Episode 3 - Soda By Sumaira Hamed

قسط نمبر 3 - سودا - سمیرا حمید

جاوید نے سر ہلایا ”تو فکر ہی نہ کر تو باپ ضرور بنے گا میں تجھے باپ ضرور بناؤں گا۔“
سچی…؟ رشید چاند نے جاوید کی پیشانی چوم لی،کندھے پر ہمہ وقت دھرے چیک کے رومال سے آنکھیں صاف کیں اپنی۔ داڑھی نہیں تھی لیکن شیو بڑھی ہوئی تھی اسی پر لجاحت سے ہاتھ پھیرتا رہا… بائیں ہاتھ کو سینے پر باندھے رکھتا نیچے کی طرف جھکے لٹکایا ہوا سا۔ دائیں ہاتھ کو sتیز تیز چلاتا،اشارہ کرتا جیسے باتوں کے خاکے بنا رہا ہو،چال زنانہ نہ تھی بس انداز میں ہی کچھ جھک دکھائی دے جاتی۔
چند سال ہوئے وہ اپنی بنیاد چھوڑ چکا تھا۔ پہلے گاہک ڈھونڈتا تھا اب خود گاہکوں کی صف میں آکھڑا ہوا تھا۔ کرائے کے گھر میں رہتا تھا شاذہی گھر سے باہر نکلتا تھا… گز بھر لمبی زبان والے جاوید سے سبزی لیتے مڈبھیڑ ہو ہی گئی… ایک کی زبان چلی ایک کی کھلی… دونوں کی خوب بنی۔

(جاری ہے)

چند ہفتے جاوید نے نوری کو بکرے کا گوشت کھلایا،دیسی مرغیاں،دیسی انڈے،پھل،دودھ… خشک میوے لاکر دیئے نوری رات دن اس طرح کھاتی کہ مانوں پھر کچھ ملے گا ہی نہیں… اور کیا معلوم ملتا ہی نا… وہ جمع کرنے کے حق میں تھی لیکن پیٹ میں،اتنا کچھ کھا کر وہ مردانہ ڈکاریں مارتی… جاوید کھی کھی ہنستا۔
”او بس… او بس…“ ایک دو …… جڑ دیتا۔
اس رات بھی نوری ڈکاریں مارنے کی تیاری کر رہی تھی،بکرے کے گوشت کی ہڈیاں بوٹیاں چبا رہی تھی۔
”رشید کو ایک بچہ چاہئے“ جاوید ران کی بوٹی کو دانتوں سے نوچ نوچ کر ایسے کھا رہا تھا جیسے آج بکرے کی ہر نسل ختم کرکے ہی اٹھے گا آج وہ سب کھا جائے گا۔ اس سب کچھ کھا جانے کے دوران بچے والی بات اس نے ایسے کی جیسے نوری کو منڈی میں سبزیوں کے بھاؤ کے بارے میں بتایا ہو۔
”میں نے کہا میں تجھے باپ ضرور بناؤں گا۔“ اس نے انگلی سے دانت میں پھنسی بوٹی نکال کر دوبارہ چبائی۔
”تو کیسے؟ نوری گوشت کھانے میں اتنی مگن نہ ہوتی تو ذرا حیران ہو لیتی۔
”ہم ہیں نا“ اس نے دائیں آنکھ ماری۔
کسی کا بچہ اٹھا کر دے گا اسے کیا؟
”کسی کا کیوں… یہ ہے نا“ جاوید نے اس کے پھولے ہوئے پیٹ پر ہاتھ رکھا،نوری نے نان کے ٹکڑے کو پٹخا منہ میں دبی بوٹی تھوکی۔
”ہوش میں ہے تو جاوید؟“
”تجھ سے زیادہ ہی ہوش والا ہوں۔“
”کسے دینے کی بات کر رہا ہے تو؟“
”اپنے بچے کو؟؟“
”کون سے تیرے بچے ہیں جنہیں تو دے گا؟؟“
”یہ جو تیرے پیٹ میں ہے“ وہ بھلا مانس بکرے کی نسل کے در پر تھا نوری بھڑکی جا رہی تھی۔
”کُتی سمجھا ہے مجھے کہ بچے جنتی جاؤں اور تو اٹھا کر دے دے“
”نوری“ جاوید دھاڑا۔
”تیرا ہے یہ بچہ؟ تیرا اکیلی کا ہے؟ میرا ہے یہ بچہ…“
”تو اپنے پیٹ میں رکھتا نا“
الٹے ہاتھ کا تھپڑ پڑا نوری کے گال پر وہ بھڑک کر اٹھ کھڑی ہوئی“ کتے تو نے مجھے مارا؟؟
”ہاں مارا اور ماروں گا… سمجھتی نہیں،اگر تیرا باپ ڈھونڈتا آ گیا ہمیں تو تیرے وہ بھائی تو ہمیں دیکھتے ہی مار دیں گے۔“
تو؟ نوری پھنکاری۔
اری او پاگل نہ سر چھپانے کیلئے جگہ ہے نہ جی داری کیلئے روپیہ،میں نے تیرا ساتھ نبھایا کہ نہیں؟ تجھے بھگا لایا ورنہ تیرا باپ تو اس کتے کی شکل والے سے تیرا رشتہ کر رہا تھا“ تو؟ نوری کی آواز کی لے نہیں بدلی۔
”تو کی بچی،نالی سے بھی گندے گھر میں سڑ رہے ہیں گھر بدل لیں گے،بڑے شہر چلے جائیں گے رشید پورے پانچ لاکھ دے رہا ہے۔“
تازہ تازہ بکرے کا گوشت کھائی نوری حیرت سے گم سم ہو گئی آنکھیں کھل کر پھیل گئیں۔
پانچ لاکھ؟؟ نوری نے سوال کیا۔ جاوید دلیر ہوا
”جی ہاں جی پانچ لاکھ“ جاوید نے دیدے مٹکائے گاؤں میں تیری میری کرنے والی عورتوں کی طرح۔
”اور یہ سارے پھل فروٹ بھی وہی لا رہا ہے۔ یہ گوشت اور باڑے کا خالص دودھ… تو کیا سمجھی وہ مجھے یارانے میں کھلا رہا ہے؟“
نوری سوچ میں غرق ہو گئی۔
”وہ آدمی ٹھیک نہیں ہے۔“
”بڑا نیک ہے وہ“
رشید جاوید کو سب صاف صاف بتا چکا تھا،رہی نیک ہونے کی بات وہ تھا یا نہیں لیکن پانچ لاکھ میں اسے نیک بنا دینے میں جاوید کا کیا جاتا تھا۔
”بہت بھلا مانس ہے سچی“
”میں کیوں دوں اپنا بچہ؟؟“
”پھر وہی بات کی… اپنا اکیلی کا نہ بول میرا بھی ہے۔ پگلی،بات سمجھتی ہی نہیں یتیم خانے والے تو اسے گھسنے بھی نہ دیں بچے کیلئے بتا رہا تھا ایک دو جگہ گیا تھا،بہت گھن چکر بنا بے چارہ ایک تو پیسے لے کر بھاگ گئی،دو چار اور دھوکے ہوئے،کہتا ہے کسی ماں کی آہیں نہیں لوں گا۔
 ہاں جو ماں خوشی سے اس کی گود میں ڈال دے ورنہ ہزار بچے اسے… ادھر ادھر کسی کا بچہ نہ اٹھا لیتا… سمجھتی ہی نہیں،بڑا دکھی ہے نوری… کہہ رہا تھا اسے پڑھائے گا لکھائے گا ڈاکٹر بنائے گا،لڑکی نہیں مانگ رہا،لڑکا چاہیے،پائی پائی جمع کر کے رکھی ہے اس کیلئے،گھر بند کئے روتا تڑپتا رہتا ہے۔ بہت بھلا ہے ہزاروں مزاروں پر جاتا ہے،چادریں چڑھاتا ہے،اس دن اذان ہو رہی تھی بولا جاوید چپ کر جا اذان کے وقت نہیں بولتے۔
اب خود دیکھ لے کتنا نیک ہے۔ بڑا دلارا ہے قسم سے کیا تو اور میں ایسے نیک ہیں؟ تو نے تو کبھی خود نماز نہیں پڑھی پھر پیسے والا بھی ہے اچھی طرح سے بچہ پالے گا… شہزادوں کی طرح رکھے گا۔ تڑپ اٹھتا ہوں میں اس کے دکھ سن کر،انسان ہوں میں بھی رونا آتا ہے اس کا حال سن کر…“
جس وقت رشید جاوید کے ہاتھوں نیک ثابت کیا جا رہا تھا ٹھیک اسی وقت رشید ہاتھ جوڑے دربار میں کھڑا تھا۔
پہلے اس نے چادر چڑھائی پھر اس نے پھول پھینکے پھر اس نے تبرک تقسیم کیا اور پھر ہاتھ جوڑ کر ایک ٹانگ پر کھڑا ہونے جیسا ہو گیا اور گھنٹوں کھڑا ہی رہا وہ ظاہر کے کس حال میں ہے یہ خیال جاتا رہا وہ باطن کے جس ہیر پھیر میں تھا یہی احساس غالب رہا۔
”میری بھی تو آس کوکھ خالی ہے“
ہر خواہش ایک کوکھ ہوتی ہے صدیوں بانجھ رہنے والی عورت کی کوکھ جو زمین و آسمان ہلا دینا چاہتی ہے لیکن کوکھ کو بھر لینا چاہتی ہے یہی کوکھ ہر انسان کے اندر اپنی اپنی شکل میں کروڑوں بار جنم لیتی ہے سب اشکال جدا تو رشید کی بھی جدا…
”کورا کھوکھلا مرد ہوں تو کیا،چاند ہوں تو کیا… ٹیسیں اٹھتی ہیں،ان ٹیسوں کو سرور دلانے کا من کرتا ہے،سینے سے لگانے کا۔
میاں کی میں نہیں کرنے والا… میری کون کرے گا؟ میری بھی کوئی نہ کرے… لہر میں جھوم جانا چاہتا ہوں…“ وہ سسکنے لگا وہ جھوٹ بول رہا تھا۔
اس کے پاس کوئی بڑی دلیل نہیں تھی خدا کو دینے کیلئے،ایسی دلیل جسے التجا میں شامل کیا جاتا کہ التجا پُراثر بن جائے،یکدم اس نے ہر دلیل کو پرے پھینکا۔
”کچھ اور مانگا تو منہ کالا ہو میرا،مسجد بھیجوں گا اسے داڑھی رکھے گا حاجی بنے گا قسم پنج تن پاک کی،واسطہ ہے پیر و مرشد کی… اسے اپنی راہ ضرور بنا رہا ہوں پر اس پر جان نثار کر دونگا… اسے تیری راہ والا بنا دونگا… قرآن کھول کھول کر پڑھے گا…“
وقت گزرتا رہا رشید وہیں ہاتھ جوڑے کھڑا رہا وہ ہاتھ جوڑے کھڑا تھا ہاتھ پھیلائے نہیں وہ مانگ نہیں رہا تھا وہ التجا کر رہا تھا حق سے مانگنے اور التجا میں بہت فرق ہے یہ فرق بہت خاص ہے۔
دعا بہت بڑا مان ہوتی ہے رشید نے خود کو اس مان کے قابل نہ سمجھا،گاہکوں کے ساتھ بھاؤ تاؤ کرنے والے نے خود کو اس مان کے قابل نہ سمجھا۔ کوئی دیکھ لے اور پوچھ بیٹھے کہ اتنی دیر سے بت بنے کس جوگ کا روگ لئے کھڑے ہو تو؟ رشید کیا بتائے کہ ”ماں بننا چاہتا ہوں اور باپ بھی… دل کا ارمان ہے سینے سے لگا کر رکھنا چاہتا ہوں… شادی کے قابل نہیں،باپ بن نہیں سکتا پھر بھی بچہ چاہتا ہوں۔
چند سال ہوئے اس نے لاہوری کوٹھا چھوڑا تھا۔ بڑا گھاک دلال تھا رشید چاند… گاہکوں کو ایسے گھیرتا جیسے گڑ آپو آپ مکھیاں گھیر لیتا ہے… تازہ تازہ پر پرزے نکالتے اس کا جھوٹا پانی پیتے اس کے ہاتھ سے نمک چاٹتے،نائیکہ بھر بھر بنک میں پیسے رکھواتی رشید چاند کی بلائیں لیتی۔
اب رشید کے کانوں میں اسی نائیکہ کی بیٹھی بیٹھی پھٹی ہوئی آواز گونجتی تھی،گاہکوں کی بھرمار اور ایسی باتیں جو وہ سن چکا تھا اور کہہ چکا تھا اور جو ان کیلئے کہنی سنی جائز اور دوسروں کیلئے غلیظ ترین گردانی جاتی تھیں اسے ہر پل سنائی دیتیں۔
گھوم گھوم کوٹھا اس کے سر پر سوار ہوتا بازاریوں کی بازاری اندر باہر ہونے لگتی… اسے کوئی چاہئے تھا کہ اسے اس بازار سے نکال لاتا… اتنا پاگل بھی نہیں ہو گیا تھا لیکن بہت کچھ بدل گیا تھا،زندگی بھر دلالی سے لگا رہا اب خواہش سے لگ گیا تھا جو کام نہیں کیا تھا اب وہ کرنا چاہتا تھا اولاد والا بننا چاہتا تھا۔
رات دن گھر میں بند رہتا،اٹھ جاتا تو معلق ہو جاتا،سو جاتا تو کھو جاتا،ہوش میں آتا تو رونے لگتا اس کا حال برا تھا برے حال سے ہی زندہ تھا۔

Chapters / Baab of Soda By Sumaira Hamed