کاروان علم فاؤنڈیشن: معذوروں اور بے وسیلہ طلبہ کا سہارا

Karwan Ilm Foundation: Mazoron Aur Bhi Waseela Talba Ka Sahara

Shahid Nazir Chaudhry شاہد نذیر چودھری منگل 5 مئی 2020

Karwan Ilm Foundation: Mazoron Aur Bhi Waseela Talba Ka Sahara
 جس دور میں ہم زندہ ہیں وہاں ہمیں ایٹم بموں‘ کیمیکل بموں اور ڈرٹی بموں کے ڈھیر تو نظر آتے ہیں‘ گندم‘ چاول‘ جو‘ آلو اور کھانے پینے کی دوسری چیزوں کا کوئی ایسا ڈھیر نظر نہیں آتا‘ جو غریبوں کی بھوک مٹا سکے۔ جو خالی پیٹ کھردری چارپائیوں پر رات بھر کسمساتے جسموں کو آرام اور سکون کی نیند کا سامان فراہم کر سکے۔ ہمارے پاس غریب لوگوں کی مدد کرنے کے بہت سارے مواقع موجود ہیں۔

مختلف تنظیموں کے ساتھ رضاکارانہ طور پر کام کیا جا سکتا ہے۔ رقم سے ان کی مدد کی جا سکتی ہے۔ اضافی چیزیں جیسے کپڑے اور جوتے ان کو دیئے جا سکتے ہیں۔ انہیں اپنے کاروبار کھولنے کے سلسلے میں چھوٹے قرض دیئے جا سکتے ہیں۔ تعلیم کے حصول میں ان کی مدد تاکہ وہ آپنے آدرش پورے کر سکیں‘ اپنے خوابوں کی تعبیر تلاش کر سکیں۔

(جاری ہے)

لیکن جہاں آبادی کا ایک بڑا حصہ ان کے بارے میں نہیں سوچتا‘ وہیں کچھ لوگ‘ کچھ ادارے ان کے دکھ کو محسوس کرتے اور یہ ان سوالات کے جواب تلاش کرنے کی کوششوں میں رہتے ہیں کہ ان کے حوالے سے ہماری کیا ذمہ داری ہے؟ کیا ہمیں ان کی مدد کرنی چاہئے؟ اور یہ کہ ہم ان کی کس طرح مدد کر سکتے ہیں؟

کاروان علم فاؤنڈیشن ایسا ہی ایک ادارہ ہے جس کا مقصد تعلیمی لحاظ سے لائق لیکن اعلیٰ تعلیم کے لئے وسائل نہ رکھنے والے طلبہ کی مالی مدد کرنا ہے تاکہ وہ اپنے خوابوں کو تعبیر بخشنے کے قابل ہو سکیں۔

جہاں پہنچنا چاہتے ہیں‘ وہاں پہنچ جائیں اور پیشہ ورانہ لحاظ سے زندگی میں جو بننا چاہتے ہیں‘ وہ بن جائیں۔ یہ ادارہ بلا تقسیم رنگ و نسل پورے پاکستان‘ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے طلبا و طالبات کو خالصاً میرٹ پرا سکالرشپ فراہم کرتا ہے۔ چنانچہ کاروانِ علم فاؤنڈیشن کے ا سکالرشپ پر پیشہ ورانہ اور اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے طلبا و طالبات آپ کو خضدار کی یونیورسٹی میں مل جائیں گے اور آزادکشمیر کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں بھی۔

اسی طرح گلگت بلتستان کے پسماندہ دیہات سے تعلق رکھنے والے طلبہ بھی اسکالرشپ پر ملک کے اہم تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں تو ایک اچھی خاصی بڑی تعداد کا تعلق جنوبی پنجاب سے بھی ہو گا‘ جسے ایک پس ماندہ علاقہ گردانا جاتا ہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہر علاقے سے طلبا و طالبات اس ادارے سے مستفید ہو رہے ہیں۔ جب بھی اس ادارے کی کارکردگی سے آگاہی ہوئی ایک دلی اطمینان ہوا۔

ا سکالرشپ فراہم کرنے کا طریقہ کار بھی انتہائی قابل تعریف ہے ہر طالب علم کی ضروریات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے سالانہ فیس، کرایہ ہاسٹل، ماہوار خرچ طعام، آمد و رفت، کتب، علاج معالجے کی مد میں اسکالرشپ فراہم کیا جاتا ہے۔ اس طرح یہ ادارہ صحیح معنوں میں ایک مستحکم، خوشحال اور پُرامن پاکستان کی تشکیل میں عملی کردار ادا کر رہا ہے۔ کاروان علم فاؤنڈیشن کس طرح بجھے ہوئے چراغوں کو روشن کر رہا ہے‘ اس کا اندازہ آپ کو محمد رفیق بھٹی کی داستان سن کر ہو جائے گا۔

