پنجاب حکومت گندم سرکاری نرخوں پر خرید رہی ہے ، جھوٹ کا پلندہ ہے

حکمرانوں نے شعبہ زراعت کا دھڑن تختہ کر دیا ، گندم کا سرکاری ریٹ پانچ ہزار مقرر کیا جائے ةکاشتکاروں کے استحصال اور حکومتی رویے کے خلاف کسان بورڈ کے 25اپریل کے احتجاج کی حمایت کرتے ہیں

پیر 22 اپریل 2024 22:54

لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 22 اپریل2024ء) قائمقام امیرجماعت اسلامی پنجاب وسطی نصر اللہ گورائیہ نے حکومت پنجاب کی ترجمان عظمی بخاری کے بیان کہ حکومت کسانوں سے گندم سرکاری نرخوں پر خرید رہی ہے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے اس کو جھوٹ کا پلندہ قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ صوبے بھر میں گندم 2500سے 3000ہزار میں خریدی جا رہی ہے ۔

حکومتی دعوے چور مچائے شور کے مترادف ہیں۔گندم کا سرکاری ریٹ کم از کم پانچ ہزار مقر ر کیا جانا چاہئے ۔پنجاب حکومت کے اقدامات نے شعبہ زراعت کا دھڑن تختہ کر دیا ہے ۔ انہوں نے کسان بورڈ کی جانب سے کاشتکاروں کے استحصال ، گندم کے کم نرخوں اور مہنگے زرعی مداخل کے خلاف 25اپریل کے احتجاج کی حمایت کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت نے کسانوں کو بے یارو مددگار چھوڑ دیا ہے ۔

(جاری ہے)

حکومت کسان دشمن پالیسیوں سے مافیا کو نوازا رہی ہے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے ۔ جماعت اسلامی کاشتکاروں کو تنہا نہیں چھوڑے گی ۔ ہم ان کی آواز کو ہر سطح پر بھرپور انداز میں اٹھائیں گے ۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کسانوں کو درپیش مسائل کے ازالہ کیلئے سنجیدہ نہیں ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ کسانوں کو ٹیل تک نہری پانی کی فراہمی،فصلوں کی پیداوارمیں اضافہ،گنے کے کاشتکاروں کو مقررہ ایام میں رقوم کی ادائیگیوں،کھاد کی بلیک مارکیٹنگ کی روک تھام،بجلی سمیت دیگر مسائل کے حل میں اقدامات کئے جائیں، گندم کے سرکاری نرخ کم از کم پانچ ہزار مقر ر کیا جانا چاہئے تاکہ کاشتکاروں کو کچھ ریلیف مل سکے ۔

ان کا کہنا تھا کہ زراعت ملکی معیشت کے لیے ایک جڑ کی حیثیت رکھتی ہے۔ لیکن پچھلے کئی سالوں سے زرعی شعبے کا حصہ ہماری معیشت میں کم ہوتا جا رہا ہے۔ ملک کی آبادی کا بڑا حصہ زرعی شعبے سے وابستہ ہے اور زراعت ان کے روزگار کا اہم جزو ہے۔ اس وقت شعبہ زراعت کوجو بڑے چیلنجز درپیش ہیں ان میں موسمیاتی تبدیلی، انرجی بحران، جدید سائنسی بنیاد پر کاشتکاری کا نہ ہونا شامل ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کسانوں کو کھاد، بیج، زرعی ادویات، زرعی آلات کی فراہمی میں دی جانے والی سبسڈی حقیقی طور پر کسانوں تک نہیں پہنچتی،کسانوں کو دی جانے والی سبسڈی کا 50 فیصد فائدہ بیورو کریسی اور باقی بچ جانے والی 50 فیصد میں سے بھی 90 فیصد فائدہ جاگیر دار اور وڈیرے اٹھاتے ہیں اور اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر ریلیف چھوٹے کسانوں کو ملتا ہے۔

لاہور میں شائع ہونے والی مزید خبریں