Tabdeeli - Article No. 1310

Tabdeeli

تبد یلی - تحریر نمبر 1310

”کام بہت خطر ناک ہے،اِس لئے تمہیں نہایت احتیاط اور ہوشیاری سے کرنا ہوگا۔“بابر بشیر اپنے روبرو بیٹھے شخص کو لفظ لفظ چبا کر وارننگ دے رہے تھے۔

ہفتہ 2 مارچ 2019

شاہ بہرام انصاری․․․․․․․ملتان
”کام بہت خطر ناک ہے،اِس لئے تمہیں نہایت احتیاط اور ہوشیاری سے کرنا ہوگا۔“بابر بشیر اپنے روبرو بیٹھے شخص کو لفظ لفظ چبا کر وارننگ دے رہے تھے۔
”فکر مت کریں باس! ہم یہ تمام کام بہت دیکھ بھال کرکریں گے۔میں نے دیگر ساتھیوں کو الرٹ کر دیا ہے“سامنے والاشخص اُنہیں اطمینان دلانے لگا۔


”اور حیدر کو کام سمجھا دیا ہے ؟“بابر نے پہلے سے زیادہ توجہ دینے والے انداز میں اُس سے دریافت کیا۔
”جی ہاں باس! ہمیں اس پر زیادہ محنت نہیں کرنا پڑی ۔وہ اس کھیل کے تمام گروں سے خاصا واقف ہے ۔“وہ حیدر کی تعریف کررہا تھا۔”واقف کیسے نہ ہو بھئی‘آخر بیٹا کس کا ہے۔“بات چیت کے دوران بابر بشیر پہلی بار مسکرائے تھے۔

(جاری ہے)


”اچھا کل رات دس بجے سی پورٹ پہنچ جانا‘میں حیدر کو اپنے آدمیوں کے ساتھ خصوصی کار میں بھیج دوں گا۔“بابر نے اُٹھتے ہوئے اُسے آخری اطلاع دی۔
”اوکے باس“اُن کے پیچھے وہ شخص بھی اُٹھ کھڑا ہوا اور دونوں وہاں سے چلے گئے۔بابر بشیر ایک ماہر سمگلر تھا جو کئی سالوں سے بیرون ممالک منشیات سمگل کررہا تھا۔اسے اس کام کا بہت تجربہ ہو چکا تھا اور اسی تجربے کی بنا پر دولت اُس کے ہاتھوں کی میل بن چکی تھی ۔
حیدر سے چھوٹی ایک بیٹی مناہل تھی جو ابھی سکول میں پڑھ رہی تھی ۔
بابر کو اپنی زندگی کی سب سے بڑی سمگلنگ ڈیل سے دس کروڑ کا فائدہ ہونے والا تھا۔رات کے تین بجے وہ گھر واپس آیا اور صبح اُس کی نیند پوری نہ ہو پائی تھی کہ مناہل اُس کے بازو کھینچ کر اُسے جگانے لگی۔”پاپا اُٹھیں ناں! میرے سکول میں آج ایک فنگشن ہے ،میری تمام فرینڈز کے پیر نٹس اُنہیں خود سکول چھوڑنے آئیں گے اور ٹیچر نے مجھے بھی آپ کو ساتھ لانے کو کہا ہے ،مماکی تو طبیعت خراب ہے ‘اب آپ نے میرے ساتھ ضرور جانا ہے ۔

اپنی اہلیہ کی خراب طبیعت کا بابر کو اپنی بیٹی کی زبانی پتہ چلاتھا ورنہ رات کو وہ سیدھا اپنے کمرے میں چلا گیا تھا،اسی لئے اُس سے پوچھنے لگا:”کیوں کیا ہوا تمہاری مماکو؟“
مناہل اُس کے سوال پر کچھ پریشان ہو کر بولی :”پتہ نہیں پاپا کل جب میں سکول سے آئی ،تب سے اُن کی طبیعت خراب ہوتی جارہی ہے ۔پتہ ہے پاپا !مماکیا کہہ رہی تھی․․․․․․․؟“
مناہل کے یکدم استفسار پروہ اُلجھتے ہوئے پوچھنے لگا:”ہاں ہاں بتاؤ کیا کہہ رہی تھیں؟“
”مما کہہ رہی تھیں کہ ہم میں سے کوئی کچھ غلط کرنے جارہا ہے اور ہمارے ساتھ کچھ بُرا ہونے والا ہے ۔
“بابر بشیر نے ماتھے پر سلوٹیں ڈالتے ہوئے پوچھا:”کیا مطلب․․․․․؟“
مناہل کی ناسمجھی کے باوجود وہ بے خیالی میں اُس سے پوچھ بیٹھا تھا اسلئے اُس کی طرف سے یقینی ”پتہ نہیں پاپا“کا جواب ملا تھا۔بابر کا جانے کو دل تو نہیں چاہ رہا تھا،تاہم بیٹی کی خوشی کی خاطر وہ جانے پر راضی ہو گیا۔اُس کے اُٹھنے تک مناہل ناشتے سے فارغ ہو کر یونیفارم پہن چکی تھی اور لیٹ ہونے کا کہہ کر اپنے پاپا کا ہاتھ پکڑتے ہوئے اُنہیں سکول جلدی پہنچے کیلئے کھینچ رہی تھی ۔

