Pariyaan Aur Ghareeb Mochi - Article No. 2149

Pariyaan Aur Ghareeb Mochi

پریاں اور غریب موچی - تحریر نمبر 2149

کوئی بھی اپنے جوتوں کا ننھی پریوں کے بنائے ہوئے نرم و نازک جوتوں سے موازنہ نہ کر سکا

پیر 27 دسمبر 2021

نوید اختر
ایک شہر میں ایک موچی رہا کرتا تھا۔مکان کے اوپر والے حصے میں اس کی رہائش تھی جبکہ نچلے حصہ میں اس نے اپنی دوکان قائم کر رکھی تھی۔ اسی دوکان کے ایک کونے میں اس نے نئے جوتے بنانے کے اوزار رکھے ہوئے تھے۔یہ اوزار ایک چھوٹی سی میز پر بڑے سلیقے سے رکھے ہوتے تھے۔
موچی دن رات خوب محنت کرتا لیکن اس کے باوجود اسے اتنی آمدنی نہ ہوتی کہ وہ خوشحال زندگی گزار سکے۔
یہاں تک کہ ایک وقت ایسا بھی آیا جب موچی کی تمام جمع پونجی بھی ختم ہونے کو تھی۔اب موچی بہت پریشان ہوا اور سوچنے لگا اس مرتبہ بل ادا کرنے کے بعد تو اس کے پاس نئے جوتے بنانے کیلئے بھی رقم نہیں بچے گی۔یہ خیال آتے ہی موچی کا دل کام سے اچاٹ ہو گیا۔وہ جو جوتے بنا رہا تھا اس کا چمڑا وہیں پڑا چھوڑ کر اُٹھا اور اپنے رہائش والے حصے کی طرف چلا گیا۔

(جاری ہے)

کھانا کھا کر دونوں میاں بیوی اپنی تنگ دستی کا حل تلاش کرتے کرتے سو گئے۔
دوسرے روز صبح موچی ناشتے سے فارغ ہو کر اپنی دوکان میں پہنچا تو وہ بہت حیران ہوا کیونکہ کل جو چمڑا اس نے جوتوں کے لئے کاٹ کر چھوڑا تھا اس کے جوتے تیار تھے۔اور یہ جوتے اتنے خوبصورت تھے کہ موچی نے کبھی اتنے عمدہ جوتے نہ بنائے تھے۔موچی نے زور زور سے اپنی بیوی کو آوازیں دینی شروع کر دیں۔
آوازیں سن کر اس کی بیوی دوکان میں داخل ہوئی تو موچی نے پوچھا ”کیا یہ اتنے خوبصورت جوتے تم نے بنائے ہیں؟“ موچی کی بیوی نے کہا”نہیں․․․․․میں ایسے اچھے جوتے کیسے بنا سکتی ہوں۔میں نے تو پہلے کبھی جوتے بنائے ہی نہیں۔“
موچی نے جوتے اُٹھا کر دوکان کے دروازے کے ساتھ بنے ہوئے شوکیس میں اس طرح رکھ دیئے کہ دوکان کے باہر سے ہر شخص کی نظر ان پر پڑتی تھی۔
کچھ ہی دیر گزری تھی کہ ایک آدمی نے آکر جوتے خریدنے کی خواہش ظاہر کی۔اس نے موچی کو جوتوں کی اتنی اچھی قیمت دی کہ موچی کبھی سوچ بھی نہ سکتا تھا۔اب موچی نے اس رقم سے گھر کے لئے راشن خریدا اور مزید جوتوں کے لئے چمڑا بھی خرید لیا۔خریداری سے فارغ ہو کر موچی واپس آیا تو شام ہونے کو تھی۔موچی کی بیوی کھانا بنانے کی تیاری کرنے لگی جبکہ موچی چمڑا لے کر دوکان والے حصے میں آگیا۔
موچی نے دو جوڑے جوتوں کے لئے چمڑا کاٹا۔وہ ابھی انہیں سینے کے بارے میں سوچ رہا تھا کہ اس کی بیوی نے آواز دے کر کہا”کھانا تیار ہے آکر کھانا کھا لو․․․․․․باقی کام صبح کر لینا۔“یہ سن کر موچی نے کاٹا ہوا چمڑا اپنے کام کرنے والی میز پر چھوڑا اور رہائشی حصے کی طرف آگیا۔
دوسرے روز صبح جب موچی دوکان میں آیا تو وہ ایک مرتبہ پھر حیران ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔
کیونکہ رات کو موچی نے جو چمڑا کاٹ کر رکھا تھا۔ اس کے آج پھر بہت عمدہ جوتے تیار تھے۔موچی نے ایک مرتبہ پھر اپنی بیوی کو بلا کر جوتوں کے بارے میں پوچھا لیکن اس نے اس مرتبہ بھی اپنی لاعلمی کا اظہار کیا۔موچی نے جوتے اُٹھا کر شوکیس میں رکھ دیئے۔تھوڑی دیر بعد جوتے بک گئے۔
اب تو یہ روزانہ کا معمول بن گیا کہ موچی چمڑا کاٹ کر دوکان میں رکھتا اور صبح اسے جوتے تیار ملتے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ اپنی خوبصورتی کی وجہ سے کچھ ہی دیر بعد یہ جوتے فروخت ہو جاتے۔
موچی اور اس کی بیوی اب کافی خوشحال زندگی گزار رہے تھے۔ایک دن موچی کی بیوی نے کہا ہمیں معلوم تو کرنا چاہیے کہ رات کو کون ہمارے لئے جوتے بنا کر جاتا ہے۔موچی نے کہا آج رات کو ہم دوکان کی نگرانی کریں گے اور دیکھیں گے کہ کون ایسا مہربان ہے جو روزانہ ہمارے لئے کام کرتا ہے۔
موچی اور اس کی بیوی شام ہوتے ہی کٹا ہوا چمڑا کام کرنے والی میز پر چھوڑ کر دوکان میں رکھی ایک بڑی سی الماری کے اندر چھپ کر بیٹھ گئے اور تھوڑا سا دروازہ کھول کر دوکان میں جھانکنے لگے۔
آدھی رات کے وقت آتشدان کی چمنی میں کچھ آوازیں آتی محسوس ہوئیں۔تھوڑی دیر بعد انہوں نے دیکھا کہ دو خوبصورت ننھی منی پریاں ہوا میں تیرتی ہوئی چمنی کے ذریعے دوکان میں داخل ہوئیں اور کام کرنے والی میز کے پاس رکھے سٹول پر بیٹھ کر انہوں نے جوتے سینے کا کام شروع کر دیا۔صبح ہونے سے کچھ دیر قبل جوتے کے دونوں جوڑے تیار ہو چکے تھے۔ خوبصورت جوتے میز پر اسی طرح چھوڑ کر دونوں ننھی پریاں ہوا میں اُڑتی ہوئی واپس چلی گئیں۔

