Akhbari Reporter - Article No. 2492

Akhbari Reporter

اخباری رپورٹر - تحریر نمبر 2492

جو نہی میں اپنی تقریر ختم کر چکا وہ ہاتھ میں کھلی نوٹ بک اٹھائے سٹیج پر چڑھا اور لپک کر مجھ سے مخاطب ہوا!

پیر 25 نومبر 2019

 کرنل محمد خان
جو نہی میں اپنی تقریر ختم کر چکا وہ ہاتھ میں کھلی نوٹ بک اٹھائے سٹیج پر چڑھا اور لپک کر مجھ سے مخاطب ہوا!
”میں روز نامہ خیابان کا رپورٹرہوں ۔بد قسمتی سے میں آپ کی تقریر نہ سن سکا۔براہ کرم اپنی تقریر کی چیدہ چیدہ باتیں بتاسکیں گے؟“
میں نے کہا”تو کیا آپ تقریر کے وقت ہال میں موجود نہ تھے؟“
بولا”جی نہیں۔میں اس وقت ہاکی میچ دیکھ رہا تھا۔

پوچھا”تو آپ ہاکی میچ بھی رپورٹ کرتے ہیں؟“
کہنے لگا”نہیں صاحب‘میں تو سینئر آدمی ہوں ایسے چھچھورے کام نہیں کرتا۔وہ تو میچ ذرا دھڑلے کا تھا۔دیکھنے چلا گیا ۔ہاں تو آپ کا لیکچر کس موضوع پر تھا؟“
کہا”اس کا عنوان تھا”سائنس کی حیرت انگیز پیش رفت۔“
بولا”اچھا تو سائنس پر تھا۔“اور ساتھ ہی اس نے تیزی سے کچھ نوٹ بک پر لکھا جلد ہی رک گیا اور اچانک کہنے لگا”ذرا حیرت کے ہجے تو بتادیں۔

(جاری ہے)

ح حلوے والی ہوتی ہے نا؟“
”جی ہاں۔بالکل حلوے والی“میں نے مسکراتے ہوئے کہا۔
بولا”میرا بھی یہی خیال تھا۔اب ذرا آپ کی تقریرکے متعلق میں پوچھ سکتاہوں کہ آپ کا مرکزی خیال کیا تھا؟میرامطلب ہے‘خیر‘مطلب تو آپ سمجھ ہی گئے ہوں گے“۔
کہا”مرکزی خیال یہ تھا کہ ریڈیائی تا بکاری ایٹم کی بناوٹ پر کیا روشنی ڈالتی ہے۔“
بولا”ذرا ٹھہریں۔
میں نوٹ کرلوں․․․․․․ریڈ یائی نا بکاری․․․․․․“میں نے دخل دیتے ہوئے اصلاح کی کوشش کی اور کہا نا بکاری نہیں‘تابکاری ۔“
”شکر یہ ‘شکر یہ۔ریڈ یائی تا بکاری ․․․․․بناوٹی روشنی․․․․․وغیرہ وغیرہ ‘جی ہاں میں سمجھ گیا۔“اس کے بعد اس نے نوٹ بک بند کر دی اور سوال کرنے لگا۔
”کبھی پہلے بھی آپ یہاں آئے ہیں؟“
”جی نہیں۔یہ میرا پہلا موقع ہے۔

”کیا آپ کا قیام نئے ہوٹل میں ہے؟“
”جی ہاں“
”ہوٹل پسند آیا؟“
”بالکل بہت آرام دہ جگہ ہے“
اس نے نوٹ بک کھولی اور اس پر کچھ گھسیٹا۔پھرا گلاسوال کیا:
”کیا آپ نے وہ نیا بو چڑ خانہ بھی دیکھا ہے جو ٹاؤن کمیٹی نے بنوایا ہے؟“
”نہیں دوست۔میں نے تو اس کے متعلق کچھ سنا بھی نہیں۔“
”جناب یہ تو ہمارے ملک کا سب سے بڑا مذبح ہے۔
آپ یقینا اس کے متعلق کچھ کہنا چاہیں گے۔“
”بھئی‘میں نے اسے دیکھا ہی نہیں۔کیا کہہ سکتاہوں؟“
اس نے کچھ نوٹ بک میں لکھا اور ذرا توقف سے بولا۔
”آپ مقامی کمیٹی کے نئے سکینڈل کے متعلق کیا فرمائیں گے؟“
”مجھے تو کسی سکینڈل کا علم نہیں۔“
”کیا آپ کے خیال میں کمیٹی کے اکثر ممبر راشی ہیں؟“
”بھئی‘میں ان کے متعلق کچھ بھی نہیں جانتا“۔

