Hamal Aur Ghizaiyat - Article No. 2620

Hamal Aur Ghizaiyat

حمل اور غذائیت - تحریر نمبر 2620

حمل کے دوران کھانے پینے کی مختلف اشیاء کے بارے میں بہت سی باتیں کئی معاشروں میں بہت عام ہیں

جمعہ 18 جون 2021

حمل کے دوران کھانے پینے کی مختلف اشیاء کے بارے میں بہت سی باتیں کئی معاشروں میں بہت عام ہیں۔قدیم معاشروں میں حاملہ کو اس عرصے میں کئی چیزیں کھانے سے منع کیا جاتا تھا۔کہیں اسٹرابیری کھانے کی ممانعت تھی تو کہیں پپیتے کا کھانا منع تھا۔اسٹرابیری کے سلسلے میں یہ خیال عام تھا کہ اس کے کھانے سے بچے کے جسم پر اس جیسے دھبے یا اُبھار بن جاتے ہیں تو پپیتے کے بارے میں بعض معاشروں میں یہ بات عام تھی کہ اس سے حمل ساقط ہو جاتا ہے۔
اس قسم کے واقعات کبھی کبھی اتفاقیہ طور پر تو پیش آسکتے ہیں،لیکن انھیں ایک یقینی اصول کی حیثیت نہیں دی جا سکتی اور تجربات اور سائنسی تحقیق بھی اس کی تائید نہیں کرتی۔ان پر یہ کہہ کر بھی عمل کرنا کہ ہم تو صدیوں سے یہی کرتے چلے آئے ہیں،بالکل غلط ہے۔

(جاری ہے)

حاملہ کے سلسلے میں بنیادی بات یہ ذہن نشین رہنی چاہیے کہ اس عرصے میں وہ چونکہ ایک بچے کو اپنے پیٹ میں پالتی ہے،اس لئے اسے ضروری غذائی اجزاء پر مشتمل بھرپور غذا ہر صورت میں ملنی چاہیے۔

اس سلسلے میں یہ ضروری نہیں ہے کہ اسے بہت مہنگی غذا کھلائی جائے،قدرت نے سستی غذائیں بھی عطا کی ہیں۔ان کے کھانے سے بھی اس کی اور بچے کی غذائی ضرورتیں پوری ہو سکتی ہیں۔
وزن میں اضافہ لازمی ہے
دوران حمل وزن میں اضافہ لازمی ہے۔جو خواتین محض دُبلی پتلی اور اسمارٹ نظر آنے کے لئے کم کھا کر اس قدرتی اضافہ وزن سے بچنے کی کوشش کرتی ہیں،اپنے پیدا ہونے والے بچے اور خود اپنے ساتھ بڑی زیادتی کرتی ہیں۔
اس کا خمیازہ آگے چل کر بچہ اور وہ خود بھی بھگتتی ہیں۔یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ یہ غلط تصور یورپ کی وجہ سے عام ہوا۔وہاں یہ خیال عام تھا،بلکہ اکثر معالجین بھی اس خیال کے حامی تھے کہ حاملہ کے وزن میں 15 پونڈ سے زیادہ اضافہ نہیں ہونا چاہیے۔ان کے خیال میں 15 پونڈ سے زیادہ وزن کی صورت میں حاملہ سمیت خون (Toxaemia) کا شکار ہو جاتی تھی تو وہ اور اس کا بچہ موٹاپے کے عارضے میں مبتلا ہو جاتے تھے۔
آج کوئی اس بات پر یقین نہیں رکھتا ۔
یہ وضاحت ضروری ہے کہ ادھیڑ عمر کی حاملہ خواتین کے وزن میں اضافہ ہوتا ہے،جس کی بنیادی وجہ جسمانی مشقت اور ورزش کی کمی ہوتی ہے۔اس عمر میں چونکہ جسمانی نقل و حرکت کم ہو جاتی ہے اور غذا نوجوانی کے حساب سے ہی کھائی جاتی ہے،اس لئے وزن میں اضافہ یقینی ہوتا ہے۔ایسی حاملہ خواتین بھرپور غذا کھائیں گی تو یقینا ان کے بچے کا وزن بھی بڑھے گا،لیکن مشاہدات کے مطابق یہ اضافہ بہت زیادہ نہیں ہوتا۔
اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ حاملہ خواتین کو اپنے وزن میں اضافے کی مکمل آزادی ہونی چاہیے۔انھیں وزن میں بہت زیادہ اضافے کے بجائے محفوظ حد تک اضافے کی کوشش کرنی چاہیے۔دوران حمل 25 پونڈ تک کا اضافہ محفوظ حد ہے۔امریکہ میں اس سلسلے میں کی گئی تحقیق سے ظاہر ہوتا ہے کہ 21 پونڈ سے کم وزن کی صورت میں ایسی خواتین کے ہاں بالعموم ایسے بچے جنم لیتے ہیں،جن میں نشوونما کی صلاحیت خاصی کمزور ہوتی ہے تو بعض حاملہ خواتین کا جنین (Embryo)،یعنی پیٹ میں موجود بچہ ہلاک بھی ہو سکتا ہے۔

