Roshan Khayaali Ke Naaron Ne Aurton Ki Haalat Badli Na He Masharti Soch - Article No. 2006

Roshan Khayaali Ke Naaron Ne Aurton Ki Haalat Badli Na He  Masharti Soch

روشن خیالی کے نعروں نے عورتوں کی حالت بدلی نہ ہی معاشرتی سوچ - تحریر نمبر 2006

پاکستان میں روشن خیالی کے نعرے بھی لگے ،انصاف کی فراہمی کے دعوے بھی کئے گئے لیکن اگر کچھ نہیں بدلہ تو عورتوں کی حالت نہیں بدلی نہ معاشرے کی سوچ میں تبدیلی آئی

جمعرات 14 مارچ 2019

عنبرین فاطمہ
پاکستان میں روشن خیالی کے نعرے بھی لگے ،انصاف کی فراہمی کے دعوے بھی کئے گئے لیکن اگر کچھ نہیں بدلہ تو عورتوں کی حالت نہیں بدلی نہ معاشرے کی سوچ میں تبدیلی آئی ۔ملالہ یوسف زئی ،شرمین عبید چنائے ،گلا لئی اسماعیل و دیگر عورتوں کو دیکھ کر کہا جا سکتا ہے کہ آج کی عورتیں پہلے سے زیادہ بہادر ہو گئی ہیں وہ اپنے حق کے لئے آواز اٹھانے کی ہمت اور جرائت رکھتی ہیں ، بہتر مستقبل کیلئے زمانے سے لڑنے کی اہلیت رکھتی ہیں لیکن بات وہیں آکر ٹھہر جاتی ہے کہ کیا آٹے میں نمک کے برابر یہ خواتین معاشرے کی سوچ کو تبدیل کر سکیں گی ؟۔

خواتین کو تحفظ دینے و الے قوانین بھی موجود ہیں لیکن ان کا عملی طور پر نفاذنہ ہونے کے برابر ہے یہی وجہ ہے کہ خواتین ان قوانین کی چھتری تلے بھی خود کو غیر محفوظ تصور کرتی ہیں ۔

(جاری ہے)

قائد اعظم نے فرمایا تھا کہ ’’کوئی قوم اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتی جب تک کہ اس قوم کے مردوں کے شانہ بشانہ عورتیں بھی ملک ترقی میں حصہ نہ لیں‘‘ یہ ہے اس انسان کا ویژن جس نے مسلمانوں کو پاکستان کی صورت میں ایک ایسا تحفہ دیا جہاں انصاف کا بول بالا ہو جہاں مرد و خواتین آزادی کے ساتھ زندگی گزار سکیں لیکن کہاں ہے وہ قائد کا پاکستان ؟کیوں عورتوں کو پورا شہری نہیں مانا جاتا کیوں ان کو ایک ادھوری چیز سمجھا جاتا ہے ؟۔

ان کے ساتھ جب کچھ غلط ہوتا ہے تو کیوں یہ مانا جاتا ہے کہ اسی کا ہی قصور ہے ؟عورتوں کے عالمی دن پر ہر سال تقریبات منعقد کی جاتی ہیں ان کے حقوق کی باتیں کی جاتی ہیں حکومتی سطح سے بھی بیانات جاری کئے جاتے ہیں ۔خواتین کے حقوق کے لئے کام کرنے والی تنظیمیں اس روز جوش و خروش سے تقریبات منعقد کرتی ہیں ان تقریبات سے کوئی تبدیلی نہیں آجاتی لیکن یہ ضرور ہے کہ ریاست اور عوام تک ایک پیغام پہنچ جاتا ہے کہ ہماری جدوجہد جاری ہے اور تب تک جاری رہے گی جب تک کہ عورتوں کے حقوق کو توتسلیم نہیں کر لیا جاتا ۔


