Pankhu Or Minku - Article No. 1507

Pankhu Or Minku

پنکھو اور منکھو - تحریر نمبر 1507

پنکھو اور منکھو دونوں طوطے باغ میں امرود کے پیڑ پر رہتے۔ سارا دن یہاں وہاں گھومتے اور شام میں آکر پیڑ کی شاخوں میں ٹیں ٹیں کرنے لگ جاتے۔صرف ایک امرود ہی کھاکھا کر اُن کے منہ کا ذائقہ یکساں ہو گیا تو انہوں نے ذائقہ بدلنے کی خاطر دور تک اڑان بھرنے کی سوچی۔

بدھ 28 اگست 2019

پنکھو اور منکھو دونوں طوطے باغ میں امرود کے پیڑ پر رہتے۔ سارا دن یہاں وہاں گھومتے اور شام میں آکر پیڑ کی شاخوں میں ٹیں ٹیں کرنے لگ جاتے۔صرف ایک امرود ہی کھاکھا کر اُن کے منہ کا ذائقہ یکساں ہو گیا تو انہوں نے ذائقہ بدلنے کی خاطر دور تک اڑان بھرنے کی سوچی۔یہ پھل کے ختم ہونے کا موسم تھا۔وہ بے چارے اپنے پروں کو تھکا کر واپس آگئے ،لیکن انہیں خاطر خواہ خوراک نہ مل سکی۔

امرود کے پیڑ پر آکر پنکھو نے منکھو سے کہا”ارے بھیا اب تو ہمیں کچھ نہیں ملا۔کیوں نہ یہ امرودکھا کرہی اپنے پیٹ کا دوزخ بھر لیں؟“
”منکھو اگر امرود ہی کھانا تھا تو ہم اتنی دور تک کیوں گئے۔میرے تو سارے پنکھ بھی درد کررہے ہیں۔مجھے کچھ مختلف سا کھانا ہے۔“پنکھو کے دل میں کچھ مختلف کھانے کی خواہش شدید تھی۔

(جاری ہے)

اُس نے منکھو کو روہا نسے لہجے میں جواب دیا۔

جب اُس نے یہ کہہ کر گردن مٹکائی تو اُس کی نظر نسبتاً نچلی شاخ پر اٹکی ہوئی ہرہ مرچ پر پڑی ۔اُس کے منہ میں پانی آگیا۔ وہ اپنے پنکھ لہراتا فوراً مرچ کے پاس پہنچ گیا۔منکھو کو بھی لگا کہ اس لہراتی اڑان کے پیچھے ضرور کوئی وجہ ہے۔اب دونوں مرچ کے دائیں بائیں بیٹھ گئے۔
”یہ مرچ میں کھاؤں گا کیونکہ میں نے اس کو پہلے دیکھا ہے۔“پنکھو نے منکھو کی بھوکی نظروں کو غصیلی نظروں سے جواب دیا۔

