Mere Paas Tum Ho' Mein Naya Aur Munfarid Kya Hai ?

Mere Paas Tum Ho' Mein Naya Aur Munfarid Kya Hai ?

میرے پاس تم ہو' میں نیا اور منفرد کیا ہے؟

خلیل الرحمان قمر کے ڈرامے اپنے ڈائیلاگز کے حوالے سے جانے مانے جاتے ہیں۔ یہ اپنے ڈرامے کے چھوٹے سے پلاٹ میں چند کرداروں سے ایسے ڈائیلاگز کہلواتے ہیں جو کہانی میں جان ڈال دیتے ہیں

جمعرات 16 جنوری 2020

تحریر: فیضان جعفری الخوارزمی

اس وقت ملک بھر میں شاید ہی کوئی ایسا شخص ہو جس کے گھر ٹی وی تو ہو مگر اسے اس ڈرامے کے بارے میں معلوم نہ ہو۔ اس ڈرامے نے اپنی اسٹوری، کاسٹ، ڈائیلاگز کے ساتھ ساتھ اپنے او ایس ٹی یعنی گانے کی وجہ سے بھی شہرت حاصل کی ہے۔ اس ڈرامے اور گانے کے بول کو خلیل الرحمان قمر نے تحریر کیا ہے جبکہ ندیم بیگ اس کے ہدایت کار ہیں۔
عمومی طور پر لوگ سینئر اداکار ندیم بیگ سے نام کے اشتراک کی وجہ سے انہیں سینئر یا عمر رسیدہ سمجھ بیٹھتے ہیں جبکہ وہ ایک نوجوان اور ماہر ہدایتکار ہیں۔
جب بھی اس ڈرامے کی بات ہوتی ہے تو سب پوچھتے ہیں کہ اس ڈرامے میں ایسا کیا ہے کہ ہر شخص ٹی وی یا یو ٹیوب پر اسے دیکھ رہا ہے، اور پاکستان ہی نہیں ہندوستان سمیت جہاں جہاں اردو بولی اور سمجھی جاتی ہے وہاں اس ڈرامے کا تذکرہ ہورہا ہے۔

(جاری ہے)