پاکستان کا آئین جہاں ہر شہری کو تحفظ فراہم کرتا ہے وہیں خواتین کو بھی برابری کا حق بھی دیتا ہے لیکن جاگیردارانہ قبائلی کلچر اور انتہا پسند مذہبی سوچ اور فرسودہ رسم و رواج کی جڑیں ابھی تک مضبوط ہیں،آج بھی لڑکی کو پسند کی شادی کرنے پر قتل کر دیا جاتا ہے آج بھی غیر ت کے نام پر قتل ہو رہے ہیں آج بھی گھریلو تشدد کے زریعے خواتین کی آواز کو دبانے کی کوشش کی جا رہی ہے آج بھی ایسی سوچ کے لوگ موجود ہیں جو لڑکی کی پیدائش کو شرمندگی سمجھتے ہیں ،آج بھی لڑکیوں کو تعلیم حاصل کرنے سے روکا جا تا ہے ،آج بھی خاندانی دشمنی کا انتقام عورت کی بے حرمتی کر کے لیا جاتا ہے ،آج بھی پنچائتی نظام اتنا مضبوط ہے اس کے فیصلے نہ ماننے والوں کو سخت سزائیں دی جاتی ہیں ،آج بھی پنچائتی فیصلے چاہے وہ درست ہیں یا غلط ا ن کی تعمیل کرنا ضروری سمجھا جاتا ہے ،کاروکاری اور سیاہ کاری کرنا ،ونی جیسی رسمیں خواتین کی پائو ں کی بیڑیاں ہیں ،کم عمر میں بچیوں کی شادیاں کیے جانا ،یہ وہ معاملات ہیں جو صدیوں سے چلے آرہے ہیں اور ان کے خاتمے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی ۔
خواتین کے حقوق کے لئے کام کرنے والی تنظیمیں ان کے لئے آواز بلند کئے ہوئے ہیںلیکن جب تک معاشرتی رویوں میں تبدیلی نہیں آئیگی تب تک حالات جوں کے توں ہی رہیں گے ۔دوسری طرف ہم دیکھیں تو بین الاقوامی انسانی حقوق کے تمام معاہدوں پر سیڈا کو ایک اہم حیثیت حاصل ہے۔ کیونکہ یہ کنونشن دنیا کی آدھی آبادی یعنی عورتوں کے خلاف ہر قسم کے امتیاز کے خاتمے کا کنونشن ہے۔
اس کے (GRAP) Gender Reform Action Plan جس کا پاکستان Signatory ہے پھر ملینیم ڈویلپمنٹ گول (MDGs) ان تمام Universal Declaration کا مطلب ہے کہ پاکستان میں عورتیں برابر کے حقوق اور عزت کی حق دار ہوں گی۔ ان کی صحت‘ تعلیم‘ معاشی‘ معاشرتی تحفظ دینا اسٹیٹ کا فرض ہو گا۔ سوال یہ ہے کہ کیا معاہدات پر دستخط کر لینا ہی کافی ہوتا ہے ؟ آج پاکستان میں مجموعی طور پر دیکھا جائے تو عورتیں مسائل کا شکار ہیں کہیں صحت کے مسائل سے جوج رہی ہیں تو کہیں انہیں گھر کا نظام چلانے کے لئے کھیتوں میں یا گھروں میں بیٹھ کر نہایت کم معاوضے پر کام کرنا پڑتا ہے ۔
پاکستان میں ایک اندازے کے مطابق ایک کروڑ عورتیں ہیں جو اپنے خاندان کا پیٹ پالتی ہیں۔اگر ان خواتین کو منظم کرکے ایک مربوط نیٹ ورک سے منسلک کر دیا جائے، ان کے معاوضے کو بڑھایا جائے تو تقریاً ایک کروڑ خاندان معاشی خود کفالت اور خوشحالی سے ہمکنار ہو سکتے ہیں چونکہ ان عورتوں کو مزدور قوانین کا تحفظ حاصل نہیں ہے، اس لیے مڈل مین استحصال کی علامت بن کر انہیں ان کی محنت کے اصل ثمرات سے محروم کر دیتا ہے۔
اگر ہم ملک میں غربت کو کم کرنا چاہتے ہیں اور حقیقی معنوں میں سماجی و اقتصادی ترقی کا عمل وقوع پذیر ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں ان عورتوں یعنی ہوم بیسڈ ورکرز کے بارے میں ایک قومی پالیسی تشکیل دینا ہو گی جس کے تحت ان عورتوں کو بحیثیت رجسٹرڈ ورکر کے تسلیم کیا جائے۔آج بھی عورت کے ساتھ ظلم ہو رہا ہے مختاراں مائی کا کیس اس کی سب سے بڑی مثال ہے جس کے ساتھ ساری دنیا کے سامنے ظلم ہوا لیکن مجرم طبقہ بااثر تھا اس لئے مختاراں مائی کو انصاف ہی نہ مل سکا ۔