”ہم اسے آدھا آدھا بھی تو کر سکتے ہیں ناں“پنکھو نے منہ میں آتے پانی کو زبردستی روکا۔
”تم تو امرود بھی کھا سکتے تھے۔پھر اب کیوں تمہاری رال ٹپکنے لگی ہے۔“پنکھو نے اس کو پرانی بات یاد دلائی۔
منکھو سر جھکا کر بیٹھ گیا،اُس کی نظر نیچے زمین پر پڑی ہوئی تین مرچوں پہ گئی تو اُس کی آنکھیں خوشی سے باہر نکل آئی۔منکھو نے اُس کی اڑان دیکھی تو اکلوتی ہری مرچ کو دابے وہ بھی زمین پر اتر آیا۔
ابھی پنکھو اور منکھو پھر سے لڑنے کا سوچ رہے تھے کہ وہ جال میں لپیٹ لیے گئے۔چھوٹے سے لڑکے نے جس کا نام ثاقب تھا،اُس جال کو احتیاط سے تھام رکھا تھا۔
”میں نے تمہیں کہا تھا نا کہ تم ہمیشہ مجھے پھنسا دیتے ہو۔تمہاری کم عقلی کی وجہ سے میں ہمیشہ پھنس جاتا ہوں۔“پنکھو نے منکھو کو چونچ مارتے ہوئے کہا۔
جواباً منکھو کے پاس کہنے کو کچھ بھی نہیں تھا ۔
اُس نے صرف ٹیں ٹیں ٹیں کرکے شور ڈالا۔ثاقب نے مضبوطی سے جال کو تھامے رکھا اور اپنے گھر جا کر اُن دونوں طوطوں کو اپنے پنجرے میں قید کردیا۔
پنکھو بھیا ہمیشہ مجھے بے وقوف ثابت کرنے پر تلے رہتے ہیں۔میں ہمیشہ اُن کی سنتار ہتا ہوں،لیکن اس دفعہ اس پنجرے سے میں خود نکلوں گا۔منکھو من ہی من میں سوچ رہا تھا۔
پنکھو نے اس کے قریب آکر اُس کے پاؤں پر چونچ ماری ”ہاں بھئی کیا سوچ رہے ہو۔
اپنے ناکارہ دماغ کو مت تھکاؤ۔تم چھوٹے ہو ،وقت کے ساتھ ساتھ چیزوں کو سمجھنے کی اہلیت تم میں بڑھتی چلی جائے گی، لیکن ابھی تم اکثر ہی بے وقوفی کر جاتے ہو ۔اس لیے میں نے تمہیں ڈپٹ دیا۔بھیاتم اس بات کو دل پر نہ لے لینا۔“پنکھو نے منکھو کو منانے کی کوشش کی۔
”اچھا“منکھو نے یک لفظی جواب دے کر نیم رضا مندی ظاہر کر دی۔
”دیکھو بھیا!اس پنجرے سے زیادہ بڑی مصیبت ہم نے آج تک نہیں دیکھی۔
اب میں تمہیں بتاتا ہوں کہ ہم نے کیسے اس مصیبت سے چھٹکارا حاصل کرنا ہے ۔تم وہی کرنا جو میں کہوں گا۔اس طرح پہلے تم آزاد ہو جاؤ گے اور بعد میں مجھے بھی آزادی مل جائے گی۔“پنکھو نے منکھو کے کان میں سر گوشی کی۔
”سچی ؟“خوشی سے منکھو کی آنکھیں پھر بڑی ہو گئی۔
”مچی “پنکھو نے جواب دیا۔
اب دونوں پنجرے کی جالی کو دیکھنے لگے۔

