Khawateen Ke Bags - Article No. 2542

Khawateen Ke Bags

خواتین کے بیگز - تحریر نمبر 2542

فیشن،کارآمد اور آرٹ بھی

منگل 9 مارچ 2021

بیگ یا پرس فیشن کی ایک انوکھی قسم ہیں۔ جس کے کسی حصے کو بند کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔جس کے نتیجے میں ایسی چیزیں ایجاد ہوئیں جو کہ فقط فیشن ہی نہیں بلکہ وہ فن بھی ہیں۔حالیہ برسوں میں یہ رجحان اپنے منطقی انجام کو پہنچا ہے کیونکہ برانڈز ٹریسی ایمن اور مارک کوئین جیسے عمدہ فنکاروں کے ساتھ مل کر ایسے بیگز کی تیاری کرتے ہیں جو گیلری میں جگہ سے باہر نظر نہیں آتے ہیں۔
اور واقعی وہ جگہ ہے جہاں انہیں وی اینڈ اے کی نئی نمائش میں دیکھا جا سکتا ہے۔لیکن یہ نہ صرف ان کی جمالیاتی کشش ہے جس کا آرٹ سے موازنہ کیا جا سکتا ہے۔بلکہ ہر میس،چینل اور ڈائر جیسے برانڈز کے ذریعے کلاسیکی تخلیقات کو ان کی سرمایہ کاری کی صلاحیت کے لئے تیزی سے سراہا جا رہا ہے ۔ہم بیگز کو پہنتے نہیں ہیں بلکہ ہم انھیں اٹھاتے ہیں۔

(جاری ہے)