 
محمد جواد بھٹی نے شجاع آباد کے ایک سفید پوش گھرانے میں آنکھ کھولی۔ اس کے والد صاحب مکان تعمیر کرنے والے مستری کے ساتھ بطور مزدور کام کرتے تھے۔ تین سال کی عمر میں جواد بھٹی کی دونوں ٹانگیں مردہ ہو گئیں۔ وہ پولیو کا شکار ہو چکا تھا۔ غریب باپ نے مقدور بھر اس کا علاج معالجہ کرایا لیکن پولیو کا مریض کب ٹھیک ہوتا ہے۔

ٹانگوں سے معذوری کی بنا پر اس کو سکول داخل کرانا ممکن نہ تھا۔ والدین کا خیال تھا کہ چند سال بعد اسے کسی درزی کا شاگرد بنا دیا جائے تاکہ وہ اپنا روزگار کما نے کے قابل بن جائے‘ لیکن جواد نے ضد شروع کر دی کہ وہ پڑھنا چاہتا ہے۔ کافی سوچ بچار کے بعد اسے ایک مقامی نجی سکول میں داخل کروا دیا گیا۔ اس کی دونوں ٹانگوں کے نیچے ٹرک کے ٹائر کی ٹیوب کاٹ کر باندھ دی گئی۔

صبح اس کے والد سائیکل پر اسے سکول چھوڑ جاتے‘ تاہم واپس گھر اسے رینگتے ہوئے آنا پڑتا۔ نجی سکول کے پرنسپل نے اسے ہر ممکن سہولت فراہم کی۔ اور ہر طرح سے اس کے ساتھ تعاون کیا۔ آٹھویں کلاس پاس کرکے وہ نویں کلاس میں آیا تو اسے گورنمنٹ ہائی سکول شجاع آباد میں داخل کروا دیا گیا۔ وہاں اساتذہ نے اس پر خصوصی توجہ دی اور اسے بلا معاوضہ اضافی وقت میں بھی پڑھایا۔

اس نے میٹرک کا امتحان اعلیٰ نمبروں میں پاس کیا تو سکول انتظامیہ نے اس کامیابی پر شہر بھر میں بینرز لگوائے۔ اس کے دوست ایف ایس سی کی تعلیم کے لیے گورنمنٹ کالج بوسن روڈ ملتان میں داخلہ لینا چاہتے تھے‘ لیکن محمد جواد بھٹی کے گھر والے معذوری کی بنا پر اسے ملتان بھیجنے کے لیے تیار نہ تھے تاہم دوستوں نے اس کو ہر ممکن مدد دینے کا وعدہ کیا اور اسے اپنے ساتھ ملتان لے آئے۔

معذوری کی بنا پر اسے بے شمار مشکلات کا سامنا کرنا پڑا مگر دوستوں اور اساتذہ نے اس کی ہر طرح سے مدد کی۔ وہ ایف ایس سی بھی اعلیٰ نمبروں میں پاس کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ اس کے بعد اس نے ملتان کی ایک نجی اکیڈمی میں میڈیکل کالج میں انٹری ٹیسٹ کی تیاری کے لیے داخلہ لے لیا۔ اکیڈمی کی انتظامیہ نے اس کے گھریلو حالات اور معذوری کو دیکھ کر اس کی فیس معاف کر دی۔

انٹری ٹیسٹ پاس کر کے جب وہ سپیشل سٹوڈنٹ (معذور) کے کوٹے پر داخلہ کے لیے کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی میں بورڈ کے سامنے پیش ہوا تو یہ کہ کر داخلہ دینے سے انکار کر دیا گیا جو ڈاکٹر خود رینگ کر چلتا ہو وہ مریض کا علاج کیسے کرے گا؟ تاہم بورڈ میں موجود آرتھوپیڈک سرجن ڈاکٹر اویس قرنی نے اسے کہا: اگر تم چھ سات آپریشن کروانے کے لیے تیار ہو جاؤ تو تمہاری ٹانگیں کم از کم سیدھی ہو سکتی ہیں اور تم رینگنے کے بجائے بیساکھیوں پر چلنے کے قابل ہو جاؤ گے۔

محمد جواد بھٹی کے لیے لاہور میں کئی ماہ علاج کروانا ممکن نہ تھا۔ وہ نشتر میڈیکل کالج ملتان میں ڈاکٹر کامران سالک سے ملا۔ انہوں نے خصوصی اہتمام کیا‘ اسے آٹھ ماہ ہسپتال رکھا اور اس کی ٹانگوں کے چھ آپریشن کیے۔ ان تکلیف دہ حالات میں بھی وہ ثابت قدم رہا۔ میڈیکل کالج میں داخلے کے لیے اسے دوبارہ انٹری ٹیسٹ کا امتحان دینا پڑا جو اس نے آخری آپریشن کے دو ہفتوں بعد دیا۔

