Pahari Ke Peeche - Article No. 2372

Pahari Ke Peeche

پہاڑی کے پیچھے - تحریر نمبر 2372

اچانک اسے خیال آیا کہ وہ پہاڑی پر تو چڑھ ہی گیا ہے،کیوں نہ پہاڑی کے دوسری طرف اُتر کر قد آور انسانوں کو ہی دیکھ لے

ہفتہ 15 اکتوبر 2022

محمد اقبال شمس
وہ پانی میں اپنا عکس مسلسل دیکھے جا رہا تھا اور بار بار پنجوں کے بل کھڑا ہو کر اپنے قد کو لمبا دیکھنے کی کوشش کر رہا تھا۔وہ ایک بونا تھا اور اس کا نام کامی تھا۔جنگل کے قریب ہی بونوں کی بستی آباد تھی جس میں وہ رہتا تھا۔کامی نہ جانے کیوں اپنے بونے قد سے پریشان تھا۔وہ خود کو قد آور دیکھنا چاہتا تھا۔
اس کے بزرگ اسے سمجھاتے کہ قدرت نے جیسا بھی پیدا کیا ہے،اس میں راضی رہنا سیکھو اور اس کی ناشکری کبھی نہ کرو،مگر وہ خود کو بلند قد کا ہی دیکھنا چاہتا تھا۔
بستی کے قریب ہی جنگل کے پار ایک پہاڑی تھی۔اس نے اپنے بڑوں سے سن رکھا تھا کہ پہاڑی کے دوسری طرف ان سے لمبے قد والوں کی بستی ہے۔وہ پہاڑی کے اس پار ان قد آور انسانوں کو دیکھنا چاہتا تھا۔

(جاری ہے)

ایک دن جنگل سے ایک ہاتھی بھٹکتا ہوا ان کی بستی میں آگیا۔بونے اس کے پاؤں تلے دبنے کے خوف سے چھپنے لگے۔کامی بھی قریب ہی ایک پہاڑی پر چڑھ گیا اور کچھ ہی دیر کی جدوجہد کے بعد وہ پہاڑی کی چوٹی پر چڑھ گیا۔پھر اچانک اسے خیال آیا کہ وہ پہاڑی پر تو چڑھ ہی گیا ہے،کیوں نہ پہاڑی کے دوسری طرف اُتر کر قد آور انسانوں کو ہی دیکھ لے۔یہ سوچ کر وہ پہاڑی کے دوسری طرف اُترنے لگا۔
نیچے ایک میدان میں بہت بڑا میلا لگا ہوا تھا۔ایک مداری اپنے بندر اور بھالو کا کرتب دکھا رہا تھا،مگر لوگ بندر اور بھالو کے کرتب میں دلچسپی نہیں لے رہے تھے،چنانچہ مداری کی آمدنی کم ہو گئی تھی،اس لئے بڑا فکر مند تھا۔”لگتا ہے لوگ بندر اور بھالو کا ناچ دیکھ دیکھ کر اُکتا گئے ہیں۔اب مجھے کچھ اور کرنا پڑے گا،تاکہ آمدنی میں اضافہ ہو۔
“وہ منہ ہی منہ میں بڑبڑایا۔
کامی آہستہ آہستہ سے پہاڑی سے نیچے اُتر رہا تھا۔اسے کچھ فاصلے پر لوگوں کا ہجوم نظر آیا۔وہ دھیرے دھیرے اس سمت بڑھنے لگا۔اس نے وہاں بڑے قد والے لوگ دیکھے تو اَش اَش کر اُٹھا۔جب اس کی نظر بندر اور بھالو پر گئی تو وہ انھیں دیکھنے کے لئے آگے بڑھنے لگا۔
مداری کی نظر اچانک پہاڑی کی سمت گئی۔اس نے دیکھا کہ ایک بونا اسی کی طرف آرہا ہے۔
کامی مداری کے قریب آیا تو مداری نے سوچا کہ کیوں نہ بونے کو پکڑ کر بندر اور بھالو کی طرح کرتب سکھا کر پیسے کمائے۔یہ سوچ کر اس نے ایک بوری لی اور فوراً کامی کے اوپر ڈال دی۔کامی اب مداری کی بوری میں قید ہو چکا تھا اور وہ اسے اُٹھا کر اپنے گھر کی طرف چل پڑا۔جب کہ کامی بوری میں بند اپنے ہاتھ پاؤں چلانے لگا۔گھر پہنچتے ہی اس نے بوری کا منہ کھولا۔
کامی فوراً بوری سے باہر نکلا۔
مداری اسے دیکھ کر خوشی سے مسکراتے ہوئے بولا:”اب مزہ آئے گا تماشا دکھانے کا۔“
”کون ہو تم؟اور مجھے یہاں کیوں لائے ہو؟“کامی غصے سے بولا۔
”اب تم یہیں میرے پاس رہو گے،یہ بندر اور بھالو تمہارے ساتھی ہیں۔“یہ کہتے ہوئے اس نے بندر اور بھالو کے پاس ہی کامی کو باندھا اور گھر سے باہر چلا گیا۔
جب کہ کامی چیختا رہ گیا۔
”اب چیخنے اور چلانے سے کوئی فائدہ نہیں،اب تم ہمیشہ ہماری طرح اس مداری کے رحم و کرم پر رہو گے۔“بندر کامی کو چیختے ہوئے دیکھ کر بولا۔
”ارے اسے ہماری بولی کیا سمجھ میں آئے گی،جو تم اسے بتا رہے ہو۔“بھالو اپنے ماتھے پر ہاتھ مارتے ہوئے بولا۔
”نہیں،مجھے آپ لوگوں کی زبان آتی ہے،جنگل کے قریب رہتے ہوئے ہمیں جانوروں کی بولی سمجھ میں آنے لگی ہے۔
“کامی بولا۔
”ارے واہ،پھر خوب گزرے گی جب مل بیٹھے گے مجبور تین۔“بندر نے قلابازی کھائی:”لیکن تم اپنی بستی چھوڑ کر یہاں کیوں آئے ہو،جب کہ بونوں کی بستی تو الگ آباد ہے۔“
”دراصل میں نے سن رکھا تھا کہ یہاں لمبے قد والے انسان رہتے ہیں۔میں اپنے چھوٹے قد سے پریشان تھا۔بس ان ہی کو دیکھنے کے شوق میں یہاں تک پہنچا ہوں،مگر مجھے کیا معلوم تھا کہ یہ لمبے قد والے اپنے مفاد کی خاطر بے بس انسانوں اور معصوم جانوروں پر زیادتی کرتے ہیں۔

