ملازمین برطرفی معاملہ، پارلیمنٹ نے ایک مخصوص گروہ کو قانون سازی کر کے فائدہ کیوں پہنچایا ،سپریم کورٹ

اگر سپریم کورٹ کسی کو برطرف کر دے تو قانون سازی سے کسی مخصوص فرد کو بحال نہیں کیا جا سکتا، عدالت عظمیٰ عدالت پارلیمنٹ میں ہونے والی بحث منگوا کر جائزہ لے لے، اس عمر میں ملازمین کہاں جائیں گی ، وسیم سجاد

پیر 6 دسمبر 2021 22:01

ملازمین برطرفی معاملہ، پارلیمنٹ نے ایک مخصوص گروہ کو قانون سازی کر کے فائدہ کیوں پہنچایا ،سپریم کورٹ
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 06 دسمبر2021ء) سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ پارلیمنٹ نے ایک مخصوص گروہ کو قانون سازی کر کے فائدہ کیوں پہنچایا ،اگر سپریم کورٹ کسی کو برطرف کر دے تو قانون سازی سے کسی مخصوص فرد کو بحال نہیں کیا جا سکتا۔ پیر کو سپریم کورٹ میں سولہ ہزار برطرف ملازمین کی بحالی کے کیس جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے سماعت کی۔

جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہاکہ کیا سوئی گیس ملازمین ٹیسٹ اور انٹرویو دیکر بھرتی ہوئے تھی ۔ وکیل ملازمین وسیم سجاد نے کہاکہ واک انٹرویوز کے ذریعے بھرتیاں ہوئی تھیں۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ ختم شدہ کنٹریکٹ گیارہ سال بعد کیسے بحال ہوگئی ،جن کے کنٹریکٹ بحال ہوئے انہوں نے کیا کارنامہ انجام دیا تھا ۔

(جاری ہے)

جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ کیا تمام ملازمین دہشتگردی کی کارروائی میں زخمی ہوئے تھی ۔

وسیم سجاد نے کہاکہ پارلیمنٹ کے فیصلے کے تحت ملازمین کو بحال کیا گیا، پارلیمان اس نتیجہ پر پہنچی تھی کہ ملازمین کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ سیاسی انتقام کا نشانہ بنانے کے شواہد کہاں ہیں ،صرف انہی لوگوں کو کیوں بحال کیا گیا یہ سمجھائیں، ملازمت کے اہل تو بہت سے اور بھی ہونگے جنکی جگہ یہ بحال ہوئے۔

وسیم سجاد نے کہاکہ عدالت پارلیمنٹ میں ہونے والی بحث منگوا کر جائزہ لے لے، اس عمر میں ملازمین کہاں جائیں گی ،حکومت نے غلطی کی ہے تو سزا ملازمین کو نہ دی جائے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ کیا تعیناتی کالعدم ہونے کے دس سال بعد پنشن مل سکتی ہی ،ملازمین کی بحالی کا قانون کس طرح آئین کے مطابق ہی ،قانون آئین کے مطابق ہونے پر آپ نے ایک دلیل بھی نہیں دی، عدالت نے سوئی گیس ملازمین کے وکیل وسیم سجاد سے تحریری دلائل مانگ لیے ۔

اعتزاز احسن نے کہاکہ آئی بی افسران سول سرونٹ ہیں ان پر عدالتی فیصلہ لاگو نہیں ہوتا، سال 1996 میں نگران حکومت نے آئی بی ملازمین کو برطرف کیا تھا، نگران حکومت کو ملازمین کی برطرفی کا اختیار نہیں ہے۔ جسٹس عمر عطا ء بندیال نے کہاکہ نگران حکومت والے معاملے پر سپریم کورٹ 2000 میں فیصلہ دے چکی ہے، فیصلے کے 21 سال بعد کسی اور نظرثانی کیس میں مقدمہ دوبارہ نہیں کھول سکتے۔

اعتزاز احسن نے کہاکہ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں ملازمین بحالی کے قانون کی غلط تشریح کی۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ اگر سپریم کورٹ کسی کو برطرف کر دے تو پارلیمنٹ کی قانون سازی سے کسی مخصوص فرد کو بحال نہیں کیا جا سکتا۔و کیل اعتزاز احسن نے کہاکہ سپریم کورٹ کے فیصلے میں ایکٹ کو صحیح سے پرکھا نہیں گیا، ایک عبوری حکومت نے آ کر متعدد ملازمین کو فارغ کیا۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ سپریم کورٹ کا فیصلہ یہ نہیں کہہ رہا کہ ایک جماعت کے بھرتی کیے ملازمین برطرف کیے جائیں،پارلیمنٹ نے لوگوں کے ایک مخصوص گروہ کو قانون سازی کر کے فائدہ کیوں پہنچایا ۔وکیل افتخار گیلانی نے کہاکہ سپریم کورٹ خود کہہ چکی کہ پارلیمنٹ کی قانون سازی کو کالعدم قرار نہیں دے سکتے، قانون سازوں کی بصیرت کو کوئی چیلنج نہیں کر سکتا، سپریم کورٹ اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرے۔بعد ازاں کیس کی مزید سماعت ساڑھے گیارہ بجے تک ملتوی کر دی گئی ۔

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں