ادارہ برائے سماجی انصاف نے کانفرنس بعنوان "جمہوری استحکام کا سفر " کا انعقاد

منگل 23 اپریل 2024 20:30

پشاور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 23 اپریل2024ء) ادارہ برائے سماجی انصاف نے کانفرنس بعنوان "جمہوری استحکام کا سفر " کا انعقاد کیا جس میں انسانی حقوق کے محافظین اور سیاسی جماعتوں کے نمائندوں پر زور دیا کہ حکومت کو مذہبی عدم برداشت کو روکنے اور شہریت کے مساوی حقوق کے لیے ٹھوس اقدامات متعارف کرانے کی ضرورت ہے۔کانفرنس کے مقررین میں پیٹر جیکب، ڈاکٹر خادم حسین (عوامی نیشنل پارٹی)، بشپ ارنسٹ جیکب، آسیہ جہانگیر (سابق وزیر سماجی بہبود)، وزیر زادہ (سابق ایم پی اے، پی ٹی آئی)، ڈاکٹر سویرا پرکاش (پاکستان پیپلز پارٹی)، شکیل وحید اللہ ( قومی وطن پارٹی، محمود جان بابر (صحافی)، محمد فہیم (صحافی)، ڈاکٹر ندیم (پی ٹی آئی)، سنیل ملک، آگسٹین جیکب اور ناصر ولیم شامل تھے۔

ادارہ برائے سماجی انصاف کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر پیٹر جیکب نے کہا کہ چند با اثرگروہ نے حکومت کو یر غمال بنا رکھاہے۔

(جاری ہے)

جو بنیادی سماجی، سیاسی، قانونی اور اقتصادی مسائل سے نمٹنے کے لیے اصلاحات متعارف کروانے کی راہ میں رخنہ ڈالتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مذہب کی بنیاد پر امتیازی سلوک اقلیتی گروہوں کے خلاف نفرت اور تشدد کو ہوا دیتا ہے اور انسانی حقوق کی پامالیوں کے ذمہ دار گروہ عموماًمذہب کی غلط تشریح کو جواز کے طور پر پیش کرتے ہیں یا نفرت پر مبنی جرائم کا دفاع کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ تکفیر کے قوانین کے بد استعمال پرانکوائری کمیشن کا قیام ناگزیر ہے تاکہ عوامل کی نشاندہی کی جا سکے اور تشدد کو ہوا دینے والیعناصر کو جوابدہ ٹھہرایا جا سکے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ دستورپاکستان میں قائداعظم محمد علی جناح کا 11 اگست 1947 کو دستور ساز اسمبلی سے پہلا خطاب، شہریوں کی پسماندگی کو دور کرنے،محروم طبقات کی شمولیت کو فعال کرنے ، طرز حکمرانی میں انصاف اور مساوات کے معیارات کو شامل کرنے کے لیے رہنمائی فراہم کرتا ہے جس سے ملک کو صحیح سمت پر ڈالا جا سکتا ہے۔

عوامی نیشنل پارٹی کے نمائندے، ڈاکٹر خادم حسین نے شہریوں کے لیے انسانی حقوق کی مساوات کی راہ میں حائلرکاوٹوں پر روشنی ڈالی جس میں شہریت کی حیثیت میں تفاوت، وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم، ناقص ح طرزکمرانی، دہشت گردی اور مذہبی عدم رواداری شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکمرانی کے ڈھانچے کے اندر موجود امتیازی سلوک مذہبی، نسلی، لسانی اور صنفی شناختوں پر مبنی تفرقہ انگیز رویوں کو برقرار رکھتا ہے۔

بشپ ارنسٹ جیکب نے کہاکہ سیاسی جماعتوں کو انتخابی منشور میں ووٹروں سے کیے گئے اپنے وعدوں کو پورا کرنے کو ترجیح دینی چاہیے، اور مذہبی اقلیتوں کو درپیش انسانی حقوق کے مسائل کو حل کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات کرنا چاہیے۔پاکستان پیپلز پارٹی کی نمائندہ، ڈاکٹر سویرا پرکاش نے کہا کہ شہریوں کو اجتماعی طور پر اقلیتوں کے خلاف انسانی حقوق کی پامالیوں کے خلاف آواز بلند کرنا ہو گی۔

