شمسی توانائی کو فروغ دینے کےلئے پالیسی میں تبدیلی کی ضرورت ہے، ٹیکنالوجی کی تبدیلی کی وجہ سے شمسی پینل سستے ہو رہے ہیں ، ڈاکٹر عابد، نعیم قریشی اور دیگر مقررین کا خطاب

جمعہ 17 مئی 2024 17:54

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 17 مئی2024ء) ماہرین نے توانائی کی بڑھتی ہوئی طلب کے درمیان شمسی توانائی کو سستے ترین توانائی کے وسائل کے طور پر فروغ دینے کے لئے موجودہ پالیسی میں جامع اصلاحات کا مطالبہ کیا ہے۔پالیسی ادارہ برائے پائیدار ترقی اور انرجی اپ ڈیٹ نے مشترکہ طور پر ”سولر نیٹ میٹرنگنگ ایک معمہ: نیٹ میٹرنگ کو پاکستان میں ابھرتی ہوئی مارکیٹ کی حرکیات کے مطابق ڈھالنا“ کے موضوع پر گول میز مباحثے کا انعقاد کیا۔

اپنے افتتاحی کلمات میں ایس ڈی پی آئی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر عابد قیوم سلہری نے کہا کہ حکومت کی جانب سے سولر پینلز پر ٹیکس نہ لگانے اور نیٹ میٹرنگ فارمولے کو تبدیل کرنے کی بار بار یقین دہانیوں کے باوجود اس مسئلے کا تحقیق پر مبنی حل تلاش کرنا ضروری ہے ۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ توانائی کے شعبے میں پالیسی میں تبدیلی کا منظر نامہ نیا نہیں ہے، ٹیکنالوجی کی تبدیلی کی وجہ سے شمسی پینل سستے ہو رہے ہیں جس سے شمسی توانائی کے نفاذ میں مزید تیزی آئے گی۔

انہوں نے کہا کہ تھنک ٹینک کی ذمہ داری ہے کہ وہ ملک کی ماحولیاتی ذمہ داریوں، قومی سطح پر طے شدہ شراکت (این ڈی سیز) اور کاربن بارڈر ایڈجسٹمنٹ میکانزم (سی بی اے ایم) کو مدنظر رکھتے ہوئے اس فیصلے کے فوائد اور نقصانات پر باخبر بحث کا آغاز کرے جس کے پاکستانی صنعت پر بین الاقوامی، علاقائی اور مقامی اثرات مرتب ہوں گے۔ ایس ڈی پی آئی کے ریسرچ فیلو اور انرجی ایکسپرٹ ڈاکٹر خالد ولید نے ملک میں نیٹ میٹرنگ کے مسئلے پر تبادلہ خیال کیا ۔

سابق چیئرمین نیپرا توصیف فاروقی نے کہا کہ فلڈ گیٹس کھل چکے ہیں اور شمسی توانائی کی ٹیکنالوجی کو کوئی نہیں روک سکتا۔ انہوں نے کہا کہ شمسی توانائی کے استعمال کو محدود کرنے کا دعویٰ کرنا بے وقوفی ہوگا کیونکہ اس سے نیشنل گرڈ کو بھی کوئی فائدہ نہیں ہوگا ۔انہوں نے مزید کہا کہ 12.3 روپے میں سب سے سستی بجلی آسانی سے سسٹم میں شامل کی جاسکتی ہے ۔

انہوں نے تجویز پیش کی کہ حکومت فیڈ ان ٹیرف پالیسی متعارف کرائے جس سے مرکز میں سولر کے بڑے پلانٹس کو شامل کرنے میں مدد ملے گی جس سے سرمائے کی بچت ہوگی اور ریگولیٹری رکاوٹوں سے بچا جاسکے گا۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ معاون خدمات میں بہتری کے ساتھ ساتھ قابل تجدید توانائی کو فروغ دیا جائے۔معین فدا نے کہا کہ بجلی کے شعبے کو اپنے آپریشنز کو چلانے کے لئے دوسری شفٹ میں سبسڈی پر توانائی فراہم کرکے صنعتوں کی مدد کرنی چاہئے۔

توانائی کے ماہر فیاض نے کہا کہ قابل تجدید توانائی (آر ای) کی تقسیم کی پالیسی کو شمسی توانائی کو اپنانے کے ذریعے عوام کو ریلیف فراہم کرنے کے لئے اپنایا گیا تھا۔ ٹرانسفارمر کی 80 فیصد ڈسٹری بیوشن پاور صلاحیت کو ایک فیڈر کے اندر شمسی توانائی سے انجیکٹ کیا جاسکتا ہے لیکن بہت سے علاقوں میں اس اصول پر عمل نہیں کیا جارہا ہے اور یہ عوام یا تجارتی شعبے کی نہیں بلکہ ڈسٹری بیوشن کمپنی کی ذمہ داری ہے۔

آئی جی سی پی توصیف نے کہا کہ بڑھتے ہوئے سولر نیٹ میٹرنگ کے پیش نظر ہمارے انرجی مکس میں بڑی تبدیلی لانے کی ضرورت ہے انہوں نے کہا کہ ہمیں بڑھتی ہوئی نیٹ میٹرنگ کے درمیان قیمتوں کے طریقہ کار کو پچھلی غلطیوں سے بچنے کے لئے تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔انرجی اپ ڈیٹ کے منیجنگ ڈائریکٹر نعیم قریشی نے کہا کہ توانائی کے شعبے میں ملک کے پالیسی اقدامات میں پائیداری اور استحکام کا فقدان ہے جو استحکام کو خطرے میں ڈالتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایک 10 سے 15 سالہ منصوبہ تشکیل دیا جانا چاہئے جو کسی بھی حکومت کی طرف سے تبدیل نہیں کیا جانا چاہئے تاکہ طویل مدتی پیداوار کے لئے اس شعبے میں مستقل ترقی کو یقینی بنایا جاسکے کیونکہ توانائی کے شعبے کے لئے پالیسی کا تسلسل بہت ضروری ہے۔ڈاکٹر عرفان مرزا نے کہا کہ شمسی توانائی کے شعبے سے متعلق حکومتی فیصلے پالیسی سفارشات کے مطابق ہونے چاہئیں۔

توانائی کے ماہر عرفان احمد نے کہا کہ شمسی توانائی کے صارفین ہمارے مستقبل کے بجلی پیدا کرنے والے ہیں جو پالیسی سازوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ان کی مالی اور دیگر ضروریات کا خیال رکھیں۔آر ای ایسوسی ایشن کے چیئرمین نثار نے کہا کہ اس برین سٹورمنگ سیشن سے حاصل ہونے والی آراءاور سفارشات قابل ستائش ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ سولر نیٹ میٹرنگ سسٹم کی اجازت دی جانی چاہئے اس سے حکومت کی صلاحیت میں اضافہ ہوگا۔

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں