Petunia Ke Phool - Article No. 1999

Petunia Ke Phool

پیٹونیا کے پھول - تحریر نمبر 1999

ٹیرس پہ پیٹونیا کے پھول خوشی سے مسکرا رہے تھے

بدھ 23 جون 2021

شازیہ ظفر
حارث میاں جب اسکول سے گھر لوٹے تو انہیں لاؤنج میں رکھی اپنی ہوم ورک ٹیبل کے پاس رنگ برنگے پھولوں کے چار گملے رکھے نظر آئے۔انھوں نے بڑی حیرت سے دیکھا اور قریب صوفے پر اخبار پڑھتے دادا ابو سے سوال کیا․․․․
دادا ابو یہ پھولوں کے پودے کہاں سے آئے کتنے پیارے ہیں․․․․
دادا ابو نے اخبار پر سے نظریں ہٹائیں اور مسکراتے ہوئے کہا․․․․․
حارث میاں․․․․!آج ہم نرسری کے پاس سے گزر رہے تھے۔
پھولوں بھرے یہ گملے ہمیں بہت اچھے لگے۔ہم نے سوچا آپ ہمارے ساتھ پارک تو جاتے نہیں یہ گملے آپ کی ہوم ورک ٹیبل کے ساتھ ہی رکھوا دیتے ہیں تاکہ جب آپ یہاں ہوم ورک کریں اور ویڈیو گیمز کھیلیں تو ساتھ یہ پھول آپ کا دل لبھاتے رہیں۔

(جاری ہے)


حارث میاں یہ سن کر بہت ہی خوش ہوئے یہ رنگ برنگے پھول واقعی ان کے دل کو بھا گئے تھے۔
گیارہ سالہ حارث میاں چوتھی جماعت کے طالب علم تھے۔

ذہین تھے اور تمیزدار بچے تھے۔مگر کچھ عرصے سے آن لائن ویڈیو گیمز کھیلنے کی لت میں مبتلا ہوتے جا رہے تھے۔سارا گھر تشویش میں تھا۔دادا ابو کئی بار تاکید کرتے۔حارث میاں․․․․!ہوم ورک ختم کر لیا ہے تو ہمارے ساتھ پارک چلیے۔کھلی فضا میں بھاگ دوڑ اچھی صحت کے لئے بہت ضروری ہے۔ہر وقت گھر میں بند رہنے سے بچوں کی نشوونما اچھی نہیں ہوتی۔ہم تو اپنے بچپن میں ہر کھیل کھیلا کرتے تھے۔
حتیٰ کہ گھر کی قریبی نہر میں دوستوں کے ساتھ تیراکی بھی کیا کرتے تھے۔آپ کو پتا ہے نا کھلی تازہ ہوا کتنی صحت بخش ہے اور صحت مند لوگوں سے ہی صحت مند معاشرہ بنتا ہے۔
مگر حارث میاں کے کان پہ جوں نہ رینگتی۔دادا ابو وہ پرانا دور تھا۔تب کمپیوٹر نہیں تھا تبھی آپ یہ کھیل کھیلا کرتے تھے۔اب ہم سارے دوست آن لائن میچ کھیلتے ہیں۔
تبھی دادا ابو کے ذہن میں حارث کو سمجھانے کے لئے یہ ترکیب آئی۔

حارث میاں پیٹونیا کے پھولوں کو دیکھ دیکھ خوش ہو ہی رہے تھے کہ دو تین دن بعد انہیں محسوس ہوا کہ پودے مرجھا سے رہے ہیں۔دادا ابو کو دکھایا۔حارث میاں․․․․․!شاید ان پودوں کو یہ جگہ پسند نہیں آئی۔دادا ابو میں تو انہیں وقت پہ پانی بھی دیتا ہوں۔حارث میاں اس صورتحال پہ خاصے افسردہ تھے۔پریشانی کی بات نہیں۔ہم ان میں سے دو گملوں کو باہر ٹیرس پہ رکھ کے دیکھتے ہیں۔
آخر ان کا مسئلہ کیا ہے۔دادا ابو نے یہ کہتے ہوئے دو گملے باہر ٹیرس کی کھلی ہوا اور دھوپ میں رکھ دئیے۔
حارث میاں مطمئن ہو کر اپنے مڈٹرم ٹیسٹ میں مشغول ہو گئے۔
دس پندرہ دن بعد اسکول بیگ رکھتے ہوئے ان کی نظر کونے میں رکھے پیٹونیا کے گملوں پر پڑی۔یہ کیا ہوا۔چند سوکھے مرجھائے پتے۔نہ رنگ برنگے پھول نہ کلیاں۔حارث میاں کا ننھا سا دل دکھ سے بھر گیا۔
فوراً ہی انہیں بقیہ دو گملوں کا خیال آیا۔وہ ٹیرس کی طرف دوڑے اور یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ ٹیرس پہ موجود دونوں گملوں میں پودے کافی بڑے اور گھنے دکھتے تھے اور ان میں بہت سارے رنگ بہ رنگے پھول اپنی بہار دکھا رہے تھے۔
حارث میاں فوراً دادا ابو کے پاس پہنچے اور انہیں ان پودوں کا سارا احوال سنایا۔دادا ابو آپ تو ایک جیسے پودے لائے تھے پھر چاروں گملوں میں اتنا فرق کیسے ہو گیا․․․؟
دادا ابو نے مسکراتے ہوئے حارث میاں کو سمجھایا۔
بیٹا سارا فرق سورج کی دھوپ اور کھلی فضا کا ہے۔اندر لاؤنج میں پودوں کو دھوپ ملی نہ تازہ ہوا۔اس لئے وہ مرجھاتے چلے گئے۔جبکہ باہر ٹیرس والے گملے دھوپ میں بھی تھے اور انہیں صحت بخش تازہ ہوا بھی میسر تھی اس لئے وہ خوشی سے بڑھ رہے ہیں اور اتنے پھول بھی دے رہے ہیں۔حارث میاں بہت حیران ہوئے۔جیسے ایک دم ہی بہت کچھ سمجھ گئے ہوں۔
اگلے روز شام میں سب گھر والوں نے دیکھا ہوم ورک ختم کرنے کے بعد حارث میاں جاگرز پہنے کسی کے انتظار میں بے چینی سے ٹہل ہیں ۔
گیٹ کی گھنٹی بجی اور دادا ابو نے انہیں پکارا․․․․․ارے حارث میاں․․․․!آپ کے دوست بلانے آئے ہیں۔جی دادا ابو۔آج ہم سب پلے گراؤنڈ میں کرکٹ میچ کھیلنے جا رہے ہیں۔
آپ ہی تو کہتے ہیں صحت مند لوگ ہی صحت مند معاشرہ بناتے ہیں اور صحت مند رہنے کے لئے کھلی صحت بخش فضا بہت ضروری ہے۔ دادا ابو مسکرائے۔ان کا مقصد پورا ہو گیا تھا۔ٹیرس پہ پیٹونیا کے پھول خوشی سے مسکرا رہے تھے۔

Browse More Moral Stories