Khawateen Ke Dantoon Ki Sehat - Article No. 2747

Khawateen Ke Dantoon Ki Sehat

خواتین کے دانتوں کی صحت - تحریر نمبر 2747

خواتین کے دانتوں کے مسائل مردوں کے مقابلے میں زیادہ پیچیدہ ہوتے ہیں،کیونکہ اُن کی زندگی کے مختلف مراحل اور تبدیلیوں کے مسوڑوں اور دانتوں پر گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں

پیر 29 نومبر 2021

خواتین کے دانتوں کے مسائل مردوں کے مقابلے میں زیادہ پیچیدہ ہوتے ہیں،کیونکہ اُن کی زندگی کے مختلف مراحل اور تبدیلیوں کے مسوڑوں اور دانتوں پر گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ایام کے دوران خواتین کے مسوڑے حساس اور زیادہ سرخ ہو جاتے ہیں تو منہ میں چھوٹے چھوٹے آبلے سے بن جاتے ہیں،جن میں درد ہوتا ہے۔اکثر خواتین اسے ”منہ آنے“ کی شکایت قرار دیتی ہیں۔
اسی طرح حمل کے دوران ذرا سی رگڑ سے مسوڑوں سے خون نکلنے لگتا ہے تو سنِ یاس (Menopause) کے شروع میں منہ بالعموم خشک رہنے لگتا ہے اور باقاعدگی سے دانت صاف کرنے کے باوجود یہ شکایات تنگ کرتی ہیں۔دانتوں اور مسوڑوں کی یہ تکالیف کیوں ہوتی ہیں؟اس کا ابھی تک کوئی قطعی جواب نہیں مل سکا ہے۔بس یہی کہا جا سکتا ہے کہ چونکہ دورانِ ایام اور حمل نیز سنِ یاس کے شروع اور بعد میں بھی خواتین کے جسم میں اہم ہارمونی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں،اس لئے دانتوں کے یہ مسائل خواتین کے لئے مخصوص ہوتے ہیں۔

(جاری ہے)

