Dewane Ko Maat Chero - Article No. 2469

Dewane Ko Maat Chero

دیوانے کو مت چھیڑو - تحریر نمبر 2469

ہمارے دوست ملک محمد سلیم کچھ عرصے پہلے تک ٹھیک ٹھاک تھے اب جو ملاقات ہوئی تو معلوم ہواکہ آپ ملک محمد سلیم دیوانہ بن چکے ہیں۔

بدھ 16 اکتوبر 2019

 اعتبار ساجد
ہمارے دوست ملک محمد سلیم کچھ عرصے پہلے تک ٹھیک ٹھاک تھے اب جو ملاقات ہوئی تو معلوم ہواکہ آپ ملک محمد سلیم دیوانہ بن چکے ہیں۔آپ سبزی منڈی کے آڑھتیوں میں ایک منفرد مقام رکھتے تھے۔اب شاعروں کے حلقے میں اپنا مقام بنانے بلکہ جگہ گھیرنے کے چکر میں ہیں۔آلو پیاز بیچنے والوں کی رفاقت ترک کرکے آپ نے ادیبوں شاعروں اور اخبارات کے ادبی ایڈیشنوں کے انچارج صاحبان سے ربط ضبط بڑھالیا ہے اور اروی،بھنڈی اور کدو کا مول تول کرنے کی بجائے نثری نظمیں لکھنے لگے ہیں۔
دو چار ادبی حلقوں میں اپنی نظمیں پڑھ کر،اور چند اخبارات میں تصویر کے ساتھ اپنی نظمیں چھپواکر آپ نے دادی ادب میں اپنی آمد کا اعلان کردیا ہے اور آج کل اپنی نثری نظمیں کا مجموعہ ترتیب دے رہے ہیں۔

(جاری ہے)


ہم نے پوچھا۔ ”اس کا نام کیا ہوگا۔؟“
کہنے لگے۔”زردجسامت کا نیلا بدن۔“
یہ عنوان سن کر ہم پھڑک اٹھے پوچھا․․․․کتاب کا نام تو ماشاء اللہ بڑا جدید ہے مگر اپنے نام پر بھی آپ نے غور فرمایا۔


پوچھنے لگے۔”کیوں جناب نام کو کیا ہوا ہم نے ڈرتے ڈرتے کہا۔ذراروایت ساہے دقیانوسی ہے۔آج سے سوپچاس برس پہلے کے شاعروں کی یاددلاتاہے۔“
کہنے لگے”جناب․․․․داددیجئے میرے تخیل اور میری شرافت کی۔اتنی جدید شاعری کرنے کے باوجود میں نے روایت سے اپنا رشتہ نہیں توڑا نام وہی پرانے شاعروں جیسا رکھا۔البتہ فکر آزاد ہے نظموں میں
 جدید عصری شعور کی گاڑھی آمیزش سے عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کرکے حال کے تناظر میں لکھتا ہوں۔

ہم نے حیرت سے ان کا چہرہ دیکھا خاصا سنجیدہ تھا بالآخر ہمیں کہنا پڑا۔“
”ملک صاحب !پہلے تو آپ ایسی ثقیل گفتگو نہیں فرماتے تھے۔؟“
ملک صاحب بھی سچے ہیں بجا فرماتے ہیں آگہی کے لیے دیوانگی پہلی شرط ہے جس کا ثبوت وہ آج کل نثری نظموں کی شکل میں دے رہے ہیں ۔اب یہ بحث پرانی ہو چکی ہے۔نثری نظم اصل میں نظم کہلانے کی مستحق ہے بھی کہ نہیں ہے۔
ہم اس جھنجھٹ میں نہیں پڑتے ہمیں یار کی یاری سے غرض ہے اس کی نثری نظموں یا اس کے دیگر اعمال سے ہمارا کوئی واسط نہیں ۔البتہ اس بات کی خوشی ہے کہ آلو ،بھنڈی ،بینگن اور توری کے درمیان بلکہ بوریوں کے درمیان ایک شاعر پیدا ہوا۔شاعر کی یہ پیدائش ادب کے لیے نیک فال ہے۔سبزی منڈی کے حق میں کیسی ہے اس کا فیصلہ تو ان کے دوست آڑھتی حضرات ہی کریں گے ہم تو یہ جانتے ہیں کہ ہمارے ملک صاحب نے اب کوچہ دیوانگی میں قدم رکھ دیاہے۔
وہ دن دور نہیں جب ان کی تواضع ٹماٹروں آلوؤں سے ہوگی۔
جہاں سے گزریں گے خیر مقدم اور پذیرائی کے لئے لوگ ٹماٹر،آلو ،پیاز اور بینگن نچھاور کریں گے اس طرح ایک توبن مانگے سبزیوں کا ڈھیر ہاتھ لگے گا۔دوئم شہرت الگ ہو گی۔انصاف کی نظر سے دیکھا جائے تو ملک محمد سلیم دیوانہ خوش نصیب نثری شاعر ہیں ورنہ تو آج کل لوگ اتنے کنجوس ہو چکے ہیں کہ نثری شاعروں کو د اددینا تو کجا انڈوں اور ٹماٹروں سے بھی تواضع نہیں کرتے۔
کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ایسے شاعروں پر گندے انڈے ضائع کرنے کی بجائے ان کا بہترین استعمال بیکریوں میں انہیں فروخت کر دینا ہے تاکہ وہ کیک وغیرہ بنانے کے کام آسکیں۔
ہم ملک صاحب کی دیوانگی کو خوش آمدید کہتے ہیں اور ان کے لواحقین اور متاثرین سے التماس کرتے ہیں کہ انہیں یکسوئی کے ساتھ نثری نظم کی جی بھرکے خدمت کرنے دی جائے تاکہ اردو ادب ان کی نگار شات عالیہ سے محروم نہ رہ جائے۔ویسے بھی ملک صاحب اب محض ملک صاحب نہیں رہے۔دیوانہ بن چکے ہیں اور دیوانوں کو چھیڑنا قہر الٰہی کو اللکار نے کے مترادف ہے۔اسی موقع کے لیے شاعر نے انتباہ کیاہے۔
دیوانہ ہے دیوانہ
دیوانے کو مت چھیڑو!

Browse More Urdu Adab