لله* صوبائی حکومت کا گورکھتری سمیت پشاور کی تاریخی عمارات کو عالمی ورثہ قرار دینے کیلئے اقدامات کا فیصلہ

!قدیمی عمارات کی عظمت رفتہ بحال کرکے انہیں ملکی و غیرملکی سیاحوں کیلئے کھولنے کی غرض سے جامع منصوبہ بندی کا آغاز کیا گیا ہے۔ مشیر سیاحت و ثقافت : صوبائی بجٹ میں اس کیلئے خاطر خواہ فنڈز بھی مختص کئے گئے ہیں، زاہد چن زیب کا گورکھتری کے دورہ کے موقع پر اظہار خیال

پیر 27 مئی 2024 04:30

ًپشاور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 27 مئی2024ء) خیبرپختونخوا حکومت نے صوبائی دارالحکومت کی تاریخی عمارات کو عالمی ورثہ قرار دینے کیلئے ٹھوس اقدامات کرنے اور تزئین و آرائش سے انکی عظمت رفتہ بحال کرکے انہیں ملکی و غیرملکی سیاحوں کیلئے کھولنے کی غرض سے جامع منصوبہ بندی کا آغاز کیا ہے۔ اس مقصد کیلئے صوبائی بجٹ میں خاطر خواہ فنڈز بھی مختص کئے گئے ہیں۔

اس امر کا انکشاف وزیراعلی خیبرپختونخوا کے مشیر برائے سیاحت و ثقافت اور آثارقدیمہ زاہد چن زیب نے پشاور کے وسط میں قدیمی عمارت گور کھتری کے تفصیلی دورہ کے دوران کیا۔ ڈائریکٹر آرکیالوجی و عجائب گھر ڈاکٹر عبد الصمد اور صوبائی کلچر اینڈ ٹورازم اتھارٹی کی مینجر مارکیٹنگ و کلچرل ایونٹس میڈم حسینہ نے مشیر سیاحت کو 160 ضرب 160 فٹ کے مربع نما اس شاندار قلعہ کے خدوخال سے آگاہ کیا اور انہیں ازمنہ وسطٰی سے زمانہ حال تک تاریخ پشاور پر مبنی تصویری گیلری کی سیر کرانے کے علاؤہ 1912ء میں دور فرنگ کی فائر بریگیڈ گاڑیاں و ایمبولینس اور چاروں اطراف میں مختلف ہنر جاننے والے کاریگروں کی دکانیں، بھٹیاں اور کارخانے دکھائے۔

(جاری ہے)

انہیں بتایا گیا کہ کچھ عشرے قبل کھدائی کے دوران یہ حقیقت آشکارا ہوئی کہ وادی پشاور کے سب سے اونچے ٹیلے پر واقع اس قلعہ کی داغ بیل گور کھتری کے نام سے تیسری صدی عیسوی میں یونانی، سفید ہنز اور ساسانی حملہ آوروں نے ڈالی تھی جسے انکے ہیرو کنشکا کے مدفن کی وجہ سے گورکھتری یعنی جنگجو ہیرو کی قبر کے نام سے مقبولیت حاصل ہوئی۔ بعدازاں یہ کشان، سیتھی و پارتھی، کدارہ، ہندو شاہی، کدارہ، ہندوشاہی، غزنوی، سوری، مغل, درانی، سکھ اور برطانوی عملداری میں ایا۔

مغل بادشاہ شاہجہان کی بیٹی جہاں آراء بیگم نے موجودہ عمارت کی شکل میں یہاں مسافروں کے قیام کیلئے سرائے بنوائی اور ایک مسجد کے علاؤہ اس میں ٹھنڈے میٹھے پانی کے دو کنوئیں بھی تعمیر کروا کر اسے سرائے جہاں آباد کے نام سے موسوم کیا جبکہ بعد ازاں اسے سکھ گورنر ابو طبیلہ نے اپنا گورنر ہاؤس بنالیا اور مختلف کیسوں کے فیصلے بھی یہیں ہوتے رہے۔

قیدیوں کیلئے صدر دروازوں سے ملحقہ زنداں بھی بنائے گئے۔ مشیر سیاحت نے گور کھتری کو متنوع تہذیبوں کا مسکن قرار دیتے ہوئے مینجر مارکیٹنگ و کلچرل ایونٹس میڈم حسینہ کو گورکھتری کے وسیع صحن میں فوڈ سٹریٹ اور ثقافتی سرگرمیاں شروع کرنے جبکہ ڈائریکٹر ایم آئی ایس کو اس قلعہ نما عمارت کی اصل شکل میں بحالی کے بعد اسے ورچوئل ٹورازم گیلری کا حصہ بنانے اور دنیا بھر کو دکھانے کی ہدایت کی۔ انہوں نے قلعہ کی مختلف گیلریوں میں اپنی ذاتی تصاویر بھی بنوائیں۔

پشاور میں شائع ہونے والی مزید خبریں