سو اس میں یہ آزادی ہے۔

انھیں غیر معمولی طور پر ڈیزائن کیا جا سکتا ہے۔جیسے کہ ان کو آسانی سے کتے،مینڈک کی شکل دی جا سکتی ہے۔وی اینڈ اے کی نمائش کی منتظم لوسیا ساوی کے مطابق اس کی سطح کو سجایا جا سکتا ہے یا اس پر پینٹ کیا جا سکتا ہے یہ ایک خالی کینوس ہے جس پر آپ کام کر سکتے ہیں۔
مینڈک کی شکل کا پرس وی اینڈ کیو کا بیگ ہے 17 ویں صدی میں چھوٹے چھوٹے پرس جنھیں سویٹ پرس کہا جاتا تھا کو غیر معمولی شکل جیسے مینڈک کی شکل دینا اور اس میں سونے یا چاندی کے تاروں کی مدد سے خوبصورت پرس بنائے جاتے تھے۔
اشرافیہ میں انھیں بطور تحائف ایک دوسرے کو دیا جاتا تھا۔ریٹیکیول جو کہ 19 ویں صدی میں ابھرا اور جدید ہینڈبیگ کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے کی ہموار سطح تھی۔اس لئے اس نے فنکارانہ اظہار کے لئے بہترین موقع دیا۔ساوی کا کہنا تھا کہ یہاں ایک سطح سجا دی گئی ہے تاکہ خواتین انہیں مختلف شکلوں اور پھولوں سے سجائیں۔فنکاروں کی بیگ بنانے کے لئے تخلیقی صلاحیتوں کی عکاسی 1930ء کی دہائی سے ہی ہوتی ہے۔
19 ویں صدی کے دلچسپ ڈیزائن جس میں پھولوں کی ٹوکریاں،مچھلی کے شیل اور انناس کی شکل کے بیگ شامل ہیں نے ان ناگوار چیزوں کے رجحان کو متاثر کیا جو 1930ء کی دہائی میں بیگ ڈیزائن میں دکھائی دیتے تھے۔پیرس کے این میری جیسے ڈیزائنرز نے ٹیلیفون،شیمپین کولر اور یہاں تک کہ ریڈیو کی شکل کے حیرت انگیز طور پر انوکھے بیگ تیار کیے۔
اس کے نتیجے میں ہنگری کے امریکی ڈیزائنر جوڈتھ لیبر کی جیول جیسی تخلیقات پر بھی اثر پڑا جس کی طلب کے بعد شام کے تھیلے، اسپرگس کے جھنڈ سے لے کر لپ اسٹک تک ہر چیز کی شکل کے بیگز شامل ہیں۔
1990ء کی دہائی میں برطانوی ڈیزائنر لولو گینس کے پھولوں کی ٹوکری کی شکل میں آنے والے بیگز خواتین کے تین جہتی پھولوں والے بٹوے کی مثال کے طور پر دیکھتے جا سکتے ہیں۔ فنکاروں میں بیگز کی ڈیزائننگ کی صلاحیت 1930ء کی دہائی سے دیکھی جا سکتی ہے۔ہیلڈی واگنر ایسچر ویانا میں وائنرور کسٹیٹ کے ساتھ منسلک ہیں اور وہ کلچ ہاتھ میں پکڑے جانے والے پرس پر گرافک ڈیزائن کا کام کرتی ہیں۔
ساوی کا کہنا ہے کہ انھوں نے بہت ہی عام اور فیشن کی شکل کو استعمال کیا لیکن اس پر کی جانے والی ڈیکوریشن اور اس کا نمونہ ان کی وائنرور کسٹیٹ کے ساتھ نمائندگی کا مظاہرہ ہے۔یہ ڈیزائن کی وہ تحریک ہے جو ویانا سے باہر نکلی اور یہ جمالیاتی قسم ہے۔حالیہ دہائیوں میں مختلف برانڈز آرٹسٹوں کے ساتھ مل کر اپنے کلاسک ڈیزائنز میں نئی روح پھونکتے ہیں۔
لوئس وٹن نے بطور خاص اس حوالے سے آرٹسٹوں کے ساتھ کام کیا ہے اس میں انھوں نے سنہ 2001ء میں سٹیفن سپروس اور ان کے نیون گرافٹی بیگز کے ساتھ شروعات کیں اور ان کے ساتھ اس کام میں فنی ماہر مارک جیکب تھے۔تب سے اس برینڈ نے تاکاشی موراکامی سے لے کر یایوئی کوساما میت سب کے ساتھ کام کیا۔
ساوی کے مطابق یہ آرٹسٹ کے فن پاروں جیسے تھے بہت کم تعداد میں دستیاب تھے اور ان میں آرٹسٹ مختلف طرح سے اپنے تجربات کیے تھے۔
جو تجربات کیے گئے ان میں بیتھن لورا ووڈ کی سیریز کے تحت ویلیکسرا کے آئسڈ اور پاسپرٹ آؤٹ بیگز کا تبادلہ شامل تھا۔اور مارک کوئین کے بدلے لیڈی ائیر کے بیگ شامل تھے۔راکیل کو فسکی کا کہنا ہے کہ اب بلاشبہ فیشن اور فن کے درمیان بہت مضبوط تعلق ہے۔ 2020ء میں الیگزینڈر مک کوئین کا چار انگوٹھیوں کا یہ کلچ آرٹ کا ایک خوبصورت نمونہ ہے۔کوفسکی کا کہنا ہے کہ برکن کو دنیا کا سب سے پسند کیا جانے والا بیگ سمجھا جاتا ہے۔
کیونکہ یہ مشہور ڈیزائن ہے اپنے ہاتھ سے بنائے جانے کی وجہ سے اور یہ کاریگری کی اعلیٰ ترین مثال ہے۔ ہمالیہ برکن کو ہانگ کانگ میں کرسٹی نے سنہ 2017ء میں بیچا اور یہ دنیا کا سب سے مہنگا بیگ تھا جس کی بولی 29300 برطانوی ڈالر لگائی گئی۔کوفسکی کہتے ہیں کہ اس بیگ میں 18 قیراط وائٹ گولڈ اور ڈائمنڈ کا استعمال ہوا تھا۔یہ فقط ایک بیگ سے کہیں زیادہ تھا۔
یہ ایک زیور بھی تھا۔یہ آرٹ کے ایک پہناوے جیسا تھا۔
یہ ایک ہینڈبیگ پر خرچ کے لئے بہت زیادہ رقم ہے لیکن یوں معلوم ہوتا ہے کہ رقم کو اچھی جگہ خرچ کیا گیا ہے۔کوفسکی اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ سنہ 2008ء کے معاشی بحران کے بعد خریداروں نے پیسے خرچ کرنے میں کمی کی تھی۔لیکن پھر بھی کچھ بیگس مثال کے طور پر ہرمز برکن کی قیمت تب بھی برقرار رہی اور ان کو جمع کرنے والوں نے اپنی رقم کو ان پر لگایا۔
یہ ان کے لئے فیشن کے بجائے ایک اثاثہ تھا۔بلاشبہ ایک حالیہ رپورٹ میں آرٹ مارکیٹ ریسرچ نے بتایا ہے کہ برکنز کی قیمت میں ہینکسی کی نسبت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ کوفسکی کا کہنا ہے کہ ان کلاسک ڈیزائنوں کے شوق کو اس احساس کے ساتھ ابھارا جا رہا ہے کہ فیشن کی موجودہ ڈیزائن کے بارے میں آگاہ کرنے کے لئے ماضی کی جانب دیکھ رہی ہے۔ڈائر کا سیڈ لبیگ جس نے پہلی بار 1999ء میں آغاز کیا تھا کوماریا گریز یا چیوری کے تحت واپس لایا گیا ہے۔
اور گوچی میں ایلیسنڈور مشیل گوچی کے پرانے ڈیزائنرز سے بہت زیادہ متاثر ہوتا ہے۔
کوفسکی کا کہنا ہے کہ آپ کی والدہ نے 1970ء کی دہائی میں جو ہینڈبیگ لیا تھا،اچانک آپ اسے رن وے پر دیکھتے ہو اور اس کی قیمت آسمان سے باتیں کر رہی ہے۔ان کی مہنگی قیمت کے باوجود یہ کہیں دھول میں اٹے نہیں پڑے ہوئے۔کوفسکی کا کہنا ہے کہ کچھ لوگ ان خصوصی بیگز کو ضرور خریدیں گے اور انھیں الماریوں میں آرٹ کی طرح رکھیں گے۔
لیکن وہ یہ بھی کہتی ہیں کہ میں نے جن زیادہ تر لوگوں کے ساتھ کام کیا ہے وہ سب تو نہیں لیکن بہت سے محبت اور شوق میں ان بیگز کو خریدتے ہیں۔وہ اپنی پسند کی چیزوں اور وہ کیا استعمال کر رہے ہیں اس کو مد نظر رکھتے ہوئے اس قسم کی سرمایہ کاری کے فیصلے کرتے ہیں۔یقینی طور پر ہم سب کے چینل فلیپ بیگ یا ڈائر سیڈلیی بیگ لینا اور ہرمیس برکن کو چھوڑ دینا اسے ہی ممکن نہیں جیسے ٹریسی ایمن کے کپڑے کے ٹکڑوں یا پھر مارک کون کے پرنٹ کیے ہوئے بیگز کا۔یوں لگتا ہے کہ جیسے ہمیں خود کو انھیں گیلری میں بطور آرٹ کے دیکھ کر ہمیں خود کو مطمئن کرنا ہو گا۔

Browse More Special Articles for Women

Special Special Articles for Women article for women, read "Khawateen Ke Bags" and dozens of other articles for women in Urdu to change the way they live life. Read interesting tips & Suggestions in UrduPoint women section.