Hor Ki Haal Ee? - Article No. 2472

Hor Ki Haal Ee?

ہور کی حال اے؟ - تحریر نمبر 2472

ہمیں ایک بے حد ضروری کال کرنی تھی۔اس پوری سڑک پر جتنے پبلک آفس تھے۔سب میں بھیڑ جمع تھی۔ایک صاحب ریسیوررکھتے تو دوسرا لپک کر اٹھالیتا۔ایک کی بات ابھی ختم ہوتی کہ دوسرا ڈائل گھمانے لگتا۔

پیر 21 اکتوبر 2019

 اعتبار ساجد
ہمیں ایک بے حد ضروری کال کرنی تھی۔اس پوری سڑک پر جتنے پبلک آفس تھے۔سب میں بھیڑ جمع تھی۔ایک صاحب ریسیوررکھتے تو دوسرا لپک کر اٹھالیتا۔ایک کی بات ابھی ختم ہوتی کہ دوسرا ڈائل گھمانے لگتا۔ہم کسی ایسے پبلک کال آفس کی تلاش میں تھے۔جہاں بھیڑ کم ہو تاکہ ہم فون کرکے اپنے کرم فرما کو مطلع کرسکیں کہ ہم نے چند مصروفیات کی بناء پر اپنا ٹکٹ کینسل کروادیا ہے۔
لہٰذا وہ ہمارا انتظار نہ کریں اور فوراً ائیر پورٹ چلے جائیں ۔کیونکہ لاہور کی فلائٹ روانہ ہونے ہی والی ہے۔
آخر ایک فون بوتھ ہمیں نظر آگیا۔یہاں بھیڑنہیں تھی ۔صرف ایک صاحب ریسیور تھامے کھڑے تھے ۔مگر خاموش تھے۔جب تین منٹ بیت گئے اور وہ ایک لفظ نہیں بولے تو ہمیں تشویش ہوئی ۔ہم نے گھڑی دیکھی بے چینی سے پہلوبدلا۔

(جاری ہے)

