Bari Umar Ki Aurat Se Shadi Karna - Article No. 2668

Bari Umar Ki Aurat Se Shadi Karna

بڑی عمر کی عورت سے شادی کرنا - تحریر نمبر 2668

مجھے بڑی عمر کی عورت سے شادی کرنے پر کوئی اعتراض نہیں بس شادی کرنے پر اعتراض ہے

یونس بٹ منگل 12 مارچ 2024

ڈاکٹر محمد یونس بٹ
عورت اس لئے شادی کرتی ہے کہ تعریف کرنے کے لئے ایک بندہ مل جائے اور مرد اس لئے شادی کرتا ہے کہ تعریف کیے بغیر عورت مل جائے۔ویسے گھر کو جنت بنانے کے لئے شادی ضروری ہے۔”ف“ کہتا ہے یہ ٹھیک ہے کیونکہ مرنے کے بعد ہی جنت مل سکتی ہے۔
میرے خیال میں تو کنوارہ احمق ہوتا ہے۔
لیکن ”ف“ کہتا ہے ”کنوارہ احمق ہوتا ہے مگر اسے اپنے احمق ہونے کا پتا تب چلتا ہے جب وہ شادی کرتا ہے۔“دیکھا جائے تو شادی کا اس سے بڑا اعزاز اور کیا ہو گا کہ صرف اسی صورت میں انسان خدا بن سکتا ہے۔اسے شاید مجازی خدا کہتے ہی اس لئے ہیں کہ وہ بھی خدا کی طرح سنتا تو سب ہے بلکہ ہر وقت سنتا ہے لیکن بولتا نہیں۔پہلے میرا بھی یہی خیال تھا کہ ہر عورت شادی کرے مگر کوئی مرد شادی نہ کرے۔

(جاری ہے)

لیکن اب میں کہتا ہوں کہ ہر مرد کو بڑی عمر کی عورت سے شادی کرنا چاہیے۔جو ”ف“ کے خیال میں شادی نہ کرنے کی ایک صورت ہے۔کیونکہ آپ جس عورت سے بھی کہیں گے کہ میں بڑی عمر کی عورت سے شادی کرنا چاہتا ہوں‘وہ کہے گی ”اس کا مطلب‘آپ میرے ساتھ شادی نہیں کرنا چاہتے“ پھر بڑی عمر کی عورت سے شادی کرنا محکمہ آثار قدیمہ کے ملازمین کے لئے تو ٹھیک ہے کہ جوں جوں چیز پرانی ہوتی جاتی ہے‘اس میں ان کی دلچسپی بڑھتی جاتی ہے۔
مگر شاید وہ نہیں جانتا کہ نیا نو دن اور پرانا سو دن۔بڑی عمر کی عورت کو آپ خیال میں ہی رکھیں تو وہ آپ کا خیال رکھے گی۔یوں بھی جب عورت کی کشش اور جسمانی خوبصورتی کم ہوتی ہے تو وہ سینکڑوں طریقوں سے زندگی کو پرکشش اور خوبصورت بنا دیتی ہے۔
بڑی عمر کی عورت سے شادی کر کے آپ حضرت آدم علیہ السلام کی طرح دنیا کے ان خوش نصیب خاوندوں میں سے ایک ہوں گے جن کی ساس نہیں ہوتی۔
ورنہ جب تک سانس تب تک ساس!پھر آپ کو بیوی کا حکم مانتے ہوئے شرم بھی نہیں آئے گی‘کیونکہ حکم ہے‘بڑوں کی حکم عدولی نہ کرو۔وہ صبح جلدی اٹھے گی کہ کہیں آپ اٹھ کر اسے میک اپ کے بغیر نہ دیکھ لیں‘سو آپ آرام سے اٹھیں۔وہ اگر آپ کا مقابلہ کرے گی بھی تو سابقہ شوہر سے ‘جب کہ چھوٹی عمر کی بیوی تو آئندہ شوہر سے کرے گی۔پھر اس شادی سے ”اور کچھ“ ہو نہ ہو ثواب ضرور ہو گا۔