یہی وجہ ہے کہ عورتیں عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹانے سے گھبراتی ہیں انہیںمعلوم ہے کہ انصاف کی تکڑی میں ان کا پلڑا ہلکا مانا جائیگا ۔کہنے کو ہم اکیسویں صدی میں داخل ہو چکے ہیں لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ آج بھی پدر سری نظام سے پاکستانی معاشرہ جڑا ہوا ہے جس کی وجہ سے حکومتی افراد بیوروکریٹ‘ پولیس‘ جج‘ سیاستدان صنفی مسائل کے حوالے سے باشعور نہیں ہیں۔
فرسودہ رسم ورواج آج بھی خواتین کی پائوں کی بڑیاں بنے ہوئے ہیں ۔جو خواتین اسمبلیوں میں جا کر بیٹھی ہیں ان کی کارکردگی بھی مجموعی طور پر مایوس کن ہی ہے وہ عام طبقے کی خاتون کے لئے اس طرح سے موئژ آواز بن کر سامنے نہیں آسکیں جس طرح سے ان سے توقع کی جا رہی تھی ۔پاکستانی خواتین اپنی مدد آپ کے تحت بین الاقوامی سطح پر نام مقام بنا بھی رہی ہیں تو ان کی تعداد آٹے میںنمک کے برابر ہے ،مجموعی طور پر ہماری عورتیں عالمی سطح اور جنوبی ایشیاء کے مقابلے میں ابھی بہت پیچھے ہیں۔
اس کی وجہ معاشرتی رویہ ہے جو خواتین کے کام کے صلہ اور حیثیت کو کم کرتے ہیں عام طور پر خواتین کے کام کو گِنا ہی نہیں جاتا،بین الاقوامی سطح پر پاکستان کا نام روشن کرنے والی خواتین لیڈرز ہیں اور لیڈر ہمیشہ تعداد میں کم ہوتے ہیں یہ لیڈرز /عورتیں پاکستان کی عورت کے لئے راستے کھول رہی ہیں ان کے لئے مثال بن رہی ہیں ان کی بھی حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے ۔
دیہات میں خواتین مردوں کے مقابلے میں 70 فیصد زیادہ کام کرتی ہیں۔ اسکے علاوہ شہروں میں بے شمار خواتین غیر روایتی شعبوں میں کام کرتی ہیں مگر انکے کام کو قومی آمدنی میں شمار نہیں کیا جاتا۔ عورت کو ہر مہذب معاشرے میں عزت کا مقام دیا گیا ہے۔ مگر جو عزت اسلام نے عورت کے بارے میں بتائی ہے۔ باقی دنیا اس کو ابھی سمجھ ہی نہیں سکی ہے۔ عورت ماں کے روپ میں ہے تو اولاد کے لیے جنت کا دروازہ ہے۔
عورت بیٹی ہے تو رحمت ہے۔ عورت بیوی ہے تو آنکھوں کی ٹھنڈک کہلائی گئی ہے۔ عورت بہن ہے تو بھائیوں کے لیے فخر کا سبب ہے۔ الغرض عورت ہر روپ میں عزت و اکرام کی حق دار بتائی گئی ہے۔ مگر افسوس صد افسوس کہ پاکستان جیسے اسلامی ملک میں جہاں عورت کے تحفظ کے لیے قانون تو بہت سے بن چکے ہیں لیکن آج بھی عورت خود کو غیر محفوظ ہی تصور کرتی ہے ۔یہ بات کب سمجھی جا ئے گی کہ عورت کو حق دینا اصل میں سماج کو حق دینا ہے ۔

Browse More Special Articles for Women

Special Special Articles for Women article for women, read "Roshan Khayaali Ke Naaron Ne Aurton Ki Haalat Badli Na He Masharti Soch" and dozens of other articles for women in Urdu to change the way they live life. Read interesting tips & Suggestions in UrduPoint women section.