”ہم کیا کریں گے؟“منکھو نے پوچھا۔
جواباً پنکھو نے سارا منصوبہ گوش گزار کر دیا۔دونوں بھائیوں نے مل کر پنجرے کی جالی کوچونچ سے ہلا جلا کر دیکھنا شروع کر دیا۔ایک جگہ سے انہیں اُن کی مطلب کی جالی مل گئی۔وہ ہلکی ہلکی ہل رہی تھی۔اب پنکھو نے اپنی چونچ سے پورا زور لگا کر جالی کو اوپر کی طر ف اٹھایا ۔منکھو نے اپنی چونچ اس راستے سے نکالی ۔
پنکھو نے مزید زور لگا یا ،جالی کو مزید اوپر کیا۔منکھو کا سراب پنجرے سے باہر تھا۔پنکھو اپنا زور لگا رہا تھا کہ یکا یک منکھو نے ٹیں ٹیں ٹیں کا شور برپا کر دیا۔”ہائے میں مر گیا․․․․․․ہائے میری گردن ․․․․․“شور سن کر پنکھو کی جان تو جو نکلنی تھی وہ نکل گئی ،لیکن ساتھ ہی ساتھ ثاقب بھی دوڑتا ہوا کمرے سے نکلا ۔اُس نے پنجرے کے پاس آکر منکھو کی گردن کو واپس اندرکیا اور ”بہت شرارتی ہو۔
“کا تبصرہ کرکے پنجرے کی جالی پر لوہے کی تارلپیٹ دی ۔پنکھو نے ایک خفانظر ثاقب پر ڈالی اور ایک غصے کی نگاہ منکھو پر ڈالی۔پھر سر جھکا دیا۔ثاقب نے دونوں کو باجرہ ڈالا اور پنجرے کی مضبوطی کو جانچ کر چل دیا۔
”دیکھا ؟․․․․․․․․تم نے کیاکیا؟․․․․․․تمہاری وجہ سے یہ لو ے کی تار پنجرے کے گرد لپیٹ دی گئی ہے۔تمہیں میں نے کہا تھا کہ پورا زور لگا کر باہر نکل جانا ،لیکن تم نے اپنی ہی کی ۔
ٹیں ٹیں ٹیں مچادی۔“ثاقب کے اندر جاتے ہی پنکھو منکھو پے برس پڑا۔
”مجھے لگا کہ جب وہ بچہ ہمیں اتنی تکلیف میں دیکھے گا تو پھر خود ہی آزادی کردے گا۔“منکھو نے اپنی ہانکی۔
”پاگل ہو تم؟اگر اُس نے ہمیں آزاد ہی کرنا ہوتا تو وہ ہمیں پکڑتا ہی کیوں؟“پنکھو کا دل چاہا کہ وہ اپنا سر پیٹ لے۔“
ارے اچھے بھیا اب تم نہ روٹھو۔
میں تمہیں ترکیب بتاتا ہوں ۔اس پر عمل کرکے ہم ضرور نجات حاصل کرلیں گے ۔“منکھو نے شرمندہ لہجے میں اپنے کیے پریشمانی ظاہر کی۔
”اب تم کیا ترکیب ذہن میں سوچ کر بیٹھ گئے ہو۔“پنکھو نے غضبناک ہو کر پوچھا۔
منکھو اپنی چونچ پنکھو کے کان کے پاس لے گیا اور اپنی ترکیب نجات با نتی۔پنکھو نے زور زور سے نفی میں سر ہلایا،لیکن منکھو بضدر ہا کہ اس طرح ہمیں رہائی مل جائے گی۔
بالآخر پنکھو کو مانتے ہی بنی۔تھوڑی ہی دیر بعد دونوں بھائی اپنے پنکھ پھڑ پھڑانے لگے اور وقت کے ساتھ اس پھڑ پھڑانے میں تیزی آگئی ۔یوں لگتا تھا جیسے چھوٹے سے پنجرے میں بھو نچال آگیا ہو۔ثاقب دوڑ ادوڑا کمرے سے آیا۔اُس نے جب یہ افتاددیکھی تو اپنے بڑے بھائی ناظم کو بھی بلا لیا۔ناظم نے فوراً قینچی مانگی اور پنکھو اور منکھو کے چیخنے چلانے کی پرواہ کیے بغیر اُن کے پنکھ کاٹ دئیے۔