لڑکے بالے جب جوانی میں بے قابو ہو جاتے ہیں تو بڑے بوڑھوں کے پاس ان کا یہی علاج رہ جاتا ہے کہ ان کی شادی کر دی جائے۔گویا ہمارے ہاں شادی علاج جوانی ہے اور علاج ہمیشہ کسی مستند اور تجربہ کار سے کروانا چاہیے۔ہمارے معاشرے میں لڑکی کے پیدا ہوتے ہی اس کی یوں تربیت کی جاتی ہے کہ جتنی اس کی عمر ہوتی ہے‘اتنی ہی اس کی شادی کی ٹریننگ کی مدت ہوتی ہے۔
یوں بڑی عمر کی عورت سے شادی کرنا خود کو محفوظ ہاتھوں میں دینا ہے۔اگر بڑی عمر کی عورت کا یہ پتہ نہیں ہوتا کہ وہ کہاں سے آ رہی ہے تو چھوٹی عمر کی بیوی کا یہ پتہ نہیں ہوتا کہ کہاں جا رہی ہے؟
عورت بذات خود گھر ہوتی ہے‘جب آنکھیں کھولتی ہے تو اس گھر میں داخل ہونے کا راستہ بن جاتا ہے۔”ف“ کہتا ہے”ہاں!بیوی گھر ہے اور خاوند اس کا دروازہ جو اندر آنے والوں کو روکتا ہے۔

دنیا کی وہ عورت جسے آپ ساری زندگی متاثر نہیں کر سکتے‘وہ بیوی ہے اور وہ عورت جسے آپ چند منٹوں میں متاثر کر سکتے ہیں وہ بھی بیوی ہے مگر دوسرے کی۔بیوی کی خوبیاں تلاش کرنا ایسے ہی ہے جیسے اپنی خامیاں تلاش کرنا۔
اگرچہ بیوی پر عمر کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔سترہ سال کی بیوی بھی ستر سال کی بیوی کی طرح ہوتی ہے یعنی اتنی ہی بور۔بقول ”ف“ سترہ سال کی بیوی قابل غور ہوتی ہے اور ستر سال کی قابل گور۔
پھر بھی چالیس سال کی لڑکی تیس سال کی عورت سے بدرجہا بہتر ہوتی ہے۔لیکن میرا خیال ہے کہ دنیا میں صرف ایک ہی عورت ہوتی ہے جو آپ کی گھر والی ہے باقی سب لڑکیاں ہوتی ہیں‘چاہے وہ کسی بھی عمر کی ہوں۔عورت کو تیس سال کے بعد جا کر کہیں نظر آتا ہے‘اس سے پہلے تو وہ صرف نظر آتی ہے۔ادھیڑ عمر میں جا کر اسے پتہ چلتا ہے کیا کہنا چاہیے‘کیا نہیں کہنا یہ پھر بھی پتہ نہیں چلتا۔
”ف“ کہتا ہے ”بیوی کی تلاش میں نکلو تو ہمیشہ کان استعمال کرو‘کیونکہ بیوی دنیا کی وہ عورت ہوتی ہے جسے آپ اتنا دیکھتے نہیں جتنا سنتے ہیں۔“
بندہ اس لئے شادی کرتا ہے کہ سکون سے رہے۔جو شادی نہیں کرتے وہ بھی اسی لئے نہیں کرتے۔شادی وہ عمل ہے جس میں دو مل کر اس طرح رہتے ہیں کہ ایک دوسرے کو رہنے نہیں دیتے۔ویسے شاعروں کو ضرور شادی کرنا چاہیے‘اگر بیوی اچھی مل گئی تو زندگی اچھی ہو جائے گی اور بیوی اچھی نہ ملی تو شاعری اچھی ہو جائے گی۔