”بالکل۔بھلا آپ کو کیا معلوم!ویسے عام طور پر آپ کے خیال میں یہ لوگ راشی ہو سکتے ہیں یا نہیں؟“
میں نے کہا”ہو تو سکتے ہیں بلکہ بعض اوقات پارٹی بازی میں یہ چنڈال چمچے بن جاتے ہیں۔“
”آہاہا‘کیا بات کہہ دی آپ نے!چنڈال ‘چمچے۔بھئی واہ۔“رپورٹر جھوم اٹھا اور بولتا چلا گیا”بات ہوئی نا۔چنڈال چمچے!یہ چیز ہے جو ہمارے اخبار کے ماتھے پر زیور کی طرح سجے گی۔
لیکچروں میں کیا رکھا ہے۔خشک فارمولے اورمشکل مساواتیں۔“
میں خاموشی سے اسے دیکھتا رہا۔اچانک اس نے اگلاسوال کر ڈالا
”کیا ان چنڈالوں نے مذبح کی تعمیر سے لاکھوں کے حساب سے ہاتھ رنگے ہوں گے؟“
”نہیں میاں‘مجھے اس بات کا کوئی علم نہیں۔“
”لیکن دیکھیں نا‘آپ کے خیال میں یہ بات ممکن تو ہے؟“
”بھئی میں اس باب میں کچھ نہیں کہہ سکتا“
”چلیں ‘اس بات کو یہیں رہنے دیتے ہیں۔
بہر حال بہت بہت شکریہ۔امید ہے آپ کبھی پھر تشریف لائیں گے۔خداحافظ“۔
اگلی صبح گھر جانے کے لئے گاڑی میں سوار ہوا تو تازہ اخبار پر نگاہ پڑی دو کالمی خبر کے اوپر جلی سرخی تھی اور پھر ذیلی سرخی:”ٹاؤن کمیٹی کے ارکان چنڈال چمچے ہیں۔“”ممتاز پروفیسر کا سائنس پر لیکچر“
رپورٹ میں لکھا تھا”معروف سائنسدان عبدالرب نے مقامی میونسپل ہال میں ایک عظیم اجتماع کے سامنے نہایت دلچسپ لیکچر دیا:انہوں نے فرمایا کہ ہم ریڈیو تا بکاری سے روشنی حاصل کرتے ہیں اور مزید فرمایا کہ ٹاؤن کمیٹی کے ارکان چنڈال چمچے ہیں۔
مقرر نے ایٹم کی بناوٹ پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔ان کے ذہن میں مذبح کی تعمیر کے ضمن میں رشوت ستانی کے متعلق شدید شکوک تھے لیکن انہوں نے مصلحتاً خاموشی اختیار کی۔پروفیسر صاحب کی تقریر سامعین نے انتہائی توجہ سے سنی اور بار ہا تالیاں بجا کر ان کو داد دی۔تقریر کے انجام پر حاضرین نے جناب مقرر سے ایک بار پھر اسی شہر میں آکر لیکچر دینے کی التجا کی۔

سو‘یہ ہے جناب رپورٹر کا طریقہ وار دات لیکن کیا میں اس کی اس حرکت پر ناراض ہوا؟بالکل نہیں۔آخر کیوں ناراض ہوتا؟کیا اس نے اپنی رپورٹ میں نہیں لکھا تھاکہ میں نے ایک عظیم اجتماع کے سامنے تقریر کی تھی۔حالانکہ ہال میں بمشکل پچاس ساٹھ آدمی تھے۔کیا اس نے سا معین کی دلچسپی اور بار بار تالیاں بجانے کا ذکر نہیں کیا تھا؟حالانکہ تالیاں بجتیں تو رپورٹر سے بہتر میں سن سکتا تھا کیونکہ وہ تو اس وقت ہا کی میچ دیکھ رہا تھا۔
آپ سچ جھوٹ کو جانے دیں۔یہ دیکھیں کہ آخر ایک مقرر کو اس سے بہترکیا رپورٹ چاہئے۔
جہاں تک ارکان کونسل کی رشوت ستانی اور خبر کے عنوان کے سنسنی خیز ی کا تعلق ہے‘تو یہ بے چارے رپورٹرکا قصور نہیں‘ہمارا ہے!صبح کے اخبار میں ایسی چیختی چنگھاڑتی سر خیاں ہم قارئین کی ضرورت ہیں اور رپورٹر نہایت فرض شناسی سے ہماری یہ ضرورت پوری کر دیتاہے۔سو‘اس غریب سے خفا نہ ہوں۔اسے نوٹ بک اور پنسل اٹھائے رات کی تاریکی میں سنسنی کی تلاش میں گلی کوچوں میں نکل جانے دیں۔میری دعائیں اس کے ساتھ ہیں۔

Browse More Urdu Adab