Mulazmat Aurat Ka Shouq Ya Zarorat - Article No. 2228

Mulazmat Aurat Ka Shouq Ya Zarorat

ملازمت عورت کا شوق یا ضرورت․․․․؟ - تحریر نمبر 2228

موجودہ دور میں جبکہ مہنگائی آسمان سے باتیں کررہی ہے گھر کے ایک فرد کے لیے زندگی کی گاڑی چلانا ناممکن سا ہو گیا ہے۔

جمعہ 6 دسمبر 2019

موجودہ دور میں جبکہ مہنگائی آسمان سے باتیں کررہی ہے گھر کے ایک فرد کے لیے زندگی کی گاڑی چلانا ناممکن سا ہو گیا ہے۔ایک وقت تھا کہ ایک کمانے والا ہوتا اور گھر کے آٹھ دس افراد کھانے والے ہوتے تھے اور بخوبی گزارہ ہو جاتا تھا لیکن اب ایک طرف تویہ بڑھتی ہوئی مہنگائی اور دوسری جانب نمود ونمائش کے تقاضوں نے خواتین کو بھی گھر سے باہر نکلنے پر مجبور کر دیا ہے۔

کچھ خواتین ایسی بھی ہیں جو محض شوق یا وقت گزاری کے لیے ملازمت کرتی ہیں اس رجحان سے ایک طرف تو کئی مسائل حل ہورہے ہیں تو دوسری جانب نئے نئے مسائل بھی سامنے آرہے ہیں۔کئی خواتین ملازمت کے دوران گھر کی ذمہ داریوں کو فراموش کر دیتی ہیں جس سے گھروں میں نا چاکیاں شروع ہو جاتی ہیں۔اس ضمن میں چند خواتین کی آراء دی جارہی ہیں۔

(جاری ہے)


پچیس سالہ سکول ٹیچر بتول کہتی ہیں کہ مہنگائی کے اس دور میں گھر کے اخراجات پورے کرنا ایک انسان کے بس کی بات نہیں ہے۔

