نمبر کم ہیں تو کیا ہوا،ایم بی بی ایس ڈاکٹر بننا اب مشکل نہیں

Number Kaam Hain Tu Kiya Hua

Shahid Nazir Chaudhry شاہد نذیر چودھری بدھ 30 ستمبر 2020

Number Kaam Hain Tu Kiya Hua
پاکستان میں ہر سال لاکھوں بچے  80/90 فیصد نمبر لیکر بھی میڈیکل کی تعلیم حاصل نہیں کرپاتے اور لاعلمی کی وجہ سے ایسے مضامین کا انتخاب کرلیتے ہیں جن کا آنے والے دور میں اب کوئی مستقبل نہیں ۔۔دیکھا جائے تو بچوں سے زیادہ ماں باپ ہمت ہار جاتے اور بچوں کا کیرئیر بنانے کئے دردنہیں لیتے ۔یہ نہیں سوچتے کہ آپ کی اولاد ہی آپ کا مستقبل ہے،اولاد  کا مستقبل  سنوارنا دراصل خود اپنا مستقبل  سنوارنا ہے ،کل کرغزستان سے آئے میرے ایک دوست بتا رہے تھے کہ پاکستان بھی بدلے گا اور صرف پانچ سال بعد پاکستان انتہائی ترقی کی جانب اٹھے گا ،اس لئے پاکستانیوں کو اپنی اولادوں کو ابھی سے پروفیشنل ایجوکیشن کی طرف لے آنا چاہئے۔

یہاں بہت سے میکنزم چینج ہوں گے ،بڑے ادارے اگر نہ سمجھ سکے تو وہ ڈوب جائیں گے اور چھوٹے ادارے سمجھ گئے تو اوپر آجائیں گے کیوں اگلا دور اب تعلیم ہنر اور علم کاہے ۔

(جاری ہے)

ارٹیفشل انٹیلجنس غذا سے دوا تک ہر چیز کا تصور بدل ڈالے گی۔بتانے لگے اگلے دس سالوں  میں امریکہ، برطانیہ، جرمنی،فرانس،سپین ،عرب ملکوں میں ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل سٹاف  کی اشد ضرورت ہوگی۔

ڈبلیو ایچ او  ہر ملک کے لئے ایک سٹینڈرڈ بنا رہی ہے ،لہذا وہ ملک اور لوگ زیادہ کامیاب ہوں گے جن کے گھروں میں ڈاکٹر موجود ہوں گے۔میں نے جب بتایا کہ یہ سب نظر آرہا ہے کہ مشکل دور آنے والا ہے،پاکستان میں میڈیکل کی تعلیم بہت مہنگی اور مشکل ہوچکی ہے ،پرائیویٹ میڈیکل کالجز کسی کو بھی داخلہ دینے سے پہلے پندرہ بیس لاکھ ڈونیشن لیتے ہیں ،جبکہ سال کی بارہ لاکھ فیس اس کے علاوہ ہے،پاکستان میں ایک ڈاکٹر بنانے کے لئے ایک کروڑ روپیہ خرچ ہوجاتا ہے  پانچ سال میں ۔

دوسری اہم بات یہ ہے کہ میڈیکل ڈاکٹر بننے کی تمنا رکھنے والے 60 فیصد نمبر لینے والے بچے بھی اس ملک کی یونیورسٹی میں داخلہ لے سکتے ہیں ۔پچھلے دس بارہ سال کے دوران کم از کم 5ہزار سٹوڈنٹ کرغیزستان سے میڈیکل ایجوکیشن حاصل کرکے ایم بی بی ایس ڈاکٹر بن چکے ہیں ۔
وہ بولے ،پاکستانی قوم کو یہی بات سمجھ نہیں آرہی ،اردگرد کے ملکوں میں بڑی اچھی میڈیکل تعلیم دی جارہی ہے اس لئے اپنے بچوں کو ان ملکوں میں خاص طور پر کرغیزستان کی اعلی ترین میڈیکل کالجز میں بھیجیں،کہنے لگے،جانتے ہیں وہاں ایک سال کی فیس کھانے پینے اورہاسٹل سمیت 6لاکھ تک ہوتی ہے جبکہ اب انہیں وہی کتابیں پڑھائی جاتی ہیں جہاں یہاں کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج،علامہ اقبال یا نشترمیڈیکل یونیورسٹی میں پڑھائی جاتی ہیں جبکہ پروفیسرز بھی پاکستانی ہیں ،انہیں کرغیز زبان نہیں سیکھنی پڑتی اور پورے پانچ سال میں وہ مکمل ڈاکٹر بن جاتے ہیں اور پاکستان سمیت دنیا کے کسی بھی ملک میں ان کو ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا ہے ۔

دوسری طرف چین اور رشیا میں   جانے والوں کو پہلے زبان سیکھنے اور ان کی زبان میں میڈیکل کی تعلیم لینی پڑتی ہے جس سے طالب علم دوہرے مسائل کا شکار ہوتا ہے ۔اس کے دو سال اور پیسہ ایکسٹرا لگ جاتے ہیں ۔
میں اسکی بات سن کر حیران رہ گیا ،چند ماہ پہلے ایسی رپورٹ نظر سے گذری تھی کہ انڈیااور بنگلہ دیش اپنے طالب علموں کو سنٹرل ایشیا میڈیکل تعلیم کے بھیج رہا ہے۔

انڈیا کے30 ہزار کے قریب میڈیکل سٹوڈنٹس سنٹرل ایشیا  میں پڑھ رہے ہیں جبکہ پاکستان کے 13 ہزار کے قریب میڈیکل سٹوڈنٹس وہاں موجود ہیں   ۔ادھرہم  اپنے بچوں کے ارمان دبا کر انہیں پروفیشنل ایجوکیشن دلوانے کے لئے تدبر اور ہمت سے کام نہیں لیتے۔ورنہ آج کی دنیا میں بچوں کو اب پاکستان سے باہر بھی پڑھنے کے لئے بھیجنا چاہئے کیونکہ آنے والا دور مکمل طور پر گلوبل ویلج میں بدل جائے گا ،ملکوں کی سرحدیں قائم رہیں گے مگر ضروریات سب کی ایک ہوجائیں گی۔ اولاد ہی ہمارا اثاثہ ہے اور اسکا مستقبل بچانے اور بنانے کے انہیں میڈیکل کی تعلیم دلوانے پر توجہ دینی ہوگی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا بلاگ کے لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

© جملہ حقوق بحق ادارہ اُردو پوائنٹ محفوظ ہیں۔ © www.UrduPoint.com

تازہ ترین بلاگز :