انہوں نے زور دیا کہ ارکان پارلیمان شہریوں کی مختلف فورمز پر مؤثر نمائندگی کرنے کے ذمہ دار ہیں۔ لہذا اٴْنھیں انسانی حقوق کے مسائل کو حل کرنے کے لیے قانون ساز اسمبلیوں اور پارٹی میٹنگز میں فعال کردار ادا کرنا چاہیے۔سابق ایم پی اے، اور پی ٹی آئی کے نمائندے، وزیر زادہ نے ادارہ برائے سماجی انصاف کے مطالبات کی حمایت کا یقین دلایاجن میں کم عمری کی شادی اور جبری تبدیلی مذہب کی روک تھام کے لیے قوانین متعارف کروانا ، قانون سازی کے ذریعے قومی کمیشن برائے حقوق اقلیت کی تشکیل، اور اقلیتی قیدیوں کے لیے مذہبی تعلیم حاصل کرنے پر قید میں کمی کی سہولت کے لیے قواعد میں تبدیلی ، وغیرہ شامل ہیں۔

اٴْنھوں نے کہا کہ اثباتی اقدامات سے اقلیتوں کے انسانی حقوق کے نفاذ میں بہتری آئے گی۔قومی وطن پارٹی کے نمائندے شکیل وحید اللہ نے کہا کہ مذہبی اقلیتیں حقوق اور وقار میں برابر ہیں۔ اٴْنھوں نے تمام شہریوں کے ساتھ بلا امتیاز منصفانہ سلوک اور مواقع کو یقینی بنانے کے لیے سنجیدہ کوششوں کی ضرورت پر زور دیا۔محمد فہیم نے فیصلہ سازی کے عمل میں مسلسل نظر اندازی کو روکنے کے لیے اقلیتوں کو اپنی سیاسی قوت میں اضافہ کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔

انہوں نے سیاسی جماعتوں پر زور دیا کہ وہ اقلیتوں کی مرکزی دھارے میں بہتر شمولیت کے مواقع پیدا کریں، جو ملک میں جمہوریت اور انسانی حقوق کے فروغ میں معاون ثابت ہوں گے۔محمود جان بابر نے کہا کہ چند مخصوص گروہ جو مذہب کو سیاسی فائدے کے لیے استعمال کرتے ہیں اور مصصوم لوگوں کا استحصال کرتے ہیں، شہریوں کو اٴْن کی متنوع شناختوں کی بنیاد پر تقسیم کرتے ہیں۔

اس لیے شہریوں کو عدم رواداری کو فروغ دینے والے بیانیے کو رد کرنے کی ضرورت ہے، جو سماجی تانے بانے کو مضبوط کرنے کے لیے بہت ضروری ہے۔سنیل ملک نے تمام شہریوں کے لیے مساوات، انصاف اور شمولیت کے اصولوں کو برقرار رکھنے کی اجتماعی ذمہ داری پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ طرز حکمرانی کو بہتر کرنے کے لیے شہریوں کا فعال ہونا لازم ہے ، اس لیے متعلقہ شراکت داروں کو چاہیے کہ وہ سیاسی جماعتوں کو انتخابی وعدے یاد دلائیں اور سیاسی نمائندوں کو مسائل سے نمٹنے کے لیے پالیسی اصلاحات متعارف کرانے پر زور دیں۔

ناصر ولیم نے وفاقاور صوبوں میں برسراقتدار سیاسی جماعتوں پر زور دیا کہ وہ اپنے وعدوں کو پورا کریں خاص طور پر 2014 میں جاری کردہ اقلیتوں کے حقوق کے حوالے سے سابق چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کے فیصلے پر عمل درآمد کریں جس سے سماجی ہم آہنگی، شمولیت اور منصفانہ نمائندگی کو فروغ ملے گا۔

پشاور میں شائع ہونے والی مزید خبریں