انہوں نے ہاتھ کے اشارے سے ہمیں انتظار کرنے کو کہا۔


ہم نے پھر گھڑی دیکھی۔مزید ایک منٹ بیت گیا۔اب تک وہ”صُمٌ بُکمٌ“بنے کھڑے تھے۔اب ہم جھنجھلاگئے۔ہم نے کہا۔”بھئی یا تو آپ بات کریں یا ریسیور چھوڑ دیں،ہمیں ایک بہت ہی ارجنٹ کال کرنی ہے۔“
ان صاحب نے نتھنے پھلا کر ہمیں دیکھا۔بولے ۔میں کیا کروں جی ،ادھر والوں نے ہولڈ کرارکھا ہے۔
مزیدایک منٹ اور بیت گیا ہم نے ان کی طر ف دیکھا۔انہوں نے ریسیور کو گھور کر دیکھا۔
ہم جھنجلاتے ہوئے بوتھ سے باہر نکل آئے۔سڑک کے پارپی سی اوکابورڈ نظر آرہا تھا۔ہم ٹریفک کے ہجوم میں راستہ بناتے،بچتے بچاتے وہاں پہنچے وہاں ایک صاحب فون پر بات کررہے تھے۔دوسرے صاحب کان کھجارہے تھے۔غالباً اپنی باری آنے کے منتظر تھے۔
”ہور کی حال ہے۔‘فون والے صاحب ریسیور سے مخاطب تھے۔“میں نے تو یار شیورلیٹ بیچ ہی دی ہے۔پٹرول بڑا کھانے لگی تھی۔
تمہاری فیٹ کیسی چل رہی ہے۔“
میں نے گھڑی دیکھی۔کان کھجانے والے صاحب نے بیزاری سے فون والے صاحب کی طرف دیکھا۔
فون والے صاحب کہہ رہے تھے ۔”یار،اس فضول موسم میں شلوار قمیض ہی ٹھیک رہتی ہے۔میں نے توابھی کل ہی تین جوڑے بنوائے ہیں،کلر؟ایک کا گلابی ہے ۔دوسرے کا آف وائٹ تیسرے کا ڈراک بلیو۔اس کے ساتھ دوواسکٹیں لی ہیں۔ایک تو خداتمہارا بھلا کرے کونڈی والی وہی․․․․․جو تمہیں دکھائی تھی دکان میں․․․․اور دوسری واسکٹ۔
کچھ اس کے اندر سنہری سنہری سے دھاگے ہیں۔“
ہماراجی چاہا کہ ریسیوران کے ہاتھ سے چھین لیں،لیکن صرف گھڑی دیکھ کر رہ گئے کان کھجانے والے صاحب دوسرے فون کی طرف لپکے،جوابھی ابھی خالی ہوا تھا۔انہوں نے پھرتی سے نمبر گھمائے اور لائن ملنے پر بڑی معقول بات چیت شروع کی۔”اصل میں آپ کو یہ بتانا تھاکہ فیصلہ تو ہو گیا مگر مکان کا قبضہ ابھی ہم نہیں لے سکتے۔
اب آپ کاکیا مشورہ ہے۔“
ادھر سے ایک طول طویل مشورہ ارسال ہونا شروع ہوا۔یہ صاحب بیچ بیچ میں ٹھیک ہے جی!ٹھیک ہے ،بالکل ٹھیک ،بالکل درست ،آل رائٹ ،اوکے کرتے گئے۔جس پھرتی اور تیزی سے وہ بول رہے تھے۔وہ بڑی حوصلہ کن تھی ہم ان کے پیچھے جا کھڑے ہوئے تاکہ فون فارغ ہوتے ہی اپنا مطلوبہ نمبر ڈائل کریں۔
مگر یہ محض ہماری خام خیالی اور خوش فہمی تھی۔
بے شک مشورہ لینے والے صاحب نے کم وقت میں کم الفاظ کی پالیسی اپنائی تھی ،مگر فون کے دوسرے سرے پر جو صاحب موجود تھے،وہ غالباً اپنے بستر پر دراز تھے۔اور اپنے کام دھندوں سے فارغ ہو کر اطمینان سے بیٹھے تھے لہٰذا مشورہ دینے میں بڑی فراخدلی اور فیاضی کا ثبوت دے رہے تھے۔
ادھر سے مایوس ہو کر ہم پھرپہلے والے صاحب کے پاس پہنچے۔وہ بڑی خوش دلی سے ٹانگوں کی قینچی
 بنائے ،کاؤنٹر سے ٹیک لگائے کھڑے تھے اور کہہ رہے تھے۔
”نہیں یار ،یہ کوئی ایسامشکل کام نہیں ،تم ایک گھنٹے تک میرے پاس آجاؤ ،پھر اکٹھے ان کی طرف جا کر بات کرلیں گے،اور بات بھی کیا کرنی ہے ،صرف یہی کہنا کہ یہ پرانی پینٹیں ہیں انہیں تراش خراش کے ذرا ٹھیک کر دیں۔پیسے بھی وہ میرا خیال ہے زیادہ نہیں لے گا۔میری وہ والی پینٹ یاد ہے نا تم کو وہ نیلی والی،جس کے پیچھے استری کا نشان پڑ گیا تھا۔لوجی وہ بد بخت پینٹ ہم نے کباڑ خانے میں ڈال دی تھی۔
لیکن جب ٹھیک کروائی تو یقین کرنا خدا کی قسمیں کھا کر کہتا ہوں۔ایسی زبردست فٹ آئی ہے کہ ساری پینٹیں ماند پڑگئی ہیں ۔تو پھر آرہے ہوگھنٹے بعد․․․․․․؟“
ہم نے ذرا تلخ لہجے میں ،ہوں، کی آواز نکالی اور پھر اس کی تلخی کم کرنے کے لئے کھنکھار کے انہیں متوجہ کیا اور گھڑی دیکھی۔اب انہیں نے نظر اٹھا کر ہماری طرف دیکھا ۔پھر بیزاری سے بولے۔
”اچھا یار پھر بات کریں گے ۔تم ایک گھنٹے تک ہماری طرف پہنچو۔“یہ کہہ کر انہوں نے قدرے توقف کیا پھر بولے۔”ہور کی حال ہے۔“
یہ کہ کر طوہاً وکر ہاًریسیور کر یڈل میں رکھنے لگے۔لیکن ہم نے آگے بڑھ کر اچک لیا۔جلدی جلدی نمبر ڈائل کیا۔گھنٹی بجتے ہی جب ادھر سے ریسیوراٹھایا گیا تو ہم نے علیک سلیک اور تمہید کے بغیر بوکھلاے ہوئے لہجے میں کہا۔
”بھائی انہیں بتادیں کہ فوراً ائیر پورٹ چلے جائیں۔میں ان کے ساتھ لاہور نہیں جا سکوں گا۔“
ادھر سے آواز آئی۔”پیغام کا شکریہ ۔اب دو منٹ رہ گئے ہیں اور اتنی جلدی ہیلی کاپٹر سے بھی میں ائیر پورٹ نہیں پہنچ سکتے۔لہٰذافون بند کریں تاکہ میں اپنی ٹکٹ کینسل کرواؤں۔“
نہ چاہتے ہوئے بھی بے اختیار میرے منہ سے نکل گیا۔”آئی ایم ویری سوری ۔ہور کی حال اے․․․․․؟“

Browse More Urdu Adab