ماہرین کی رائے میں خواتین کے جسم میں ان کے زنانہ ہارمونوں کی سطح کے بڑھ جانے کی وجہ سے مسوڑوں پر مضر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
دانتوں اور مسوڑوں کے یہ مسائل ہر جگہ یکساں ہوتے ہیں،لیکن ہماری خواتین چونکہ بالعموم ان پر توجہ نہیں دیتیں،اس لئے ہمارے ہاں ان کا چرچا نہیں ہوتا۔ترقی یافتہ ملکوں میں چونکہ وہاں کے معالجین ہی بالعموم لوگوں کے ہمدرد اور مونس سمجھے جاتے ہیں،لہٰذا خواتین کی اکثریت انھیں اپنے ان مسائل سے آگاہ کرکے مدد کی طلب گار ہوتی ہے۔
اسی کا نتیجہ ہے کہ اب وہاں خواتین کے دانتوں کی صحت اور ان کے مسائل پر ایک نئے انداز میں غور و فکر ہو رہا ہے۔کئی ماہرین کی رائے میں اس سلسلے میں وسیع تحقیق کی ضرورت ہے،لیکن اس کے باوجود یہ بات بالکل واضح ہے کہ ایام اور حمل کے علاوہ سنِ یاس میں دانتوں کے مسائل زیادہ سر اُٹھاتے ہیں۔اس سلسلے میں یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ مانع حمل دوائیں کھانے والی خواتین بھی دانتوں کی تکالیف میں مبتلا ہوتی ہیں۔
ان اہم ہارمونی تبدیلیوں کے باوجود خواتین تھوڑی سی کوشش اور توجہ سے اپنے ان مسائل پر قابو پا سکتی ہیں۔
ایام کے دوران
ان دنوں میں مسوڑے سوج جاتے ہیں،رنگت سرخ ہو جاتی ہے اور برش کرنے یا رگڑ سے خون رسنے لگتا ہے۔اس کی وجہ سے چونکہ مسوڑے بہت حساس ہو جاتے ہیں،یہ تعدیے (انفیکشن) کی زد میں آ کر بہت زیادہ پھول جاتے ہیں،لیکن اگر اس کیفیت میں نرمی اور احتیاط سے دانت صاف کیے جائیں تو مسوڑوں کے زخمی ہو جانے کا خطرہ ٹل سکتا ہے۔
ان دنوں میں خاص طور پر گائے کے گوشت سے بھی بچنا چاہیے۔عام نمک یا میٹھے سوڈے کی ہلکی مالش یا پھر نیم کے پتوں کے نیم گرم جوشاندے سے کلیاں کرنا بھی مفید رہتا ہے۔اس طرح مسوڑے جراثیم کی زد سے محفوظ رہتے ہیں۔ایام ختم ہونے کے بعد یہ خطرہ بھی ٹل جاتا ہے،لیکن اگر ان دنوں میں احتیاط نہ کی جائے تو یہی سوجن مسوڑوں کے زخم کا سبب بن کر مستقل تکلیف کی وجہ بھی بن سکتی ہے۔
ایسی صورت میں حسبِ عادت ٹالنے کے بجائے معالج سے ضرور مشورہ کر لینا چاہیے۔منہ آنے کی شکایت،جسے بخار اُچھلنے کی تکلیف بھی کہتے ہیں،بہت تکلیف دہ ہوتی ہے۔منہ کے اندر بننے والے چھالے دراصل ایک وائرس کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ایام کے دنوں میں یہ زیادہ زور کرتے ہیں۔ان کا علاج بھی کیا جا سکتا ہے،خود نیم کا جوشاندہ ہی کافی ہو سکتا ہے۔اس تکلیف کے لئے یہ سفوف بھی بہت مفید ثابت ہوتاہے،چھوٹی الائچی کے دانے،قلمی شورہ،گلاب کے خشک پھول(گلِ سرخ)،سفید کتھ 10-10 گرام اور کافور 5 گرام،سب کو باریک پیس کر شیشی میں محفوظ رکھیں اور دن میں 4-3 مرتبہ تھوڑا تھوڑا سفوف منہ میں چھڑکتے رہیں۔
اس کے باوجود تکلیف برقرار رہے تو معالج سے مشورہ کریں۔
حمل کے دوران
اس عرصے میں دانت اور مسوڑے بہت متاثر ہوتے ہیں،خاص طور پر جن خواتین کو یہ شکایت پہلے ہی سے رہتی ہے،وہ دانتوں اور مسوڑوں کی شکایات کا زیادہ سامنا کرتی ہیں۔دیکھا یہ جاتا ہے کہ جو خواتین دانتوں کی صفائی کے سلسلے میں بے پروائی برتتی ہیں،دورانِ حمل زیادہ پریشان ہوتی ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ زچگی کے بعد بالخصوص پان کھانے والی خواتین کے دانت خاصے کمزور ہو جاتے ہیں۔ماہرین کے مطابق حمل کے دوران 60 سے 75 فیصد خواتین میں یہ شکایات معمولی نوعیت کی ہوتی ہیں۔ان سے بچنے کے لئے بھی ضروری ہے کہ منہ اور دانت صاف رکھنے پر زیادہ توجہ دی جائے۔اس کے علاوہ اچھی غذا کھائی جائے۔اس سے مراد ایسی غذا ہے،جس میں کیلسیئم اور حیاتین خاص طور پر حیاتین ج (وٹامن سی) زیادہ موجود ہو۔
یہ حیاتین مسوڑوں کو جراثیم کی زد سے زیادہ محفوظ رکھتی ہے۔کھانا کھانے کے بعد احتیاط سے دانت صاف کیے جائیں اور نیم گرم پانی سے خوب کلیاں کی جائیں۔اس دوران میں کوئی معیاری منجن خاص طور پر بہت مفید ثابت ہوتا ہے۔اس دوران دانتوں کی تکلیف بڑھنے کی صورت میں ان کے ایکسرے کی ضرورت بھی پیش آ سکتی ہے،لیکن اس سے ممکنہ حد تک بچنا چاہیے،کیونکہ یہ شعاعیں پیٹ کے بچے کے لئے مضر ثابت ہو سکتی ہیں۔
اس طرح بہت تیز قسم کی ضد حیوی دواؤں (اینٹی بایوٹکس) سے بھی احتیاط کرنی چاہیے۔یہ بھی پیٹ کے بچے کے لئے مضر ثابت ہو سکتی ہیں۔سمجھ دار معالج خود بھی اس سلسلے میں محتاط رہتے ہیں۔
مانع حمل دوائیں
یہ دوائیں کھانے والی اکثر خواتین مسوڑوں کی تکالیف میں مبتلا ہو سکتی ہیں۔ان کا بیرونی علاج ہی مناسب ہوتا ہے،یعنی دانتوں کی صفائی کی جائے اور جراثیم کش دواؤں سے کلیاں کی جائیں۔
تکلیف شدید ہونے کی صورت میں تیز ضد حیوی دوائیں مفید ثابت ہوتی ہیں،لیکن ان میں بھی تمام دوائیں محفوظ نہیں ہوتیں۔احتیاط کا تقاضا تو یہ ہے کہ معالج خود یہ دریافت کرے کہ مریضہ یہ گولیاں تو کھا نہیں رہی ہے،لیکن خود مریضہ کو بھی چاہیے کہ وہ معالج کو یہ بتا دے،تاکہ وہ سوچ سمجھ کر دوائیں تجویز کر سکے۔
خشک دہنی
منہ خشک ہونے کی شکایت بھی مانع حمل دواؤں کا نتیجہ ہو سکتی ہے۔
ویسے حاملہ خواتین بھی اس کا شکار ہوتی ہیں۔منہ کی خشکی دانتوں اور مسوڑوں کی صحت کے لئے بہت مضر ثابت ہوتی ہے،کیونکہ لعابِ دہن سے منہ دُھلتا رہتا ہے،بلکہ اس سے جراثیم ہلاک ہو جاتے ہیں۔ لعاب،یعنی تھوک کی تہ سے مسوڑے نرم رہتے ہیں،چٹختے نہیں۔اس مسئلے کا ایک آسان حل تو یہی ہے کہ تھوڑے تھوڑے وقفے سے پانی پیتی رہیں،خاص طور پر گفتگو کے دوران۔
دانتوں کی اچھی صفائی کے علاوہ منہ میں لونگ الائچی یا سونف ڈال لیں۔ان سے تھوک کے غدود کو تحریک ملتی ہے۔کافی اور تمباکو کے علاوہ بہت زیادہ نمکین،چٹ پٹی اور ترش اشیاء کھانے سے بھی بچیں۔مانع حمل دوائیں کھانے کے دوران ضرورتاً دانت نکلوالنا مناسب نہیں ہوتا،کیونکہ ان کی وجہ سے خون میں جمنے کی صلاحیت کم ہو جاتی ہے جس سے زخم جلد نہیں بھرتا،اس لئے جب ایام کے دوران یہ دوائیں نہ کھائی جا رہی ہوں تو دانت نکلوانا زیادہ مناسب ہوتا ہے۔

