہوئے کہا:”اچھا بھئی ابھی سی دیتی ہوں۔پہلے تم ناشتہ کر لو۔ کہیں تمہیں انٹرویو کے لئے پہنچنے میں دیر نہ ہو جائے۔“
”ہاں ماں!ناشتہ لے آؤ۔اچھا ناشتہ تو کبھی کبھار ملتا ہے اور انٹرویو․․․انٹرویو تو اب روز روز کی بات ہے۔نور احمد نے ایک پرانے کپڑے سے اپنے بوسیدہ بوٹ صاف کرتے ہوئے کہا۔

(جاری ہے)


ماں نے ناشتہ لا کر اس کے سامنے رکھ دیا۔

نور احمد ناشتہ کرتے ہوئے ناشتے اور انٹرویو کی کڑیاں آپس میں ملانے لگے۔اس نے جلدی جلدی ناشتہ زہر مار کیا۔جنرل نالج کی کتاب اُٹھائی،ماں کی دُعائیں لیں اور گھر سے نکل کھڑا ہوا۔
کسی زمانے میں نور احمد کے گھریلو حالات بہت اچھے تھے۔وہ اس وقت دسویں جماعت میں پڑھتا تھا۔جب اس کے والد کا انتقال ہو گیا۔ باپ کی وفات کے بعد نور احمد کی گھریلو حالت روز بروز ابتر ہوتی گئی اور زندگی بڑی ہی تنگ دستی میں گزرنے لگی۔
ان حالات میں نور احمد کی ماں نے ایک سلائی مشین خرید لی اور محلے بھر کے کپڑے سینے لگی۔وہ بڑی زندہ دل عورت تھی۔اس نے اس کمر توڑ غربت میں بھی ہمت نہ ہاری اور عورت ہونے کے باوجود ہر مشکل کا مردانہ وار مقابلہ کیا۔دن رات کی محنت سے اس کی نظر کمزور اور اُنگلیوں میں تکلیف شروع ہو گئی تھی۔نور احمد نے کئی بار پڑھائی چھوڑ کر کوئی کام کرنے کا ارادہ کیا،لیکن اس کی ماں اُسے ایسا خیال بھی ذہن میں لانے پر ڈانٹ دیتی تھی۔

آخر ماں کی انتھک محنت اور کوششیں رنگ لائیں اور نور احمد نے نمایاں نمبروں سے ماسٹر کر ہی لیا۔جس دن نور احمد نے یہ امتحان پاس کیا،اس دن اس کی ماں کی حالت دیدنی تھی۔اس کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔نور احمد کے پاس ہو جانے کی وجہ سے،وہ اپنے آپ کو پھر سے جوان محسوس کر رہی تھی۔اسی خوشی میں محلے میں لدو بانٹے گئے۔
اب نور احمد کو ماسٹر کیے ہوئے تقریباً ایک سال کا عرصہ بیت چلا تھا،لیکن نوکری اس سے اس طرح دور تھی جیسے کسی غریب سے کوئی خوشی دور بھاگتی ہے۔

نور احمد نے بہت سی جگہوں پر بڑے اچھے اور کامیاب انٹرویو دئیے تھے،لیکن نوکری کا تقرر نامہ آنے کی نوبت کہیں سے نہ آئی تھی۔وہ تقرر نامہ نہ آنے کی وجہ خوب اچھی طرح سمجھتا تھا،کیونکہ اس کے پاس کوئی شفارش نہیں تھی۔رشوت دینے کے لئے پیسے نہیں تھے اور سب سے بڑی بات یہ تھی کہ وہ کسی بڑے صاحب کے خانسا ماں یا ڈرائیور کا نزدیکی رشتے دار بھی نہیں تھا اور ایسے میں تقرر نامہ کی اُمید رکھنا حماقت نہیں تو اور کیا ہے؟نور احمد سوچتا کہ وہ ایک محب وطن شہری تھا۔
وہ اپنے پیارے وطن میں بڑھتی ہوئی رشوت،سفارش اور اقربا پروری کے متعلق سوچتے ہوئے اکثر کُڑھتا۔اس کے علاوہ وہ کر بھی کیا سکتا تھا،سوائے اس کے کہ وہ اپنے حوصلے پست نہ ہونے دے اور صبر سے کام لے۔
وہ اپنا ہر انٹرویو ایک نئے عزم اور حوصلے کے ساتھ دیتا تھا۔اسے یقین تھا کہ کبھی نہ کبھی اس کی اُمیدیں ضرور بر آئیں گی اور پھر اُمید تو ایک ایسے سہانے خواب کی مانند ہے،جس کے سہارے ہر شخص اپنی پوری زندگی گزار سکتا ہے۔

نور احمد آج بھی اسی سہانے خواب کی تلاش میں یہاں آیا تھا۔انٹرویو والی بلڈنگ کے اردگرد اُمیدوار مکھیوں کی طرح بھنبھنا رہے تھے۔کل دس سیٹوں کے لئے ایک ہزار سے زائد درخواستیں موصول ہوئی تھیں۔آبادی اور بے روزگاری کے اس تناسب پر غور کرتے ہوئے نور احمد اکثر تڑپ اُٹھتا۔بڑی مشکل سے خدا خدا کرکے وہ انٹرویو دے کر فارغ ہوا۔آج یہ اس کا پہلا انٹرویو تھا،جس میں وہ اتنا زیادہ کامیاب نہیں رہا تھا۔

