Machli Sab Ko Mili - Article No. 1750

Machli Sab Ko Mili

مچھلی سب کو ملی - تحریر نمبر 1750

اللہ نے ایک ہی وقت میں ہم سب کی خواہش جس انداز میں پوری کی ،یہ اس کی ذات کا ادنی سا کرشمہ ہے۔

پیر 22 جون 2020

میم ندیم
مچھیرے نے اللہ کا نام لے کر ندی میں جال ڈالا۔دن بھر کے انتظار کے بعد دو بڑی سی مچھلیاں ہاتھ لگیں۔وہ اپنا جال سمیٹ رہا تھا کہ ایک چیل تیزی سے جھپٹی اور اپنے پنجوں میں ایک مچھلی دبا کر اڑ گئی۔مچھیرے کو بہت افسوس ہوا،مگر پھر وہ کچھ سوچ کر مسکرایا۔اس کا بیٹا چیل اور اپنی قسمت کو کوسنے لگا۔مچھیرے نے کہا،”بیٹا اللہ کا شکر ادا کرو کہ ایک مچھلی بچ گئی۔
دوسری مچھلی ہماری قسمت میں نہیں تھی۔جو چیز جتنی قسمت میں ہوتی ہے اتنی ہی ملتی ہے۔قسمت کو کوسنا نا شکروں کا کام ہے۔“
وہ چیل اڑتی ہوئی ایک پہاڑی کی طرف جا پہنچی۔ایک دوسری چیل نے اس سے مچھلی چھیننے کے لئے اس پر حملہ کر دیا۔دونوں چیلوں میں چھینا جھپٹی ہونے لگی اور مچھلی چیل کے پنجوں سے پھسل کر پہاڑی پر رہنے والے ایک درویش کی جھونپڑی کے سامنے گر پڑی۔

(جاری ہے)

درویش نے مچھلی کو اٹھایا اور آسمان کی طرف دیکھ کر کہا،”اے اللہ!آپ نے میری دعا قبول کرلی۔میں نے مچھلی ہی تو مانگی تھی۔مگر آپ کو تو معلوم ہے کہ میرے پاس مچھلی پکانے کے لئے نہ تو تیل ہے اور نہ مصالحے ۔مجھے تو پکی پکائی مچھلی چاہیے۔میں یہ مچھلی نہیں کھا سکتا۔اسے واپس منگوا لیجیے اور مجھے پکی ہوئی مچھلی بھجوائیے۔“
یہ کہہ کر درویش جھونپڑی میں چلا گیا اور تھوڑی دیر کے بعد جب وہ دوبارہ باہر آیا تو مچھلی وہاں نہیں تھی۔
اسے ایک چیل نے اٹھا لیا اور وہ دوسری چیلوں سے بچتی ہوئی،جو اس سے مچھلی چھیننے کے لئے اس کا پیچھا کر رہی تھیں،پہاڑی کے نیچے کی طرف اڑ رہی تھی لیکن دو چیلوں نے اس پر حملہ کر دیا اور اس سے مچھلی چھیننے کی کوشش کی۔اس لڑائی میں چیل کے پنجوں سے وہ مچھلی نکل کر ایک غریب کسان کے آنگن میں جا گری۔کسان کی بیوی نے دوڑ کر وہ مچھلی اٹھالی اور کسان سے بولی،”میں تم سے کتنے دنوں سے کہہ رہی تھی کہ میرا دل مچھلی کھانے کو چاہ رہا ہے۔
تم نے تو لاکر نہ دی،اللہ میاں نے آج مجھے بھیج دی۔میں نے منت مانی تھی کہ جب بھی مچھلی پکاؤں گی پہاڑی والے بابا کو بھیجوں گی۔اب میں مصالحہ پیس کر مچھلی پکائے دیتی ہوں۔تم بابا کو جاکر دے آؤ اور کہنا کہ بابا دعا کریں کہ ہمارا ہونے والا بچہ زندہ اور سلامت رہے۔“
کسان کی بیوی نے مچھلی پکائی کہ اتنے میں کسان کا دوست مچھیرا وہاں آگیا۔
کسان نے اپنے دوست سے کہا،”تم اچھے وقت پر آگئے۔آج مچھلی پکی ہے۔کھانا کھا کر جانا۔“
مچھیرے نے تعجب سے پوچھا،”مگر تم کو مچھلی کہاں سے مل گئی؟وہ تو میں ہی تم کو لا کر دیتا ہوں۔“
”بس یوں سمجھ لو اللہ میاں نے آسمان سے ٹپکادی ہمارے آنگن میں۔“کسان نے سارا ماجرا سنایا کہ کس طرح چیل وہ مچھلی وہاں گرا گئی۔مچھیرا یہ سن کر مسکرایا مگر کچھ بولا نہیں۔
جب کسان پہاڑی بابا کو مچھلی دینے گیا تو مچھیرا بھی اس کے ساتھ گیا۔کسان نے پکی ہوئی مچھلی کا پیالہ پیش کیا اور دعا کی درخواست کی۔درویش نے ان دونوں کو دیکھا اور پوچھا،”مچھلی کہاں سے آئی؟“
کسان نے کہا،”آسمان سے گری ،بیوی نے منت مانی تھی کہ اگر اسے مچھلی ملی تو وہ پہاڑی والے بابا کو پہلے کھلائے گی اور دعا کرائے گی کہ اس کا ہونے والا بچہ زندہ اور سلامت رہے۔

اب درویش مچھیرے سے بولا،”تم کون ہو؟“
مچھیرے نے کہا،”میں مچھیرا ہوں۔آج صبح دو مچھلیاں پکڑی تھیں۔ایک میرے کنبے کی قسمت کی تھی اور دوسری چیل اٹھا کرلے گئی۔“
درویش سارا ماجرا سن کر بولا،”ہم سب نے مچھلی کھانے کی خواہش کی۔اللہ نے ایک ہی وقت میں ہم سب کی خواہش جس انداز میں پوری کی ،یہ اس کی ذات کا ادنی سا کرشمہ ہے۔ہمیں اس کا شکر ادا کرنا چاہیے۔“

Browse More Moral Stories