”میرے دوست چھوٹے قد سے کچھ نہیں ہوتا ہے۔انسان کو کچھ ایسا کرنا چاہیے،جس سے اس کا کردار بلند ہو۔“بھالو نے کامی کو سمجھاتے ہوئے کہا۔
”مجھے اپنی بستی جانا ہے،بس تم مجھے کسی طرح آزاد کراؤ۔“کامی روہانسی آواز میں بولا۔
”یہاں سے نکلنا مشکل تو ہے،لیکن ناممکن نہیں۔ایک طریقہ ہے یہاں سے نکلنے کا۔“بندر نے راز داری والے انداز میں کہا۔

”وہ کیا!“کامی نے پوچھا۔
پھر بندر نے اسے بتانا شروع کیا،جسے سن کر کامی کی آنکھیں خوشی سے چمک اُٹھیں۔
رات گزر چکی تھی۔سورج طلوع ہو چکا تھا۔مداری نے سب سے پہلے بونے کو عوام کے سامنے اپنا کردار ادا کرنے سے متعلق کچھ ہدایات دیں اور پھر اس کی کمر میں رسی ڈال کر بندر اور بھالو کے ساتھ میلے کی طرف روانہ ہوا۔وہاں پہنچ کر اس نے لوگوں کی توجہ حاصل کرنے کے لئے ڈگڈگی بجانا شروع کی،لوگوں کی توجہ حاصل ہوئی تو اس نے کہنا شروع کیا:”آج پہلی بار ہم ایک بونے کا کرتب دکھائیں گے۔

پھر اس نے کرتب دکھانا شروع کیا۔سب سے پہلے اس نے لوہے کا ایک حلقہ نکالا۔مداری اس کے کناروں پر آگ لگاتے ہوئے بولا:”سب سے پہلے بندر اس آگ میں سے گزر کر دکھائے گا۔“اسی دوران بندر نے چپکے سے بونے کے بندھی رسی کو جلتی آگ سے لگایا،جس سے رسی دھیرے دھیرے جل کر ٹوٹ گئی۔رسی کے ٹوٹتے ہی بونا فوراً وہاں سے بھاگا۔اس سے پہلے کہ مداری اسے دوبارہ پکڑتا،بونا اس کی پہنچ سے دور بھاگ گیا۔
بندر کا منصوبہ کامیاب ہو گیا تھا۔کامی آزاد ہو کر پہاڑی کی دوسری طرف اپنی بستی میں اُترنے میں کامیاب ہو گیا تھا۔
اس واقعے کو گزرے بہت دن ہو گئے کامی کے خیالات بدل چکے تھے۔اب وہ اپنے قد کو کوسنے کے بجائے اپنی بستی کے لوگوں کی فلاح و بہبود کے کاموں میں لگ گیا۔اب وہ اپنے عمل اور کردار سے قد آور بننا چاہتا تھا،کیونکہ وہ سمجھ گیا تھا کہ انسان کے چھوٹے قد سے کچھ نہیں ہوتا اس کا کردار بلند ہونا چاہیے۔

Browse More Moral Stories