میرے دو بچے ہیں جو انگلش میڈیم سکول میں زیر تعلیم ہیں۔شوہر ایک پرائیویٹ فرم میں ملازمت کرتے ہیں،ان کی تنخواہ میں بمشکل گزارہ ہو پاتاہے۔اگر اس طرح کے پرابلمز نہ ہوں تو میں ملازمت ہر گز نہ کروں کیونکہ گھر اور ملازمت کو ایک ساتھManageکرنا ایک عورت کے لیے بہت مشکل کام ہے۔امبرین جو ایک ماہر بیو ٹیشن ہیں کا خیال ہے کہ لڑکیوں کی ملازمت میں کوئی برائی نہیں وہ چار پیسے کما کر والدین کے لیے آسانیاں فراہم کرتی ہیں․․․․․
ان کا کہنا ہے کہ میں پچھلے دس سال سے اپنا پارلر چلا رہی ہوں میں نہ صرف اپنے ماں باپ کو سپورٹ کرتی ہوں بلکہ پچھلے ایک سال سے میرا بھائی بے روز گار ہے تو اس کی فیملی کو بھی میں ہی سپورٹ کررہی ہوں۔
اگر آج میں کام نہیں کررہی ہوتی تو مہنگائی کے اس دور میں کون ہماری مدد کرتا۔ارم ایک گارمنٹس فیکٹری میں کام کرتی ہیں۔وہ کہتی ہیں کہ ہم دوبہن بھائی ہیں۔ابو ایک پرائیویٹ جاب کرتے ہیں۔بھائی ابھی پڑھ رہا ہے ایسے میں اگر میں ملازمت نہ کروں تو ہمارے گھر میں بہت دشواریاں آجائیں ۔اگرچہ ملازمت کے دوران بہت کچھ برداشت بھی کرنا پڑتاہے،اس کے باوجود میری خواہش ہے کہ میری شادی ایسے مرد سے ہو جو شادی کے بعد مجھ سے ملازمت نہ کروائے۔
موجودہ ملازمت کے باوجود میں سمجھتی ہوں کہ مرد کا کام کمانا اور عورت کا کام گھرداری ہے۔
فائزہ جو کہ ایک مقامی پرائیویٹ سکول میں پڑھاتی ہیں اپنی ملازمت کے بارے میں کہتی ہیں کہ میں ایک شادی شدہ خاتون ہوں۔ہماری شادی کو دو سال ہو چکے ہیں۔ایک بیٹا ہے لیکن شوہر ملازمت کرنا ہی نہیں چاہتے۔آئے دن ملازمت چھوڑ کر بیٹھ جاتے ہیں ،ان حالات سے مجبور ہو کر میں نے گھر سے باہر قدم نکالا۔
سسرال میں جوائنٹ فیملی سسٹم ہے ۔فی الحال اخراجات کا اتنا کوئی مسئلہ نہیں ہے تاہم کب تک کوئی ہماری مدد کرے گا اور پھر مجھے خود بھی اچھا نہیں لگتاکہ چھوٹی چھوٹی چیزوں کے لیے سسرال والوں کے آگے ہاتھ پھیلاؤں۔سب کو معلوم ہے کہ پرائیویٹ سکول میں تنخواہ بہت کم ہوتی ہے لیکن بچے کے چھوٹے موٹے اخراجات کے لیے میں کسی کی محتاج نہیں رہتی۔
بیگم شوکت اپنا بوتیک چلا رہی ہیں اور ساتھ ہی گھر داری بھی دیکھتی ہیں۔
ان کے پانچ بچے ہیں تین بیٹیاں اور دو بیٹے۔انہوں نے ماسٹرز کیا ہے۔سب بچے اعلیٰ تعلیم حاصل کررہے ہیں۔چھوٹی بیٹی انٹر کر چکی ہے۔وہ کہتی ہیں کہ الحمد اللہ!میری بڑی بیٹی نے ماس کام میں ایم اے کیا ہے۔اس کو گھر داری اور مہمان داری کا شعور ہے۔رشتوں کی پہچان ہے۔بیٹی کو مقامی چینل سے ملازمت کی آفر آئی تو نائٹ شفٹ کی وجہ سے میں نے سختی سے منع کردیا حالانکہ ادارے سے پک اینڈ ڈراپ کی سہولت دی جارہی تھی۔
اس کی شادی طے ہو چکی ہے۔ادھر سے بھی اعتراض نہیں تھا مگر میں نے کہا کہ ایک لڑکی کے لیے رات کو نکلنا مناسب نہیں۔اب وہ گھرپر ٹیوشن پڑھاتی ہے۔میری بات مان گئی مگر مذاق میں کہتی ہے کہ امی آپ تو میری ساس بن گئی ہیں۔
میری پوری کوشش ہے کہ بیٹی توازن رکھے۔معاش کا بوجھ اس پر نہ پڑے،یہ میری دعا ہے۔لیکن بعض اوقات مجبوراً خواتین کو باہر نکلنا پڑتاہے ۔
مجھے ہی دیکھیے،جب میرے شوہر کا کاروبار نہیں چلا ،تو مجھے ان کی مددکرنا پڑی۔مگر میں نے گھر کے نزدیک ہی بوتیک کھول رکھا ہے۔نمرا پانچ سال سے مقامی یو نیورسٹی میں لیکچرار ہیں۔ان کی دو بڑی بہنوں کی شادی ہو چکی اور وہ گھر داری کرتی ہیں۔نمرا سے چھوٹی بہن ماسٹرز کر رہی ہے۔ایک بھائی ہے۔نمرا اس موضوع کو زیر بحث لانے پر دلچسپی سے کچھ اس طرح گویا ہوئیں:
ماضی کی گرہستن تواب نہیں آئے گی سوائے اس کے کہ بیویاں چھوٹے بچوں کی وجہ سے باہر نہ نکل سکیں مگر پروفیشنل تعلیم حاصل کی ہے تو کام کرنا چاہیے۔
گھر داری بھی لازمی ہے لہٰذا درمیان کا راستہ اختیار کرنامناسب ہے۔تعلیم راہیں کھولتی ہے بند نہیں کرتی۔گھر بھی سب کے لیے یکساں اہم ہے۔اس لیے ملازمت پیشہ ہونے کے باوجود عورت کو گرہستن ہونا چاہیے۔ہمارے معاشرے میں ایک صورتحال یہ ہے کہ مرد اور عورت اگر دونوں ہی کام کررہے ہیں تب بھی مرد اپنی عورت پر بے جا حکم چلاتے ہیں۔یہ سراسر غلط ہے۔
