لوگوں کی پگڑی اچھالنا ایک سیاسی جماعت کا وتیرہ بن گیا ہے‘عظمیٰ بخاری

ملک میں ہتک عزت کے نئے قانون کی اشد ضرورت ہے،نیا قانون سوشل میڈیا پر بھی لاگو ہو گا‘وزیر اطلاعات

بدھ 15 مئی 2024 14:27

لوگوں کی پگڑی اچھالنا ایک سیاسی جماعت کا وتیرہ بن گیا ہے‘عظمیٰ بخاری
لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 15 مئی2024ء) وزیر اطلاعات پنجاب عظمیٰ بخاری نے کہا ہے کہ لوگوں کی پگڑی اچھالنا ایک سیاسی جماعت کا وتیرہ بن گیا ہے،ہتک عزت کا نیا قانون لانے پر سب متفق ہیں، ہمارے ہاں ہتک عزت کے نوٹس کی پرواہ نہیں کی جاتی، ہتک عزت کے نئے قانون میں پولیس کا کسی قسم کا کوئی کردار نہیں۔لاہور میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حکومت بہتری لانے کی کوشش کرے تو تنقید برائے تنقید شروع ہوجاتی ہے، لوگوں کی پگڑیاں اچھال کر سستی شہرت حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

یسے میں ہتک عزت کا نیا قانون لانے کی ضرورت ایک حقیقت ہے، لوگوں کی پگڑیاں اچھالنا ہمارے ہاں ایک روایت بن چکی ہے، اسمبلی میں ہتک عزت کا نیا قانون لایاجارہا ہے، کہا جارہا ہے کہ ہتک عزت قانون کالا قانون ہے لیکن ملک میں ہتک عزت کے نئے قانون کی اشد ضرورت ہے،ہتک عزت کا نیا قانون سوشل میڈیا پر بھی لاگو ہو گا۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ بے بنیاد الزامات کا سلسلہ بند ہونا چاہیے ، اس قانون میں جو سب سے اچھی بات ہے وہ یہ ہے کہ کہ جو بھی جج صاحب ہوں گے جس کے اوپر بھی الزام لگے گا اس کو کہیں کہ آپ کے پاس 21دن کی مہلت ہے، 21دن میں اپنی مرضی کی 3تاریخیں لے لیں، اس میں جج تاریخ نہیں دیں گے، اگر وہ شخص تاریخ نہیں بتاتا تو پھر جج خود تاریخ دیں گے کہ اب اس تک آپ کو جواب جمع کروانا ہے۔

عظمیٰ بخاری نے کہا کہ 180دن میں ہتک عزت کے کیس کو مکمل کرنا ہوگا، ہتک عزت کے قانون کا سیاسی مقاصد کے لیے استعمال نہیں کرنا چاہیے، ہتک عزت کا الزام ثابت ہونے پر 30لاکھ روپے کا ہرجانہ ادا کرنا ہوگا، ملزم کی گرفتاری نہیں ہوگی لیکن اس کو ہرجانہ دینا ہوگا۔صوبائی وزیر اطلاعات نے بتایا کہ اگر کسی کو لگے کہ اس کی ہتک 30لاکھ سے زیادہ ہوئی یا اس کی ہتک کی نوعیت زیادہ تھی تو پھر اسے اپنا کیس پیش کرنے کا موقع دیا جائے گا، اس پر تنقید کی جارہی ہے کہ صحافیوں کو عدالت میں زیر سماعت کیسز پر بولنے کی اجازت نہیں تو عدالتی معاملات کے حوالے سے بولنے کی اجازت پوری دنیا میں ہی نہیں ہوتی۔

انہوں نے کہا کہ ہتک عزت قانون کی کسی شق پر اگر کسی کو اعتراض ہے تو اتوار تک تحریری جواب داخل کریں، اس پر ہم گفتگو کریں گے، یہ وزیر اعلی کی ہدایت ہے، لیکن مزے کے لیے کسی کی تضحیک کرنا غلط ہے۔وزیرِ اطلاعات پنجاب نے کہا کہ دنیا میں کہیں بھی عدالتوں میں زیرِ سماعت معاملات پر بات کرنے کی اجازت نہیں، ہتک عزت کے قانون کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال نہیں کرنا چاہتے، متاثرہ شخص ٹربیونل کے ذریعے کیس کر سکے گا، ہائی کورٹ کے ایک جج صاحب کو ٹربیونل کا درجہ دیا جائے گا، ٹربیونل کے جج کو دن میں صرف دو کیس سننے ہوں گے، نئے قانون کے تحت ایک ٹائم فریم میں کیس کا فیصلہ کرنا ہو گا۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے ملک میں شوق کی خاطر بھی دوسروں کی تضحیک کی جاتی ہے، دنیا بھر میں ہتک عزت کے قوانین بہت سخت ہیں، ہتک عزت قانون صرف سیاستدانوں کے لیے نہیں عام شہریوں کے لیے بھی ہے، ہتک عزت قانون پر سب سے مشاورت کے لیے تیار ہیں، اظہارِ رائے کی آڑ میں کسی کی عزت اچھالنے کی اجازت نہیں ہو گی، اتوار تک ہتک عزت قانون کی کسی شق پر اعتراض ہو تو تحریری داخل کریں۔

صوبائی وزیر نے مزید کہا کہ پروفیشنل جرنلسٹس کو اس ایکٹ سے کوئی تکلیف نہیں ہو سکتی، ایسے جرنلسٹس کے لیے پرابلم ہوگی جو گھر بیٹھے خبریں بناتے ہیں، اب یہ نہیں چلے گا کہ میرے کان میں کسی نے پھونکا تھا اور میں نے خبر بنا دی، ملک میں ہتک عزت کے قانون کو موثر بنانے کی ضرورت ہے، سوشل میڈیا سے کوئی بھی نہیں ڈرتا، ہتک عزت کے نئے قانون کے تحت بغیر ثبوت بات کرنے والے کو نوٹس بھیجا جائے گا، ہتک عزت قانون میں گرفتاری نہیں ہو گی۔عظمی بخاری نے کہا کہ میرے والد اور میری بہنوں پر الزام لگائے گئے، ہتک عزت پر پہلا کیس میں لے کر آں گی، اعتراض تو یہ بھی ہے کہ مریم نواز نے یونیفارم کیوں پہن لیا، حکومت چاہتی ہے کہ وزیرِ اعلی کوئی بھی ہو اس کی تضحیک نہ کی جائے۔

لاہور میں شائع ہونے والی مزید خبریں