موچی نے اپنی بیوی سے کہا بہت دنوں سے یہ ننھی پریاں ہمیں اچھے اچھے جوتے بنا کر دے رہی ہیں۔میرا خیال ہے ہم بھی انہیں کوئی تحفہ دیں۔موچی کی بیوی بولی دونوں پریاں ننگے پاؤں تھیں اور ان کے کپڑے بھی عام سے تھے شاید انہیں ان کپڑوں میں سردی لگتی ہو کیوں نہ میں ان دونوں کے لئے کپڑے بنا دوں۔موچی نے بھی بیوی کی ہاں میں ہاں ملائی۔اسی دن موچی کی بیوی نے دونوں پریوں کے لئے بہترین گرم جیکٹیں تیار کیں اور ساتھ ہی دو جوڑے چھوٹے چھوٹے خوبصورت جرابوں کے جوتے بھی بنائے۔

دوسرے دن انہوں نے شام کے وقت کام کرنے کی میز پر بجائے جوتوں کے لئے چمڑا کاٹ کر رکھنے کے دونوں ننھی منی پریوں کے لئے جیکٹ اور جرابوں کے گفٹ پیک تیار کرکے رکھ دیئے اور الماری میں چھپ کر پریوں کا انتظار کرنے لگے۔آدھی رات کے بعد پریاں دوکان میں داخل ہوئیں اور کام کرنے والی میز کے پاس آکر کھڑی ہو گئیں۔میز پر جوتوں کے لئے چمڑے کی جگہ گفٹ دیکھ کر انہیں حیرانی ہوئی۔
دونوں نے آپس میں مشورہ کے بعد گفٹ کھولے تو اس میں چھوٹی چھوٹی جرابیں اور جیکٹیں دیکھ کر بہت خوش ہوئیں اور انہوں نے فوراً جیکٹیں اور جرابیں پہن لیں۔اب وہ دونوں پریاں بہت خوش تھیں۔خوشی سے دونوں پریاں جھومتی رہیں۔اور پھر ہوا میں تیرتی ہوئی چمنی کے راستے دوکان سے باہر نکل گئیں۔اس کے بعد وہ کبھی دوکان میں کام کرنے نہ آئیں۔
موچی نے جوتے بنانے کا کام جاری رکھا جو کہ عمدہ اور خوبصورت ہوتے تھے اور وہ پورے علاقے میں بہت امیر اور مشہور ہو گیا۔لیکن کوئی بھی اپنے جوتوں کا ننھی پریوں کے بنائے ہوئے نرم و نازک جوتوں سے موازنہ نہ کر سکا۔

Browse More Moral Stories