Munne Mian No 1 - Article No. 2484

Munne Mian No 1

منے میاں نمبر ون - تحریر نمبر 2484

منے میاں کے سوالوں سے ہم بہت تنگ ہیں۔خیر سے وہ ابھی چار پانچ برس کے ہیں۔لیکن انہیں یہ فکر پڑ گئی ہے کہ انکل یہ ہارس ٹریڈنگ کیا ہوتی ہے؟

پیر 11 نومبر 2019

 اعتبار ساجد
منے میاں کے سوالوں سے ہم بہت تنگ ہیں۔خیر سے وہ ابھی چار پانچ برس کے ہیں۔لیکن انہیں یہ فکر پڑ گئی ہے کہ انکل یہ ہارس ٹریڈنگ کیا ہوتی ہے؟
ہم نے الٹا انہی سے پوچھ لیا۔”ہارس معنی؟“
جھٹ بولے۔”گھوڑا۔“
ہم نے کہا۔”شاباش ۔اور ٹریڈنگ کیا ہوتی ہے۔“
اس پر منے میاں سٹپٹا گئے ۔انگریزی کا جو قاعدہ پڑھ رہے ہیں، سر دست اس میں ہارس آیا ہے ٹریڈنگ ابھی نہیں آئی۔
لہٰذا ان کا پریشان ہونا بالکل فطری تھا۔لیکن وہ ذہین سیاست دانوں کی طرح کسی سوال کے جواب میں یہ نہیں کہتے۔”مجھے معلوم نہیں“بس ایک سوالیہ سی چپ سادہ کر ہماری طرف دیکھتے ہیں یا دیواروں کی طرف۔
ہم نے انہیں ٹریڈنگ کے علاوہ احتیاطاً ٹریڈ مارک بھی ان چیزوں کا دیا تاکہ بچے کی معلومات میں اضافہ ہو اور زندگی میں آگے جا کر جب کبھی ان چیزوں سے اس کا واسطہ پڑے تو اسے شرمندہ نہ ہونا پڑے۔

(جاری ہے)


ہمیں بچپن سے اب تک کسی نے یہ نہیں بتایا تھا کہ ہارس ٹریڈنگ کیا ہوتی ہے۔یہ تو اخبارات کی مہر بانی سے ہمارے ذخیرہ الفاظ میں اضافہ ہوا۔اسی لئے ہم روز اخبار پڑھتے ہیں۔کیونکہ ہمیں معلوم ہے کہ تھوڑی دیر بعد منے میاں آجائیں گے اور آتے ہی ہم سے پوچھیں گے۔
”انکل یہ فلور کراسنگ کیا چیز ہے۔“
منے میاں ہمارے پڑوسی ہیں اور اس نو خیز نسل کی کونپل ہیں جسے آگے چل کر پھول بننا ہے۔
پتہ نہیں
 گوبھی یا گلاب کا پھول۔البتہ آثاربتاتے ہیں کہ مستقبل قریب میں ان کے عینک لگ جائے گی اور بال بڑھائے،سگریٹ پھونکتے ہوئے وہ چٹکی بجا کر گل جھاڑتے ہوئے کہا کریں گے ۔”بائی دی وے انکل“ہمارے ہاں سنسر اتنا نیرومائنیڈڈکیوں ہے۔ہم سنسر کی قید سے آزاد فلمیں کیوں نہیں بناتے۔ماشاء اللہ ہمارے ہاں کسی چیزکی کمی نہیں۔بدرمنیر ہے۔
مسرت شاہین ہے۔امان اللہ ہے۔شبانہ شیخ ہے۔منزہ شیخ ہے۔سنیتا جان ہے۔اتنا سہم سہم کر ،بچے بچے کی ،مرغی چوزوں کی طرح دائیں بائیں دیکھ کر فلمیں بنانے کی کیا ضرورت ہے۔آجاؤ کلیئرکٹ میدان میں۔“
ایک دن منے میاں نے ہم سے پوچھا۔”انکل!یہ بچے کہاں سے آتے ہیں؟ہم فوراً محتاط ہو گئے۔”ان کا سوال انہی کو لوٹا دیا۔”تم بتاؤ تمہاری اطلاعات کیا ہیں؟“
کہنے لگے۔
”ابو نے بتایا تھاکہ فرشتے گھرمیں ننھے بچوں کو چھوڑ جاتے ہیں۔امی کہتی ہیں،غلط ہے۔بچے تو ڈاکٹر کے کلینک یا ہسپتال میں ہوتے ہیں ۔اب آپ بتائیں۔“
ہم نے کہا۔”دیکھومنے۔یہ وقت تمہارے پڑھنے کا ہے۔انگلش ریڈرکھولو،اور کل والا سبق ہمیں سناؤ۔“
منے میاں فوراً آمادہ ہو گئے۔مگر ایک شرط عائد کر دی۔بولے۔”پہلے آپ بچوں والا مسئلہ حل کریں۔