امریکہ کے علاوہ جرمنی میں بھی یہ بات دیکھی گئی ہے کہ دوران حمل 27 سے 35 پونڈ تک وزن حاصل کرنے والی خواتین کی زچگی میں دقت ہوتی ہے،یہاں تک کہ ان کے ہاں عمل قیصری (آپریشن) سے زچگی کی نوبت آجاتی ہے،اس لئے وزن میں اضافہ محفوظ حد تک ہی ہونا چاہیے۔
حیاتین اور معدنیات
دوران حمل حیاتین (وٹامنز) اور معدنی اجزاء مثلاً کیلسیئم اور فولاد وغیرہ کی ضرورت پر بہت زور دیا جاتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا یہ اجزاء قدرتی ذرائع سے حاصل کیے جائیں یا مصنوعی ذرائع سے؟جس عہد میں معالجین حاملہ کا وزن کم رکھنے پر زیادہ زور دیتے تھے،حاملہ خواتین کو کم حراروں (کیلوریز) والی غذائیں کھانے کا مشورہ دیا جاتا تھا اور انھیں کثیر الحیاتین (ملٹی وٹامنز) گولیاں کھلائی جاتی تھیں۔ان سے کہا جاتا تھا کہ انھیں کھانے کی ضرورت نہیں،وہ صرف تجویز کردہ گولیاں کھا لیا کریں۔

عملی طور پر دیکھا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ معالج کے اس مشورے پر ایسی خواتین بالعموم عمل نہیں کرتیں ہیں،اس لئے کہ کثیر الحیاتین گولیاں مہنگی ہوتی ہیں اور کوئی بھی حکومت اپنے ہسپتالوں سے یہ مفت فراہم نہیں کرتی۔ان کی وجہ سے پیٹ خراب ہو جاتا ہے۔اکثر خواتین اسے ایک غیر فطری عمل کہہ کر گریز کرتی ہیں۔
حمل کے آخری چھے ماہ میں گولیوں سے بچے کے وزن میں کوئی نمایاں اضافہ نہیں ہوتا۔
ان سے فائدہ صرف ان خواتین کو ہوتا ہے،جن میں واقعی حیاتین اور معدنی اجزاء کی قلت ہوتی ہے اور ان کی کمی سے ان کی اور بچے کی صحت خطرے میں رہتی ہے،تاہم انھیں غذائیت بخش غذا پر ترجیح نہیں دینی چاہیے۔اس کے علاوہ بڑی مقدار میں حیاتین سے ماں اور جنین دونوں ہی کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
ماضی کا یہ مشورہ کہ ”گولی کھاؤ“ فرسودہ ہو چکا ہے۔
دراصل حمل کے دوران ماں کو مثبت اور مفید غذائی عادات فروغ دینے کی ترغیب دینی چاہیے،تاکہ وہ اور اس کا بچہ زندگی بھر ان عادات کے فائدے حاصل کرتے رہیں۔یہ اس کی غذائی تربیت کا بہترین وقت ہوتا ہے،جس سے آگے چل کر وہ اس کا پورا خاندان مستفید ہو سکتا ہے۔گولی تو محض ایک وقتی حل ہے ،جب کہ ضرورت طویل المدت حل کی ہوتی ہے۔
موجودہ دور میں جب ہر ملک میں علاج معالجے کے ساتھ ساتھ بہتر صحت کے لئے مشورے اور رہنمائی فراہم کرنے کا اہتمام ہو رہا ہے، خواتین میں بالخصوص عمدہ قدرتی غذاؤں کے کھانے کا شعور پیدا کرنا بے حد ضروری ہے۔
انھیں علم ہونا چاہیے کہ کون سی سبزیاں مفید ہوتی ہیں اور وہ پھلوں کے ذریعے کتنی غذائیت حاصل کر سکتی ہیں۔انھیں گوشت کے علاوہ ثابت اناج اور دالوں سے لحمیات (پروٹینز) اور دیگر غذائی اجزاء حاصل کرنے کی ترغیب دی جائے۔کھانے کی مقدار کے بجائے اس کے معیار پر زیادہ زور دیا جائے۔غذائیں ایسی ہوں، جنھیں ہر خاندان بہ آسانی حاصل کر سکے۔
فولاد کی گولیاں
دوران حمل باقاعدگی سے فولاد والی گولیاں کھلانے کا رجحان دراصل اس تصور کا نتیجہ ہے کہ اس عرصے میں خون کے سرخ ذرات (ہیموگلوبن) کی تعداد وہی ہونی چاہیے،جو عام دنوں میں ہوتی ہے۔
فکر کا یہ انداز غلط ہے۔بات دراصل یہ ہے کہ مدت حمل کے وسط میں خون چونکہ پتلا ہو جاتا ہے،اس لئے اس میں سرخ ذرات کی سطح گر جاتی ہے۔ایسی صورت میں ان ذرات کی مقدار میں اضافے کی چنداں ضرورت نہیں ہوتی،بلکہ یہ نقصان دہ ہوتی ہے۔امریکہ میں ہزاروں حاملہ خواتین کے مطالعے سے پتا چلا ہے کہ سرخ ذرات کی 130 کی بھرپور سطح رکھنے والی خواتین حمل سے پہلے کی تکالیف کا زیادہ شکار پائی گئیں اور ان کے بچوں میں نشوونما کا عمل بھی متاثر رہا۔
دیگر مطالعات سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ خون کے گاڑھا ہو جانے کی وجہ سے جنین کی جانب خون کی رسد کم رہتی ہے۔خون میں سرخ ذرات کی مقدار اگر 110 ہو تو ایسی صورت میں فولاد کی اضافی مقدار کی ضرورت نہیں ہوتی،البتہ جو خواتین مختلف اسباب کی وجہ سے شدید قلت خون کی شکار ہوں،ان کے لئے فولاد کی اضافی مقداریں ضروری ہوتی ہیں،تاہم ہر صورت میں خواتین کو فولاد کی حامل غذائیں کھانے کی ترغیب دی جانی چاہیے۔
خون میں اگر سرخ ذرات کی مقدار 100 سے کم ہو اور ایسی صورت میں فولاد کا کھانا ضروری ہو جائے تو ایسی خواتین کو یہ مشورہ دیا جائے کہ وہ فولاد کے بہتر انجذاب کے لئے فولاد کی گولیوں کو دو کھانوں کے درمیان کھائیں۔
پیٹ میں گڑبڑ اور خرابی کی صورت میں فولاد کی گولیاں یا شربت وغیرہ کھانے کے ساتھ کھائیں۔فولاد کی گولیاں کھانے سے چونکہ بالعموم قبض کی شکایت لاحق ہو جاتی ہے،اس لئے انھیں پانی زیادہ مقدار میں پینے کے علاوہ غذائی ریشہ زیادہ کھانے کا مشورہ دیا جائے۔