جہاں تک لکھاری کی بات ہے تو ڈرامہ 'لنڈا بازار' سے شہرت پانے والے خلیل الرحمان قمر بہت سے ڈرامے لکھ چکے ہیں جن میں 'پیارے افضل‘، 'تم کون پیا'، 'صدقے تمہارے'، 'بوٹا فرام ٹوبا ٹیک سنگھ'، 'بنٹی آئی لو یو'، 'ذرا یاد کر'، 'محبت تم سے نفرت ہے' جیسے مشہور ڈرامے شامل ہیں۔ اس کے علاوہ وہ پانچ فلمیں بھی لکھ چکے ہیں اور ان کی حالیہ فلم 'کاف کنگنا' کی ہدایتکاری بھی انہوں نے کی ہے۔
اس سے قبل ان کی پہلی فلم 'قرض' جو انہوں نے لکھی تھی، اس کے پروڈیوسر بھی وہ خود تھے۔
خلیل الرحمان قمر کے ڈرامے اپنے ڈائیلاگز کے حوالے سے جانے مانے جاتے ہیں۔ یہ اپنے ڈرامے کے چھوٹے سے پلاٹ میں چند کرداروں سے ایسے ڈائیلاگز کہلواتے ہیں جو کہانی میں جان ڈال دیتے ہیں۔ ایسے ڈرامے اور ایسی کہانی کو نظرانداز کرنا انتہائی مشکل ہوتا ہے بالخصوص ہماری ان خواتین کیلئے جن کیلئے دن بھر کے بعد واحد انٹرٹینمنٹ آٹھ سے نو بجے کا ٹی وی ڈرامہ ہی ہوتا ہے۔
خلیل الرحمان قمر کی ایک مداحہ سیماب ولید کا کہنا ہے کہ اس کے ڈرامے کے ڈائیلاگ دل کو چھو کر نہیں بلکہ دل کو چیر کر گذر جاتے ہیں۔ جہاں پر ان کو چاہنے اور پسند کرنے والوں کی کمی نہیں وہیں ان پر تنقید کرنے والوں کا کہنا ہے کہ خلیل الرحمان قمر ڈرامے اور کہانی پر بذاتِ خود اتنے چھائے ہوئے ہوتے ہیں کہ کردار کی نوعیت اور ضرورت پر اثرانداز ہوجاتے ہیں۔
ہر کردار ایک ہی طرح کا فلسفہ بیان کررہا ہوتا ہے، ہر سیچوئیشن میں ہر کردار ماہرِ نفسیات کا سا تاثر قائم کررہا ہوتا ہے جبکہ ایک کردار کے ڈائیلاگ اس کی کہانی میں حیثیت، نوعیت اور ضرورت کے مطابق ہونے چاہئیں۔ ان کی کہانی کے تمام کردار بیک وقت ابراہم ماسلو کی ضروریات کے ہرم کے نچلے ترین درجے (Biological needs) اور بلند ترین درجے (Self Actualization) پر براجمان نظر آتے ہیں۔
مگر اس سب کے باوجود وہ پاکستان کے معروف ترین ڈرامہ نگار ہیں جن کے نام اور شکل سے ڈرامہ بین لوگ بخوبی آشنا ہیں۔
اس ڈرامے میں کہانی اور ڈائیلاگ تو ویسے ہی ہیں جیسا کہ خلیل الرحمان قمر کے ڈراموں میں ہوتے ہیں مگر لوگ اب تک سوال کررہے ہیں کہ اس ڈرامے میں ایسا کیا ہے جو پہلے سے منفرد ہے۔ اس کی پہلی وجہ تو یہ ہے خلیل الرحمان قمر مرکزی کردار کیلئے یعنی ہیروئن کا انتخاب ہمیشہ صفِ اوّل کی اداکاراؤں میں سے کرتے ہیں اور نیا تجربہ کرنے کا کوئی رسک نہیں لیتے۔
اس سے قبل ان کے ڈراموں میں ماہرہ خان، ثنا جاوید اور دیگر مقبول ترین اداکارائیں مرکزی کردار ادا کرچکی ہیں۔ دوسرا ہمیشہ کی طرح ڈرامے کے او ایس ٹی کو مارکیٹنگ اور تشہیر کا ذریعہ بنایا گیا ہے جو انہوں نے خود لکھا ہے اور اپنے گذشتہ ڈراموں کے گانوں کی طرح راحت فتح علی خان سے گنوایا گیا ہے۔
 تیسری وجہ یہ ہے کہ ہمایوں سعید نے کبھی ایک غریب یا عام آدمی کا رول ادا نہیں کیا جوکہ اس ڈرامے میں لوگوں کیلئے ایک نئی چیز ہے۔
چوتھی وجہ یہ ہے کہ اس ڈرامے کے زیادہ تر شائقین مرد ہیں جو کہ عموماً ڈرامہ دیکھنے میں دلچسپی نہیں لیتے۔ یہ بات بھی سچ ہے کہ جو مرد یہ ڈرامہ نہیں دیکھ رہے وہ گانے سے ضرور شناسا ہیں اور جو مرد گانے سے بھی شناسا نہیں وہ ڈرامے کے نام سے کم از کم ضرور واقف ہیں۔
پانچویں وجہ یہ ہے کہ پاکستان کی ڈرامہ انڈسٹری جس میں گذشتہ بارہ چودہ سال سے صرف شادی ہی ایک موضوع کے طور پر رہ گئی ہے اس میں مرد کو ظالم، بے وفا، ناقابلِ اعتبار، لالچی، خود غرض، مطلبی، دھوکے باز، غیر حساس، تشدد کا حامی وغیرہ دکھایا جارہا تھا اس ڈرامے نے دراصل اس روایت سے 'یوٹرن' لیا ہے اور اس میں بعینہ ایک عورت کو لالچی، بے وفا، خود غرض اور بے حس دکھایا گیا ہے۔
یہ کردار ڈرامہ انڈسٹری کی صفِ اوّل کی خوبرو اداکارہ آئزہ خان نے نبھایا ہے جو کئی بار اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا چکی ہیں۔ یہ کردار صرف ان کے کیریئر کا ہی نہیں بلکہ کسی بھی اداکارہ کے کیریئر کا مشکل ترین فیصلہ ثابت ہوسکتا ہے بہرحال ناظرین کی اکثریت آئزہ خان کی اداکاری کی داد دیئے بغیر نہیں رہ سکی۔
چھٹی وجہ یہ ہے کہ معروف سوشل میڈیا پلیٹ فارمز یعنی فیس بک، ٹویٹر، یوٹیوب اور ٹک ٹاک وغیرہ نے اس ڈرامے کی مارکیٹنگ، تشہیر اور مقبولیت بڑھانے میں بہت کردار ادا کیا ہے جوکہ اس سے قبل پاکستان کی ڈرامہ انڈسٹری میں اس پیمانے پر استعمال نہیں کیے گئے۔
اس میں قابلِ ذکر کردار ٹک ٹاک کا ہے جس پر او ایس ٹی کی لپسنگ اور ڈائیلاگز پر وائس اوور لاکھوں لوگوں نے کی ہے اور ڈرامے کے نام کے ہیش ٹیگ سے منسلک کی ہے۔ 
خلیل الرحمان قمر کے ڈراموں کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ ڈرامے کو تجسس اور تحیر کی بلندی پر لاکر چھوڑ دیتے ہیں اور پھر اس کو خوش کن انجام سے ہمکنار نہیں کرتے۔ جب کہانی مقبول ترین سطح پر پہنچتی ہے تو اس میں نت نئے کردار آنا شروع ہوجاتے ہیں اور صرف ڈائیلاگز کے فلسفیانہ پن سے کام چلایا جاتا ہے جس سے ڈرامے کی لائف بڑھائی جاتی ہے اوربلآخر مقبولیت کم ہوتی جاتی ہے۔
ان کے ڈرامے 'میرے پاس تم ہو' میں ابھی تک صرف چار پانچ نئے کردار متعارف کروائے گئے ہیں اور کہانی میں تجسس اور تحیر برقرار ہے۔ اب 25 جنوری کو اس کی آخری بڑی قسط نشر ہونے جارہی ہے لہٰذا دیکھنا یہ ہے کہ آیا خلیل الرحمان قمر اپنی اس کہانی کا کوئی خوش کن اختتام کرپاتے ہیں یا نہیں!

Browse More Articles of Television