خاوند کو ہر کام اپنی مرضی سے کرنا چاہیے مگر شادی ہمیشہ بیوی کی مرضی سے کرنی چاہیے۔”ف“ نے ایسا ہی کیا۔اس کی بیوی کہتی ہے”میں نے موصوف سے اس لئے شادی کی کہ اس میں وہ خوبی تھی جو دنیا کے کسی اور مرد میں نہ تھی“ ٹھیک کہتی ہے وہ خوبی یہ تھی کہ ”ف“ اس سے شادی کے لئے تیار تھا۔
شادی بچوں کا کھیل نہیں‘بڑوں کا ہے۔اکثر خاوند بے وقوف ہوتے ہیں جس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ اکثر بے وقوف ہی خاوند ہوتے ہیں۔
لیکن جب سب بے وقوفیاں کر رہے ہوں‘وہاں نہ کرنا بھی بے وقوفی ہے۔شادی ضرور کریں اور بڑی عمر کی عورت سے کریں یا تو وہ گھر کو جنت بنا دے گی یا آپ کو جنتی۔اگر آپ کچھ دن اچھے بسر کرنا چاہتے ہیں تو شادی کر لیں اور اگر سارے دن اچھے بسر کرنا چاہتے ہیں تو نہ کریں۔
بیوی سے بحث میں ہارنے سے زیادہ بے عزتی والی بات ہے اس سے بحث میں جیتنا۔وہ خاوند کو تکلیف اور مصیبت میں نہیں دیکھ سکتی‘اس لئے وہ اس کے رنڈوا ہونے کی دعا نہیں مانگے گی‘اپنا بیوہ ہونا قبول کر لے گی۔
ویسے اگر عورت اپنے مرد سے بھی اسی اخلاق سے پیش آئے جس سے وہ اجنبی مردوں سے ملتی ہے تو اسے کبھی طلاق نہ ہو۔خاوند بھی اگر اسے دن میں ایک بار ایسے دیکھ لے جیسے ہمسائی کو دیکھتا ہے تو اس کی خوشگوار ازدواجی زندگی کی ضمانت میں دے سکتا ہوں۔
سنا ہے شادی شدہ مردوں کی عمریں لمبی ہوتی ہیں۔جس کی واحد وجہ یہ ہے کہ انہیں بیوی کے ساتھ گزارا وقت لمبا لگتا ہے۔
لیکن ”ف“ کہتا ہے”بیوی کے ساتھ تو وقت اس قدر تیزی سے گزرتا ہے کہ مجھے پتہ ہی نہیں چلا اور مجھے تیس کے بعد اکتالیسواں سال لگ گیا۔“
اس کے نزدیک شادی کرنا بے وقوفی اور جتنی بڑی عمر کی عورت سے شادی کی جائے یہ بے وقوفی اتنی ہی بڑی ہوتی ہے۔اگر اس کا دل رکھنے کے لئے یہ مان بھی لیا جائے تو پھر بھی یہ بے وقوفی مرد کی نہیں۔بڑی عمر کی عورت سے شادی کرنے کا کوئی بھی روشن پہلو نہ ہو پھر بھی اس سے پہلو تو روشن ہو ہی جاتا ہے۔

میرا دوست کہتا ہے”بیوی کسی کی سگی نہیں ہوتی“ ٹھیک کہتا ہے اس کی اپنی سگی بیوی نہیں۔ویسے یہ حقیقت ہے کہ عورت مرد کو آزاد نہیں دیکھنا چاہتی‘وہ مرد کو بند رکھنا چاہتی ہے وہ اس کا پیٹ ہو یا گھر۔مرد جب گھر سے نکلتا ہے تو اسے بچے کی بجائے جوان کہتے ہیں۔البتہ جب نکالا جاتا ہے تب اس کے بچوں کو جوان کہتے ہیں۔
اگر آپ کسی کو شادی نہ کرنے کے بارے میں قائل کرنا چاہتے ہیں تو اس کا ایک طریقہ یہ ہے کہ اس کی شادی کر دیں اور تو اور ”ف“ نے بھی دوسری شادی کے بعد توبہ کر لی کہ اب ساری زندگی دوسری شادی نہیں کروں گا۔
اب وہ کہنے لگا ہے ”مجھے بڑی عمر کی عورت سے شادی کرنے پر کوئی اعتراض نہیں بس شادی کرنے پر اعتراض ہے۔“سارا دن مجھے یہ کہہ کہہ کر بے سکون کرتا رہتا ہے کہ شادی نہ ہوتی تو کتنا سکون ہوتا!اب تو میں بھی اس کی باتوں سے قائل ہو گیا ہوں کہ اگر اس کے والد کی شادی نہ ہوتی تو کتنا سکون ہوتا۔

Browse More Urdu Adab