وہ ایک بار پھر بیساکھیوں کے سہارے میڈیکل بورڈ کے سامنے پیش ہوا تو بورڈ نے یہ کہہ کر داخلہ دینے سے انکار کر دیا کہ دو بیساکھیوں کے سہارے چلنے وال ڈاکٹر مریضوں کا علاج کیسے کرے گا۔ یہ سن کر اس کے آنسو نکل آئے تو بورڈ کے اراکین نے اسے ایک ماہ کا وقت دیتے ہوئے ایک بیساکھی کے سہارے چل کر دکھانے کی ہدایت کی۔ اس نے دن رات ایک بیساکھی کے سہارے چلنے کی مشق کی اور مقررہ تاریخ کو بورڈ کے سامنے ایک بیساکھی کے سہارے چل کر پیش ہو گیا۔

اسے علامہ اقبال میڈیکل کالج لاہور میں داخلہ دے دیا گیا۔ داخلہ فیس اور ہاسٹل کے کرایہ کے لیے اس کے والد نے اپنا کل اثاثہ یعنی دو مرلے زمین کا ٹکڑا اور ایک گائے بیچ دی۔ ایم بی بی ایس میں داخل ہوئے بمشکل چار ماہ گزرے تھے کہ رقم ختم ہو گئی۔ محمد جواد بھٹی کو اپنی ساری جدوجہد رائیگاں جاتی دکھائی دینے لگی۔ پھر ایک اس روز وہ کلاس پڑھنے نہیں گیا تھا اور ہاسٹل کے کمرے میں بیٹھ کر رو رہا تھا اور اللہ سے مدد کی دعا کر رہا تھا تو اس کا دوست کلاس پڑھ کے آیا اور پریشانی کی وجہ پوچھی تو محمد جواد بھٹی نے اسے سارا ماجرا سنا دیا۔

اس دوست نے اسے اپنی ذاتی جیب سے رکشے کا کرایہ دیا اور مستحق با صلاحیت طلبہ کو مالی مدد دینے والے ادارے کاروان علم فاؤنڈیشن میں درخواست دینے کا کہا۔ محمد جواد بھٹی کی داستان سن کر کاروان علم فاؤنڈیشن نے فوری طور پر تمام اخراجات کے لیے اسکالرشپ جاری کر دیا۔ محمد جواد بھٹی نے اس ا سکالرشپ سے ایم بی بی ایس کی تعلیم مکمل کی اور آج وہ ضلع شیخوپورہ میں ایک ہیلتھ یونٹ کے انچارج کے طور پرخدمات سرانجام دے رہا ہے۔

ایسے پتہ نہیں کتنے جواد بھٹی آپنے اپنے آردشوں‘ اپنی اپنی آرزوؤں کی تکمیل کے لئے ترس رہے ہیں اور انہیں کوئی راستہ سجھائی نہیں دیتا۔ ایک بندے کی بس کی بات نہیں کہ وہ ان ہزاروں طلبہ کی خوابوں کو تعبیر بخش سکے۔ اس کے لئے ہم سب کو مل کر کام کرنا ہو گا۔ کاروان علم فاؤنڈیشن کا ہاتھ بٹا کر آپ بھی نیکی کے اس کام میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں یہ ادارہ گز شتہ سترہ سال میں6820طلبہ و طالبات کو 177,449,015/-روپے کی اسکالرشپ جاری کرچکاہے۔

جن میں ایم بی بی ایس،انجینئرنگ،سائنس و ٹیکنالوجی،مینجمنٹ،کامرس،سوشل سائنسز اور دیگر شعبہ جات کے سیکٹروں طلبہ اعلیٰ پیشہ ورانہ تعلیم مکمل کرکے خود کفیل بن چکے ہیں۔
اس وقت کاروان علم فاؤنڈیشن کے360زیر کفالت طلبہ کے علاوہ تقریباً725مزید طلبہ کی درخواستیں زیر غور ہیں۔جنہیں مالی سال 2021-2020کے دوران اسکالرشپ جاری کرنے کے لیے تقریباً 08 کروڑ روپے درکار ہیں۔کاروان علم فاؤنڈیشن کوزکوة و عطیات ملک کے کسی بھی حصے سے میزان بنک کے اکاؤنٹ نمبر0240-0100882859 میں جمع کروا ئے جاسکتے ہیں۔چیک604 بلاک سی فیصل ٹاؤن لاہورکے پتے پر ارسال کیے جاسکتے ہیں۔ مزید تفصیلات کے لیے موبائل نمبر 0321-8461122, 03001103030پر رابطہ کیا جاسکتاہے مزید معلومات کے لیے ویب سائٹ.pk www.kif.com ملاحظہ کیجئے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا بلاگ کے لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

© جملہ حقوق بحق ادارہ اُردو پوائنٹ محفوظ ہیں۔ © www.UrduPoint.com

تازہ ترین بلاگز :