سنِ یاس میں
سنِ یاس میں بھی،یعنی جب ایام کی آمد کا سلسلہ بند ہو رہا ہو تو مذکورہ بالا تکالیف لاحق ہو سکتی ہیں۔مسوڑے سوج جاتے ہیں اور منہ خشک رہنے لگتا ہے،بلکہ اس عرصے میں منہ میں جلن ہوتی ہے،ذائقہ تبدیل ہو جاتا ہے،خاص طور پر نمکین اشیاء کا مزہ بدلا ہوا لگتا ہے۔سنِ یاس کی دیگر تکالیف کے علاوہ جبڑوں میں دکھن بھی ہوتی ہے۔
دیگر علامات کی طرح یہ بھی اس حصہ عمر کا ایک لازمی حصہ ہوتے ہیں،جن کا علاج ان کی علامات کے مطابق کرنا مناسب ہوتا ہے۔اس عمر میں چونکہ ہڈیاں گھل کر کمزور ہو جاتی ہیں،اس لئے جبڑوں کی تکلیف پر نظر رکھنی چاہیے۔ان کی کمزوری دانتوں پر بھی اثر انداز ہو سکتی ہے۔ہڈیاں مضبوط بنانے والی غذائیں زیادہ کھانی چاہییں،یعنی کیلسیئم اور حیاتین د (وٹامن ڈی) والی غذائیں۔ضروری ہو تو معالج کے مشورے سے کیلسیئم کی گولیاں بھی کھائی جا سکتی ہیں۔

Browse More Special Articles for Women

Special Special Articles for Women article for women, read "Khawateen Ke Dantoon Ki Sehat" and dozens of other articles for women in Urdu to change the way they live life. Read interesting tips & Suggestions in UrduPoint women section.