ہم نے کہا”دیکھو بچے اللہ دیتاہے۔ اور اللہ کے کاموں میں کوئی مداخلت نہیں کر سکتا۔سمجھے۔بس اب جاؤ اور انگلش ریڈر لے کر آؤ۔ورنہ اللہ ناراض ہو جائے گا جاؤ شاباش۔“
منے میاں چلے تو گئے۔مگر بادل نخواستہ ہم کوئی موزوں جواب سوچتے رہے،مگر وہ سارا دن لوٹ کر نہیں آئے۔اگلے دن آئے تو خاصے روٹھے ہوئے تھے۔ہم نے سبب پوچھاتوتنگ کر بلوے۔
”جائیے ہم آپ سے نہیں بولتے۔آپ ہمیں ٹر خاتے ہیں ۔دایہ مائی پھاتاں نے ہمیں سب کچھ بتا دیا ہے“ہمیں مائی پھاتاں پر بڑا غصہ آیا جی چاہا اسے بلا کر خوب ڈانٹیں کہ معصوم بچے کا ذہن خراب کررہی ہے۔ابھی سے انہیں فلسفہ پیدائش کے رموز بتا رہی ہے۔اتفاقاً مائی پھاتاں ہمیں راستے میں مل گئی۔ہم نے پہلے
 سے تو اسے خوب ڈانٹ پلائی۔پھر دھمکی دی کہ اگر کسی بچے سے اس نے ایسی اوٹ پٹانگ باتیں کی تومحلے کے معتبرین کی میٹنگ بلا کر آئندہ کے لئے اس محلے کی خواتین کی زچگی وغیرہ کے سلسلے میں اس کی خدمات کا مکمل بائیکاٹ کر دیا جائے گا۔

اس پر وہ گھبرا گئی ۔دوپٹے سے پسینہ پونچھتے ہوئے بولی۔”وے پترا میں غریب جاہل عورت ہوں۔میری روزی پر لات نہ مارنا۔تمہیں اللہ کا واسطہ ۔اصل میں یہ بچہ نہیں مصیبت ہے۔کل سے بار بار مجھے دس روپے کا لالچ دے کر پوچھ رہا ہے۔کہ بچے کیسے اس دنیا میں آتے ہیں۔پہلے تو میں ٹالتی رہی۔پھر مجبوراً دس روپے لے کر تھوڑی بہت معلومات دے دیں۔“
مائی پھاتاں کو ڈانٹ ڈپٹ کر اور آئندہ کے لئے محتاط رہنے کی تنبیہ کرکے ہم پلٹے تو منے میاں کو اپنی بالکنی سے جھانکتے پایا۔
ابھی کمرے میں پہنچ کر ہم نے بیٹھنے اور لیٹنے کا ارادہ کیا ہی تھاکہ منے میاں آدھمکے۔خاصے مشکوک تھے۔بولے۔”کیا باتیں کررہے تھے آپ مائی پھاتاں سے۔“
ہم نے کہا۔”خیر وعافیت پوچھ رہے تھے۔“
وہ ہمارے قریب آکر دھیمی آواز میں بڑی راز داری سے بولے۔”عورتوں سے باتیں نہ کیا کریں،انکل ،ورنہ لوگ غلط مطلب نکالیں گے۔“
ہم نے حیرت سے کہا۔”کیا مطلب ؟“
بولے”امی کہہ رہی تھیں کہ تمہارے انکل شریف آدمی ہیں مگر یہ عورت بڑی مردمار ہے۔چار شوہروں سے طلاق لے چکی ہے۔یہ مرد مار کیا ہوتاہے ،انکل سچ سچ بتائیں ورنہ میں خود مائی پھاتاں سے پوچھ لوں گا۔“

Browse More Urdu Adab