جبکہ وہ اپنے بیٹے حیدر کو دیکھ رہے تھے کہ اُسے رات کو کرنے والے کام کے بارے میں حتمی طریقہ کار بتادیں مگر مناہل بتارہی تھی کہ بھیا ابھی سوئے ہوئے ہیں ،رات کو دیر سے آئے تھے اور کہہ رہے تھے کہ بہت تھکے ہوئے ہیں ،اس لئے صبح دس بجے سے پہلے کوئی نہ جگائے ۔بابر نے ڈرائیور عابد کو گاڑی نکالنے کو کہا۔وہ گاڑی چلانے کیلئے دروازہ کھولنے لگا تو اُنہیں نے اُسے منع کردیا کہ آج گاڑی میں خود چلاؤں گا۔

عابد نے اُن سے چھٹی مانگتے ہوئے کہا کہ اُسے تین چار دن کیلئے اپنے گاؤں جانا ہے ،اُس کی بیٹی کی شادی ہے اور ساتھ ہی اُس نے بابر کو بھی اپنی فیملی کے ساتھ آنے کی دعوت دی تھی ۔بابر کو ایسے چھوٹے لوگوں کے ہاں دعوت پر جانے میں بھلا کیا دلچسپی تھی لہٰذا اُنہوں نے محض سر جھٹکنے پر اکتفا کیا۔چوکیدار کے گیٹ کھولنے کی دیر تھی ،اُن کی گاڑی فراٹے بھرتے باہر نکلی ۔

گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے وہ سوچ رہا تھا کہ اُس کی اہلیہ کی طبیعت اچانک کیسے خراب ہو گئی اور اوپر سے ُاُن کی باتیں ،اُسے مزید مضطرب کررہی تھیں کہ اُنہوں نے ایسا کیوں کہا۔وہ اپنے خیالوں میں اس قدر ڈوبا ہوا تھا کہ راستے بھر مناہل سے اُسکے متعدد بار مختلف سوال پوچھنے کے باوجودکوئی بات نہ کی تھی۔مناہل کی مما کی باتیں اُس کے حواس پر اس قدر غالب آچکی تھیں کہ وہ سامنے سے آتی فل سپیڈبس کی ٹکر سے اپنی گاڑی کوکوشش کرنے پر بھی نہ بچا سکا۔

اس زبردست ایکسیڈنٹ کے نتیجے میں گاڑی کی ونڈسکرین مکمل طور پر ٹوٹ گئی تھی جبکہ ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے بابر کا سرزور سے سٹےئرنگ سے ٹکرایا تھا ،بس ڈرائیوراچھا آدمی تھا تبھی فوری طور پر باہر آکر اُن کی خیریت دریافت کرنے لگا۔بابر کے بے خودی میں سیل فون پکڑانے پر اُس نے اُن کے گھر کا نمبر ملا کر اُنہیں اس حادثے سے مطلع کیا اور اپنے کنڈیکٹر کی مدد سے چند قدم کے فاصلے پر موجودہ ہاسپٹل میں لے گیا۔
بابر کو تو شدید دماغی چوٹ آئی تھی البتہ مناہل صرف بے ہوش ہی ہوئی تھی ۔پانچ دن مسلسل آئی سی یو میں گزارنے کے بعد بابر کے دماغی نروز نارمل ہو گئے ۔
حیدر اپنی مماکو سنبھالتے ہوئے خود بے حال ہورہا تھا اور مناہل کا سب کو دیکھ کر براحال تھا۔بابر کو اب سمجھ آئی تھی کہ اُس کی اہلیہ اُس کے سمگلنگ کے غلط کام کی طرف اشارہ کررہی تھیں اور حیدر کو انہیں اپنے ساتھ ملانے کو براہونا کہہ رہی تھیں ۔
اس کے علاوہ اور بھی بہت کچھ غلط ہوا تھا ،مثلاً اُس کا یہ ایکسیڈنٹ ،اہلیہ کی بیماری ‘مناہل کی سکول سے غیرحاضریاں اور وہاں فنکشن میں اُس کی شرکت سے محرومی کیونکہ حیدر کو مناہل کی پرنسپل کا فون آیا تھا کہ بابربشیر اس تقریب میں مہمان خصوصی کے طور پر مدعو ہیں۔تاہم اس کے ساتھ ساتھ اُنہیں کئی فائدے بھی ہوئے تھے۔مثلاً مناہل اس حادثے میں بالکل محفوظ رہی تھی‘ اُس کی مما صحت یاب ہو چکی تھیں ۔حیدر اس ایکسیڈنٹ کی وجہ سے سی پورٹ نہ پہنچ سکا تھا اور سب سے بڑی بات اتفاقاً دوسری سمگلر پارٹی فارن ایجنسی کے ہاتھوں پکڑی گئی تھی بابر کو یہ سب اپنی تبدیلی کا نتیجہ لگ رہا تھا کیونکہ وہ سمگلنگ جیسے مکر وہ فعل کو چھوڑنے کا ارادہ کر چکے تھے۔

Browse More Moral Stories