Tarbiyat - Article No. 1571

Tarbiyat

تربیت - تحریر نمبر 1571

بہت تلاش کرنے کے بعد وہ اس عمارت تک پہنچ گیا،جہاں آج اس کا انٹرویو تھا۔وہ گھر سے نکلتے ہوئے سوچ رہا تھاکہ اے کاش! آج اللہ میاں مجھے انٹرویو میں کامیاب کردے۔اگر کامیاب ہو گیا تو فوراً اپنے والدین کے گھر کو چھوڑ کر آفس کے نزدیک ہی کرائے پر رہنے لگوں گا۔

منگل 12 نومبر 2019

خولہ بنتِ سلیمان
بہت تلاش کرنے کے بعد وہ اس عمارت تک پہنچ گیا،جہاں آج اس کا انٹرویو تھا۔وہ گھر سے نکلتے ہوئے سوچ رہا تھاکہ اے کاش! آج اللہ میاں مجھے انٹرویو میں کامیاب کردے۔اگر کامیاب ہو گیا تو فوراً اپنے والدین کے گھر کو چھوڑ کر آفس کے نزدیک ہی کرائے پر رہنے لگوں گا۔والدین کی روزانہ ڈانٹ پھٹکار سے اور روک ٹوک سے تو جان چھوٹے گی۔

میں تو بیزار ہو گیا ہوں ان باتوں سے ۔
صبح غسل خانے جانے لگو تو حکم ہوتاہے ، پہلے بستر کی چادر درست کرو۔سوکر اُٹھنے کی دعا پڑھو۔غسل خانے سے نکلو تو حکم ہو گا:”نل بند کیا؟غسل خانہ صاف کیا؟تو لیا پھیلا یا جگہ پر ،یا یونہی پھینک دیا؟“
ناشتہ کرکے گھر سے نکلنے کا سوچو تو حکم ہو گا:”کمرے کا پنکھا اور لائٹ بند کی۔

(جاری ہے)

چپلیں جگہ پر رکھیں نوکری مل جائے تو ان سب باتوں سے نجات بھی مل جائے گی۔


ایک ہال میں بہت سے اُمید وار بیٹھے تھے اور بلائے جانے کا انتظار ہورہا تھا۔اس نے دیکھا برآمدے کی بتی ابھی تک جل رہی تھی۔امی کی ہدایت یاد آگئی۔تو بتی بجھادی۔آفس کے دروازے پر کوئی نہیں تھا۔برابر میں رکھے ہوئے واٹر کولر سے پانی رس رہا تھا۔والد صاحب کی ڈانٹ یاد آگئی،فوراً اس کو بند کر دیا۔
ملازم نے آکر بتایا انٹرویو دوسری منزل پر ہو گا۔
سیڑھی چڑھتے ہوئے نظر پڑی،سیڑھی کی لائٹ بھی جل رہی تھی جب کہ اچھا خاصا اُجالا تھا،اسے بند کرکے آگے بڑھا تو درمیان میں ایک کرسی بے ترتیب انداز میں رکھی دکھائی دی۔اسے قرینے سے ایک طرف رکھ کر اوپر گیا تو دیکھا کہ پہلے سے موجود اُمیدوار اندر جاتے ہیں اور فوراً واپس بھی آجاتے ہیں ۔میں نے دل میں سوچا کہ کہیں یہ انٹرویو خانہ پری تو نہیں ۔
معلوم کرنے پر پتا چلا کہ وہ درخواست لے کر کچھ پوچھتے نہیں ہیں واپس بھیج دیتے ہیں۔
اپنا نمبر آنے پرمیں نے اپنی اسناد کی فائل منیجر کے سامنے رکھ دی۔تمام کاغذات دیکھ کر منیجر صاحب نے پوچھا،کب سے جوائن کررہے ہو؟
ان کے سوال پرمجھے یوں لگا جیسے میرے ساتھ کوئی مذاق کیا جارہا ہے۔
منیجر نے محسوس کر لیا اور کہا:”یہ اپریل فول نہیں، حقیقت ہے۔

پھر اسے بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے کہا:”آج کے انٹرویو میں ہم نے کسی سے کچھ پوچھا ہی نہیں ہے۔صرف CCTVکیمرے میں سب کے ساتھ تمھارا برتاؤ بھی دیکھا ہے۔سبھی اُمید وار آئے،مگر نہ کسی نے لائٹ بند کی نہ نل بند کیا،نہ کرسی راستے سے ہٹائی۔مبارک باد کے مستحق ہیں تمھارے والدین،جنھوں نے تمھیں تمیز اور تہذیب سکھائی ہے۔جس کا طور طریقہ مہذب نہیں وہ چاہے جتنا ہو شیار اور چالاک ہو،نظم وضبط کے بغیر وہ زندگی کی دوڑمیں پوری طرح کامیاب نہیں ہو سکتا۔

ملازمت حاصل کرنے کے بعد میں اپنے آپ سے شرمندہ اور اپنے والدین پر فخر کررہا تھا،جنھوں نے زندگی کے ہر مرحلے پر میری رہنمائی کرکے آج مجھے سرخ روکردیا تھا۔میں نے پوری طرح طے کر لیا تھاکہ گھر پہنچتے ہی اپنی امی ابو سے معافی مانگ کر انھیں بتاؤں گا کہ آج اپنی زندگی کے پہلے امتحان میں ان کی چھوٹی چھوٹی باتوں پر روکنے ،ٹوکنے اور تربیت کی وجہ سے کامیاب ہوا ہوں۔آج مجھے جو عزت ملی،اس کے مقابلے میں میری ڈگری کی کوئی حیثیت نہیں ہے،یعنی صرف تعلیم ہی نہیں تہذیب کا بھی اپنا مقام ہے۔

Browse More Moral Stories