فولک ایسڈ
ایک تحقیق سے یہ بات ظاہر ہوئی ہے کہ دوران حمل عصبی انبوب (نیورل ٹیوب) کی پیچیدگی کا شکار ہونے والی خواتین کو استقرار حمل سے تین ماہ قبل اور حمل کے ابتدائی تین ماہ میں روزانہ 4 ملی گرام فولک ایسڈ کی گولیاں کھلانے سے وہ ان پیچیدگیوں سے بڑی حد تک محفوظ رہتی ہیں۔
سیالات اور نمک
حمل کے دوران پانی،دیگر سیالات اور نمک کی مقدار میں کمی نامناسب ہوتی ہے۔
دوران حمل بلڈ پریشر کم کرنے کے لئے نمک اور پانی کی مقدار کم کرنا مناسب نہیں کرتا۔اسی طرح جسم میں پانی کے جمع ہونے (ورم) کی صورت میں بھی یہ پرہیز درست نہیں ہوتا،کیونکہ یہ دونوں شکایتیں زچگی کے بعد خود بخود رفع ہو جاتی ہیں۔
نباتی دوائیں
یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ یورپ اور امریکہ میں اب علاج بالنباتات (ہربلزم) کی تجدید ہو رہی ہے۔
چنانچہ اب وہاں حاملہ خواتین مختلف بوٹیاں کیپسولوں اور ٹنکچرز کی صورت استعمال کر رہی ہیں،مثلاً رحم کی اصلاح کے لئے راس بیری کے پتوں کا جوشاندہ پیا جاتا ہے تو سینے کی جلن (ہارٹ برن) کے لئے پپیتے کے کیپسول کھائے جاتے ہیں۔اسی طرح وہاں سنا،تیزپات،اور گھیکوار وغیرہ کا استعمال بھی مختلف شکایات کے لئے عام ہے۔اسی طرح کئی بوٹیاں زچگی کے بعدرحم کو اصلی حالت پر لانے کے لئے استعمال کروائی جاتی ہیں۔ان کے سلسلے میں اصل احتیاط ان کی مقدار کے معاملے میں برتنی چاہیے اور یہ کام ایک مستند معالج ہی کر سکتا ہے۔

Browse More Special Articles for Women

Special Special Articles for Women article for women, read "Hamal Aur Ghizaiyat" and dozens of other articles for women in Urdu to change the way they live life. Read interesting tips & Suggestions in UrduPoint women section.