کفالت کا بار عورت پر نہیں ہے پھر بھی وہ بوجھ اٹھائے ہوئے ہے۔مکمل گرہستن پر بھی مرد آمرانہ انداز میں حکم چلانا زیب نہیں دیتا۔وہ کہتی ہیں میں گھر داری میں پوری دلچسپی لیتی ہوں۔وقت ملے تو سبھی کام کرتی ہوں۔میری والدہ نے انٹر کے بعد مجھے سلائی سکھائی اور گھرداری بھی۔چھٹیوں میں کپڑے تک گھر میں سیتی ہوں۔ویسے پیشہ ورانہ زندگی عورت کی انتظامی صلاحیتوں کو نکھارتی ہے۔
پروفیشنل عورت کے لیے گھر بھی بہت اہم ہے۔جیسا میں نے پہلے کہا،مرد کا تعاون اور اعتراف عورت کے لیے بہت اہم ہے۔چاہے وہ بھائی ہوں،شوہر اور باپ یا بیٹا۔ساتھ یہ بھی کہوں گی کہ عورت فطرت سے نہیں لڑسکتی۔وہ بہر حال قدرتی طور پر کمزور ہے۔کھانا گھر کا ہی ہونا چاہیے،یہ بات اہم ہے۔دھان پان سی رمشا کی امی ڈاکٹر ہیں۔رضا کا رانہ کام،گھرداری اور ملازمت کے اوقات بٹے ہوئے ہیں۔
رمشا کی پڑھائی کی وجہ سے ماسی کی سہولت رکھنی پڑی کہ وہ شام پانچ بجے واپس آتی ہے۔پھر سخت پڑھائی میں گھر کے کام کیسے کرے․․․․؟آئیے پڑھتے ہیں کہ رمشانے کیا جوابات دیے۔
جو لڑکی پیشہ ورانہ تعلیم حاصل کر لے،وہ پھر مکمل طور پر گھر گر ہستن نہیں بن سکتی۔بلکہ اب مکمل گرہستن خواتین میں خال خال نظر آتی ہیں۔گھروں کی ٹوٹ پھوٹ میاں بیوی میں اعتماد کی کمی اور آپس میں عدم تعاون سے ہوتی ہے۔
جب معلوم ہے کہ لڑکی نے پروفیشنل تعلیم حاصل کی ،تو اس بات کے لیے بھی تیار ہونا چاہیے کہ وہ کام یا کاروبار کر سکتی ہے۔وہ کہتی ہیں کہ وقت نہ ملنے کی وجہ سے گھر داری میں کم دلچسپی لیتی ہوں۔میری امی ماسی کے ساتھ گھریلو امور نمٹاتی اور کلینک بھی کرتی ہیں۔ماسی مستحق بے سہارا خاتون ہے جسے چار بچے پروان چڑھانے ہیں۔(رمشا کا نکاح ہو چکا اور ہاؤس جاب کے بعد رخصتی ہے،ان شاء اللہ۔
وہ کچھ وقت اپنے پروفیشن اور کچھ گھر کو دینے کا ارادہ رکھتی ہیں۔)
آج کے دور میں گھریلو کام نمٹانے کی خاطر مشینیں ہونا تو بہت ضروری ہیں اور ماسی بھی ،مگر میں کھانا بنانا سیکھوں گی۔بازار کا کھانا مضر صحت ہے۔گرہستن تھوڑی بہت ضرور بنوں گی کیونکہ اسی طرح خوشگوار گھریلو ماحول جنم لیتاہے۔ثمینہ کا کہنا ہے کہ میرے خیال میں اب مکمل گرہستن واپس نہیں آئے گی۔
اس کی ایک وجہ مہنگائی بھی ہے۔پہلے آسمان سے باتیں کرتی تھی اب آسمان گرارہی ہے۔یوٹیلیٹی بلز،موبائل اور تعلیمی اخراجات بہت بڑھ چکے ہیں۔ویسے مرد عورت کا کفیل ہے اور اسے سارے اخراجات برداشت کرنا چاہئیں۔جب وہ برداشت نہ کر سکے تو مجبوراً خاتون کو بھی اس کا ہاتھ بٹانا پڑتاہے۔وہ کہتی ہیں کہ گھر داری میں دلچسپی لینا چاہتی ہوں مگر وقت کہاں مل پاتا ہے․․․․؟پروفیشنل ہونا کئی خواتین کی مجبوری بن چکا ۔
اگرمعاشی طور پر میرے شوہر مضبوط ہو جائیں تو میں ملازمت چھوڑ دوں گی۔عورت اگر ملازمت کرے ،تو گھریلو کاموں کے لیے مدد گار کی ضرورت لازماً ہوتی ہے۔مردوں کے لیے میرا یہی پیغام ہے کہ وہ اپنی خواتین کو عزت دیں۔
بڑھتے اخراجات پورے کرنے کی خاطر ان خواتین کو گھر سے باہر نکلنا پڑا۔زمانے کے بدلتے تقاضے دیکھتے ہوئے اس امر میں قباحت بھی نظر نہیں آتی،لیکن ایک بات یہ بھی ہے کہ ہم نے بہت سے غیر ضروری اخراجات اپنے سر پر سوار کر لیے ہیں۔اس کی وجہ قناعت اور سادگی ترک کر دینا ہے۔میاں بیوی اگر سادہ زندگی اختیار کرلیں،دوسروں سے مقابلے کی دوڑ میں شریک نہ ہوں،تو اب بھی عورت گھر پررہ کر بحیثیت بیوی و ماں اپنی ذمہ داریاں بخوبی انجام دے سکتی ہے۔

Browse More Special Articles for Women

Special Special Articles for Women article for women, read "Mulazmat Aurat Ka Shouq Ya Zarorat" and dozens of other articles for women in Urdu to change the way they live life. Read interesting tips & Suggestions in UrduPoint women section.