”اب یہ اگرپنجرے سے نکل بھی گئے تو اڑ نہیں سکیں گے۔“ناظم نے ثاقب کو حوصلہ دیا تو دونوں بھائی کمرے میں چلے گئے۔
پنکھو کو اپنے پنکھ بہت عزیز تھے۔اب وہ ہچکیوں سے رورہا تھا جبکہ منکھو ابھی بھی ڈھیٹ ہی تھا ۔وہ خاموشی سے شر مندہ شرمندہ سا بیٹھا تھا۔اس کے اندر ہمت ہی نہ پڑی کہ وہ بھائی سے معافی بھی مانگ سکے۔
بہت دن بیت گئے ۔
کٹے پروں کیساتھ ایک بے نام سی ناراضگی نے دونوں بھائیوں کے درمیان پردہ حائل کر دیا تھا۔ثاقب باجرہ پانی ڈالنے آتا تو منکھو مانوس سی حرکتیں کرتا پیار سے ثاقب کی انگلی پر کاٹ لیتا۔جبکہ پنکھو منہ بنا کر دوسری طرف کھڑا رہتا۔منکھو صبح سویرے اٹھ کر پانی کو چونچ میں بھرتا ،پھر اپنے اوپر پھینکتا۔اس کے بعد اپنے پروں کو چھٹک کر تازہ دم ہو جاتا۔
جبکہ پنکھو ایک طرف کھڑا رہتا۔
اتنے دنوں میں دونوں پرندوں کے پر بھی نئے آگئے۔منکھو سوچتاتھاکہ وہ ثاقب کو خوش کرکے رہائی حاصل کرلے گا۔پنکھو سمجھتا تھاکہ ایسا نہیں ہو سکتا۔خیر دونوں اپنی اپنی کرتے رہے۔ایک دن شام میں ثاقب کے گھروالے قریبی عزیز کے گھر گئے۔ثاقب گھر میں اکیلا تھا۔نجانے اُس کے من میں کیا سمائی ۔اُس نے پنجرے میں باجرہ ڈالا۔
منکھو نے ہمیشہ کی طرح اس کی انگلی پر پیار سے کاٹا تو ثاقب نے بھی اُس کے سر کو سہلا دیا۔پھر ثاقب نے پنکھو کو پکڑ کر باہر نکال دیا۔ اور جاکر منڈیر پر بٹھادیا۔
”نہ تم ہنستے ہو ،نہ بولتے ہو۔تم خوش نہیں لگتے ۔یوں کرواُڑ جاؤ“ثاقب نے پنکھو کو کہا۔
پنکھو کو بہت خوشی ہوئی ۔منکھو بالکل سہم گیا۔
اگر پنکھواڑ جاتا تو ساری زندگی وہ اس پنجرے سے نہ نکل سکتا تھا۔
پنکھو منکھو سے بڑا تھا۔پنکھو اسے صحیح سمجھاتا تھا۔جہاں منہ بنانا ہو وہاں میں ہنسنے لگ جاتا ہوں ۔جہاں بولنا ہووہاں چپ کرجاتا ہوں ۔مجھے پنکھوبھیا کی باتوں اور نصیحتوں پر عمل کرنا چاہیے۔میں غلط کرتا ہوں۔ میں چھوٹا ہوں اور وہ ہمیشہ میری غلطیاں نظر انداز کر دیتے ہیں۔میں ناجائز فائدہ اٹھاتاہوں۔
منکھو بس رونے ہی لگا تھا کہ اُوسے پنکھو کے پھڑ پھڑانے کی آواز آئی۔
اس نے دیکھا تو پنکھو ثاقب کے سر پر منڈلا رہا تھا،پھڑ پھڑا رہا تھا اور ثاقب اگرہاتھ سے خود کو بچانے کی کوشش کرتا تو پنکھو زور سے اس کے ہاتھ پر کاٹ دیتا۔منکھو کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ آخر یہ ہو کیا رہا ہے؟اتنے میں پنکھو نے لڑتے لڑتے آواز لگائی”آؤ منکھو آرجائیں“ثاقب نے پنکھو کو نکالتے وقت پنجرے کا دروازہ بند نہیں کیا تھا۔
منکھو کو اب کہانی سمجھ آئی ۔وہ تیزی سے ثاقب کے سر پر آن پہنچا۔اُس کے سر پر چونچ ماری اور دونوں ثاقب سے دور اڑنے لگے۔
”یہ چونچوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے۔“منکھو نے پنکھوکو پیار سے دیکھتے ہوئے کہا اورلمبی اڑان بھری ۔

Browse More Moral Stories