ہرسال 35 لاکھ ٹن سے زیادہ کیلوں کا قیمتی فضلہ جلایا جاتا ہے،ماہرین

پیر 6 نومبر 2023 23:10

حیدرآباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 06 نومبر2023ء) سندھ زرعی یونیورسٹی میں منعقدہ 5 ویں بنانا فیسٹیول سے خطاب کرتے ہوئے زرعی معاشی ماہرین، ترقی پسند کسانوں اور محققین نے کہا ہے کپاس ملک کی ٹیکسٹائل کے خام مال کی ضرورت پوری نہیں کر رہا ، ہمیں اس لئے متبادل ذرائع پر سرمایہ کی ضرورت ہے، ایک صدی سے انڈسٹری کی جانب سے سرمایہ کاری نہ کرنے کی وجہ سے زراعت مطوبہ نتائج نہیں دے رہی جبکہ زراعت ملک کا واحد شعبہ ہے جس کا ریٹ مقرر کرنا زمیندار کے بجائے آرتھی کے ہاتھ میں ہے، سندھ زرعی یونیورسٹی کی زیرمیزبانی اور ایگری ٹورازم ڈویلپمنٹ کارپوریشن، ٹیک سائین، مشال، پی اے آر، ایم ایچ پنھور فارمز، درانی فارمز اور ایف اے او کے تعاون سے 5واں سالانہ بنانا فیسٹول 2023 منعقد کیا گیا، افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سندھ زرعی یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر فتح مری نے کہا ہر سال 35 لاکھ ٹن سے زیادہ کیلوں کا قیمتی فضلہ جلایا جاتا ہے جبکہ اس سے فائبر، کمپوزٹ کھاد، کنفیشنری، کاسمیٹکس سمیت کئی بائی پروڈکٹس بنا سکتے ہیں، انہوں نے تجویز دی کہ کسانوں، صنعتی سیکٹر اور تحقیقی اداروں پر مشتمل بنانا ریسرچ گروپ تشکیل دیا جائے گا جبکہ ہم ورلڈ بنانا فورم کا حصہ بنیں گے، شاہ عبدالطیف یونیورسٹی خیرپورمیرس کے وائس چانسلر ڈاکٹر خلیل احمد ابوپوتو نے کہا کہ سندھ زرعی یونیورسٹی اور دیگر تحقیقی اداروں سے ملکر کیلے، کجھور اور دیگر میواجات کا قوت مدافعت رکھنے والے پودوں کیلئے ٹشو کلچر کی بڑی لیب قائم کریں تو پودوں کی طلب کو پورا کیا جاسکتا ہے، صوفی یونیورسٹی بھٹ شاہ کی وائس چانسلر ڈاکٹر پروین منشی نے کہا کہ یہ کمرشلائزیشن کا زمانہ ہے، زراعت میں ویلیو چین کی بڑی گنجائش موجود ہے، آم کی طرح کیلے کی ویلیو چین اور مارکیٹنگ پر توجہ کی ضرورت ہے، ڈئریکٹر جنرل ایگریکلچر ریسرچ سندھ نور محمد بلوچ نے کہا کہ کیلے کی ورائٹیز اور ٹشو کلچر پودوں کی دستیابی مسئلہ ہے لیکن اس کے باوجود ادارے اپنا کام کر رہے ہیں، کراچی چیمبر آف کامرس کے نائب صدر محمد یونس سومرو نے کہا کہ سندھ کی زراعت آرتی کے ہاتھوں یرغمال ہے، زرعی پیداوار وہ واحد شعبہ ہے جس کے ریٹ مقرر کرنے کا اختیار زمیندار کے ہاتھ نہیں، ٹیکسٹائیل انسٹیٹیوٹ آف پاکستان کے ڈین ڈاکٹر عبدالجبار نے کہا کہ دنیا میں ٹیکسٹائیل انڈسٹری کو مطلوب خام مال کا 20 فیصد کیلے اور دیگر اشیا سے نکلنے والا فائبر مہیا کر رہا ہے جبکہ ہم اپنا قیمتی فضلہ جلا رہے ہیں، فیسٹیول کے دوران کیلے کے حوالے سے بڑی نمائش بھی منعقد کی گئی تھی جبکہ ٹیکنیکل سیشن میں ماہرین نے کیلے ترقی، ویلیو چین، بائی پراڈکٹس اور ایکسپورٹ کے حوالے اپنے مقالے پیش کئے ،اس موقع پر یونیورسٹی آف کراچی، ٹیکسٹائیل انسٹیٹیوٹ آف پاکستان کے طلبہ، مختلف انڈسٹریز، آبادگار تنظیموں، پی اے آر سی، زرعی تحقیق، زرعی توسیع، سافکو، آر ڈی ایف اور دیگر اداروں سے وفود ماہرین، اساتذہ، اورطلبا کی بڑی تعداد شریک ہوئی۔

حیدرآباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں