Episode 21 - Soda By Sumaira Hamed

قسط نمبر 21 - سودا - سمیرا حمید

درو دیوار پر اس آواز کے گھڑیال لٹک گئے… اس کے سر پر تن گئے… اب تو بخش دیتی گوری اسے… پر گوری نے ذرا رحم نہ کھایا… بت بنی نوری کے گرد گول گول نچانے لگی… تالی بجانے لگی… آنکھیں مٹکانے لگی نوری تھر تھر کانپنے لگی۔
”اے بی بی…“ ساتھ والے کے ساتھ والی عورت اس کا کندھا ہلا رہی تھی… بی بی کے حواس کام نہیں کر رہے تھے۔
بی بی یہ پانی پی لے… تھوڑی دیر کو بیٹھ جا،دیکھ کیا حالت ہو رہی ہے تیری… یہ پانی پی لے…“
نوری نے سنا ہی نہیں… اسے صرف رشید کو سننا تھا۔
رشید آنکھیں کھولنے،زبان کو حرکت دینے کیلئے تیار نہیں تھا۔ اسے وہاں کھڑے شام سے رات ہو گئی اور پھر رات گزرنے لگی۔ وہ کھڑی رہی،ایک ہی انداز،ایک ہی التجا کو لئے… کہ رشید اس کی طرف کب متوجہ ہوگا… رشید جس کے پاس اس کا بہت کچھ تھا۔

(جاری ہے)

وہ رشید کے ہونٹوں کی جنبش کی منتظر تھی۔ اس کی سانسوں کی آمدورفت کوگن رہی تھی… اس کے شانوں پر دباؤ ڈال کر عورت نے اُسے بیڈ کے پاس رکھے لکڑی کے بنچ پر بیٹھا دیا وہ اکڑوں بیٹھ گئی۔

ایک آنکھ رشید پر ایک آنکھ کہیں پیچھے…
”کبھی کبھی مجھے منا بہت یاد آتا ہے“ ایک رات وہ کہنے لگی۔
کون منا؟ جاوید کمال کا انسان تھا۔
”ہمارا منا“
جاوید نے سانس لی بدمزا سی سانس،نوری جان گئی۔
”تو نے اسے رشید دلال کو دے دیا نا“
جاوید کا جی چاہا نوری کو زمین پر پٹخ دے۔“ سو جا اب“
”اب تو بولنے لگا ہوگا… بھاگنا دوڑتا ہوگا…“
”ہماری بلا سے وہ کچھ بھی کرے۔
نانا دادا کی نشانیاں بیچ کر کھا جانے والا کن کن بلاؤں کی فکر کرتا۔جاوید نے جواب نہ دیا اور سوتا بنا… نوری بھی سونے لگی۔ ایسی بھول چوک سے آنے والی یادوں کو وہ بڑے طریقے سے نکال باہر کرنے لگی تھی۔ اب سارے طریقے بھلائے جامد ہوئی بیٹھی تھی۔
جاوید اسے زیور دلانے لایا تھا… بندے لے کر دیئے تھے… اٹھتے اٹھتے نوری کو کڑے پسند آ گئے… سارہ کے بعد کا قصہ تھا… وہ لاہور کے بڑے بازار میں خریداری کرنے آئے تھے۔
”میرے پاس ابھی اتنے پیسے نہیں ہیں نوری“ جاوید نے پیار سے جھڑکا۔
”تیرے پاس ہیں تو مجھے کڑے لے کر دینا نہیں چاہتا،تو چاہتا ہے کہ میں ایسے ہی بنا زیور کے گزارا کر لوں۔“
ابھی بندے لے لے کڑے پھر سہی…
”پھر کب“ نوری چلا کر بولی۔
”اگلے …“ جاوید نے جھٹ زبان پکڑی” کاروبار میں منافع ہونے دے… پھر“ وہ ہکلا گیا گڑبڑا گیا۔
بھرے بازار میں جیسے جاوید نے اس کے طمانچہ دے مارا ہو،وہ غصے سے سرخ ہو گئی کڑوں سے نفرت ہو گئی،بندے اس نے کئی مہینے پہن کر نہ دیکھے…
پھر؟؟
”پھر اس نے کڑے بھی جا کر لے لئے اور بندے بھی پہن لئے۔“
پسینے اور آنسوؤں سے وہ بھیگ گئی لٹی ایسے بیٹھی تھی جیسے سیدھی یہیں اتاری گئی ہو عین رشید کے سرہانے… صرف بچہ لینے۔
گھر سوتا جاوید یہ سمجھا کہ وہ گاؤں اپنی اماں کے ساتھ چلی گئی ہوگی۔
سب غلط ہی سمجھ رہے تھے۔ کوئی ٹھیک نہ سمجھا کہ نوری اب اپنے اصل ٹھکانے پر تھی۔
رات کے آخری پہر رشید کے ہونٹ لرزے،نرس اسے کہہ گئی تھی کہ اس میں کوئی حرکت ہو تو اسے آکر بتائے،ایک بار آکر وہ چیک کر گئی تھی۔ لیکن بے ایمان نوری تن کر بیٹھ گئی نرس کے پاس نہ گئی اپنے بچوں کیلئے اب وہ ہر بے ایمانی کرنے کیلئے تیار تھی۔
رشید کے ہونٹ پھڑ پھڑا کروا ہوئے۔
نوری جھٹ قریب ہوئی۔ کانپتی ہوئی،ہکلاتی اور حواس گم کرتی ہوئی۔
رشید بھائی… میرا بچہ… کہاں ہے“
رشید بھائی نے اگر سن بھی لیا تو جواب نہ دے سکا نہ آنکھیں کھول سکا۔ وہ اسی ایک جملے کی تسیح پڑھتی رہی رشید کے کان میں،رشید میں کوئی اور حرکت دے کر نہ ہوئی،نوری نے اس کا بازو ہلانا شروع کر دیا۔
”بی بی کیوں اوہدی جان دے پیچھے پئی اے؟ عورت تڑخ کر بولی… نوری کیوں سنتی اس کی… وہ کیا جانے… رشید جان کنی کے عذاب سے گزر رہا تھا۔
انگلی کی پور بھی بھاری تھی اس پر،بازو ہلائے جانے پر کراہنے لگا… اس کے اعضاء سکڑنے سمٹنے لگے ہونٹ وا ہوئے… بھنویں ہلی… پیشانی پر بل آئے کرب سے… سارا جسم کراہ بن گیا۔
رشید نے کچھ کہا… جانے کیا کہا… ہر عضو سے کان بنی نوری سن نہ سکی… الفاظ مڑتڑ کر نکلے… نوری نے اور شدت سے بازو ہلایا۔
بولو کیا کہا… کچھ تو بولو… کیا ہوا تمہیں؟ کہاں ہے میرا بچہ… ٹھیک ہے نا وہ کس کے پاس ہے… کس کے پاس چھوڑا ہے اسے… رشید بھائی مجھ پر رحم کرو… بتاؤ مجھے… میں نے تم پر ترس کھا کر دیا تھا… تم بھی ترس کھا لو مجھ پر… ایک بار تو ضرور ملونگی اس سے…“ اس کے کان کے قریب منہ لے جا کر وہ کہتی ہی رہی۔
بہت دیر گزری رشید نے دونوں آنکھیں کھولیں۔ خون رنگ آنکھیں،پتلیاں بھی نظر نہیں آ رہی تھیں… نوری جھٹ منہ اور سامنے لے گئی۔ گردن گھما کر وارڈ سے باہر بنے کاؤنٹر کی طرف بھی دیکھا وہ نہیں چاہتی تھی کہ کوئی نرس اس کے سر پر آ جائے۔
رشید نے نوری کی طرف دیکھا لیکن صاف نظر آ رہا تھا کہ اسے کچھ دکھائی نہیں دے رہا… دے بھی رہا ہے تو بے حد دھندلا۔
”میرا بچہ کہاں ہے؟ نوری کی آواز ذرا بلند ہوئی رشید نے جیسے ایک آخری بار دنیا دیکھنے کیلئے آنکھیں کھولیں… نوری کی اپنی آنکھیں رشید کی آنکھوں کے ہم رنگ ہونے لگیں وہ کب سے ماتم کناں بیٹھی تھی رشید کچھ بولے تو وہ بھاگ کر اپنے بچے کے ساتھ لپٹ جائے اسے بھی کوئی خوشی نصیب ہو… نیلم کے بعد سے وہ سوگ منا رہی تھی کوئی تو اس سوگ کو توڑے۔
رشید گہرے گہرے انجانے سانس لینے لگا آنکھوں کی پتلیاں ڈگمگا رہی تھیں ہونٹ سیاہ تر ہوتے جا رہے تھے۔
نوری نے اس حالت کو دیکھا تو زور سے چلائی،وارڈ کے سب مریض ڈر کر اٹھ کر بیٹھ گئے نرس لمبے وارڈ کے کنارے سے آتی نظر آئی۔
”میرا بچہ کہاں ہے رشید بھائی“ آواز پہلے سے زیادہ بلند ہوئی رشید کی ساکت ہوتی پتلیاں ذراکی ذرا پھڑپھڑائیں۔
نرس تیز تیز چلتی آ رہی تھی۔ رشید کی نظریں نوری پر ٹکیں اس نے اپنا ایک ہاتھ ذرا سا بلند کیا سامنے کی دیوار کی طرف اشارہ کیا ہاں… کہاں؟ نوری ہاتھ کے اشارے پر مرتکز ہو گئی،الفاظ گڑبڑا کر نکلے،رشید کچھ بول ضرور رہا تھا لیکن…
نرس اس کے سر پر آ چکی تھی۔
ان کا ماسک کس نے اتارا؟ وہ زور سے نوری پر چلائی کیوں چلا رہی ہو تم؟ اس نے آکسیجن ماسک کو رشید کے منہ پر رکھا جسے نوری نے ہی رشید کی آنکھیں کھلنے پر اتار دیا تھا۔
نوری نے نرس کا لگایا ماسک فوراً اتار دیا۔
نکلو یہاں سے،نرس دنگ رہ گئی اس کی حرکت پر ماسک واپس لگایا۔
نوری نے نرس کو زور دار دھکا دیا… ماسک اتارا سب اٹھ کر کھڑے ہو گئے مجمع لگ گیا۔
”میرا بچہ کہاں ہے رشید بھائی… جلدی بتاؤ… اگر تو ایسے ہی مر گیا تو دوزخ میں جائے گا… میں تجھے معاف نہیں کرونگی ایک ماں تجھے معاف نہیں کرے گی… بتا دے… میرا بچہ کہاں ہے…؟؟
نرس اسے گھسیٹنے لگی باقی سب تماشا دیکھنے لگے… نرس نوری کو گھسیٹ کر باہر لے جا رہی تھی نوری گھسیٹتے ہوئے ہی رشید کی طرف منہ کئے چلا رہی تھی۔

Chapters / Baab of Soda By Sumaira Hamed