وہ بڑی بلڈنگ سے باہر آیا تو اس کا چہرہ کچھ اُترا ہوا تھا۔وہ مردہ قدموں سے چلتا ہوا سڑک پر آگیا۔دوپہر کے بارہ بج چکے تھے۔سورج اپنی پوری آب و تاب سے چمک رہا تھا۔سڑک پر پڑی ہوئی تار کول جیسے اُبل پڑی تھی۔دھوپ کی تپش سے اس کا جسم جیسے جل رہا تھا۔اس نے گرمی کو گرمی سے کاٹنے کے لئے ایک کپ گرم چائے پینے کا ارادہ کیا۔وہ اس نیت سے ایک نزدیکی ہوٹل میں جا بیٹھا۔
چائے کا آرڈر دینے کے بعد اس نے اخبار اُٹھا لیا۔
پہلے صفحے پر عموماً زیادہ تر سیاسی خبریں ہوتی ہیں اور نور احمد کو سیاست سے دلچسپی نہیں تھی۔اس نے پہلے صفحہ پر سرسری نظر ڈالنے کے بعد اندر کا صفحہ نکال لیا۔اس نے اپنی ضرورت کے کالم ”ضرورت ہے“ پر نظریں گاڑ دیں۔وہ ہر روز ایسا ہی کیا کرتا تھا۔اس سے پہلے کہ وہ ڈائری پر اپنی ضرورت کے مطابق پتے نوٹ کرتا،اس کی نظر کالم ”ضرورت ہے“ کے آخر میں ایک اپیل پر پڑی،لکھا تھا۔

”مخیر حضرات سے اپیل کی جاتی ہے کہ سول ہسپتال میں بیمار پڑی ہوئی ایک بوڑھی اور بے آسرا خاتون کے لئے خون کا عطیہ دے کر ثواب دارین حاصل کریں۔“خون کا گروپ بھی لکھا تھا۔
اپیل پڑھتے ہی نور احمد کی آنکھوں کے سامنے اس کی اپنی بوڑھی ماں کا چہرہ گردش کرنے لگا۔نور احمد نے ایک نظر اپنے کمزور سے جسم پر ڈالی اور ہسپتال کی طرف روانہ ہو گیا۔

ہسپتال پہنچ کر نور احمد نے بلڈ وارڈ کے انچارج سے رجوع کیا۔ڈاکٹر نے ایک نظر نور احمد کے دُبلے پتلے جسم پر ڈالی اور پھر کہا:”آپ کا جذبہ قابل ستائش ہے،لیکن آپ خون کس طرح دیں گے،کیونکہ آپ تو پہلے ہی بڑے کمزور ہیں۔“
”آپ بلڈ گروپ چیک کر لیں،اللہ مالک ہے۔“نور احمد نے بڑے خلوص،حوصلے اور بہادری سے جواب دیا۔ڈاکٹر صاحب،نور احمد کو ”بلڈنگ روم“ میں لے گئے۔
ڈاکٹر صاحب نے نور احمد کو آرام دہ تکیوں والے بستر پر لٹا دیا۔پھر اس کا بلڈ گروپ چیک کیا۔نور احمد کا بلڈ گروپ اور بوڑھی عورت کا بلڈ گروپ آپس میں مل گیا تھا۔خون لیا جانے لگا۔اس کے جسم سے ایک بوتل خون نکال لی گئی۔ایک بوتل خون کا عطیہ دینے کے باعث ڈاکٹر صاحب نور احمد کو بڑی مہربان اور ممنون نظروں سے دیکھ رہے تھے۔نور احمد اپنے جسم سے ایک بوتل خون نکل جانے کی وجہ سے بڑی کمزوری اور نقاہت محسوس کر رہا تھا۔
اس کا چہرہ مرجھا گیا تھا۔اسے دیکھتے ہوئے ایسے محسوس ہوتا،جیسے اس کے جسم سے خون کا ایک ایک قطرہ تک نچوڑ لیا گیا ہو۔باوجود اس کے وہ اپنی اس قربانی پر بہت خوش تھا۔وہ تھکے تھکے قدموں سے اپنے گھر کی طرف روانہ ہو گیا۔وہ آہستہ آہستہ بوجھل قدموں سے کسی نہ کسی طرح اپنے گھر تک پہنچنے میں کامیاب ہو گیا۔
نور احمد بے سُدھ سا اپنے گھر کی دہلیز پر کھڑا تھا اور اس کی ماں کی گود میں پڑا ہوا نوکری کا تقرر نامہ کسی شریر بچے کی طرح مسکرا رہا تھا۔نور احمد کو ایسے محسوس ہوا،جیسے اس کے جسم میں سیروں خون بڑھ رہا ہے۔

Browse More Moral Stories