Episode 7 - Soda By Sumaira Hamed

قسط نمبر 7 - سودا - سمیرا حمید

دونوں باہم تھے… مشترک تھے… بڑے سیانے تھے… کیا اچھا ہے کیا برا ہے اس کی عقل رکھتے تھے اس پر عمل نہیں کرتے تھے۔ ماں باپ کو بے وقوف بنا رہے تھے۔ انہیں گالیاں دیتے تھے،نوری اپنی اماں کی برائیاں جاوید سے کرتی… جاوید اپنے باپ کو اس کے کان میں برا بھلا کہتا۔ جیسے وہ دونوں ہی آسمان سے مقدس فرشتے زمین پر اتارے گئے تھے باقی سب تو گند بلا تھے۔

جاوید ادھر ادھر ہاتھ صاف کرتا رہتا تھا۔ فخر سے نوری کو بتاتا تھا اور چوری کا مال دکھاتا… یہ اتنے کا ہے… یہ اتنے کا ہے… مال کی قیمت نوری کو بتاتا… اور پھر اس قیمت سے سگریٹ لیتا… عیش کرتا… نوری کو عیش کرواتا… نوری بھی اس چوری کے مال پر پلی تھی…
دونوں میں بہت ناکارہ عادتیں تھیں دونوں صرف ایک دوسرے کیلئے ہی درست تھے… ٹھیک کرتے تھے… ٹھیک سوچتے تھے… نوری کا جی چاہتا جاوید کا تعویز بنا کر پہن لے… بس جلد سے جلد شادی ہو جائے… لیکن اس کے بھائی اسے جان سے مار دیتے غیر برادری میں رشتہ نہ دیتے اور دے بھی دیتے شاید… لیکن دونوں الگ دنیا بسانے کا ہی سوچے بیٹھے تھے۔

(جاری ہے)

###
ساتواں مہینہ آیا تو جاوید سارے کام دھندے چھوڑ چھاڑ کر نوری کو لئے لئے پھرتا۔ یہاں کھلا،وہاں کھلا،یہاں گھوما،وہاں گھوما،نوری گلاب کی طرح کھلی رہتی،دونوں نے اپنے اپنے ذاتی فلسفوں سے ماں اور باپ دونوں کو سلا دیا تھا اب دونوں صرف انسان بنے پھرتے تھے وہ انسان نہیں جس کے نام پر کائنات بنی… شاید وہ انسان جس کیلئے دوزخ بنانے بارے سوچا گیا۔
جاوید رات گئے چندی آنکھوں سے نوری کو سوتے دیکھا… دن گنتا… حساب کرتا… پیسے… ضرب… جمع… تقسیم… اور تفریق؟ اس کا جی نہ بھرتا بار بار ضرب جمع کئے جاتا… جو تفریق ہو رہا تھا اس کا اسے خیال ہی نہیں تھا…
”دو چور… دو ڈاکو… دو لیٹرے… نوری اور جاوید“
نوری نے دیکھا کہ جاوید بڑا پھنے خاں بنتا ہے نا بچے وہ جنے اور وڈا وہ بنے،اس نے جاوید کو آڑے ہاتھوں لیا۔
”کتنے کا ہوگا وہ تین مرلے کا پلاٹ۔”
”قیمت نہیں لگوائی میں نے“ جاوید غصہ کر گیا۔
”تو لگوا جا کر میں نے کیا یہاں اتوار بازار کھول رکھا ہے… ٹھیلے پر بیٹھی ہوں کیا کہ آؤ جی آؤ… لیتے جاؤ… جتنے جی چاہوں دیتے جاؤ… لنڈے کا مال نہیں ہے کہ جھوٹی قیمت پر لے جاؤ۔
”اوپگلی جانتی ہے تین مرلے کتنے ہوتے ہیں؟“
”جتنا ہمارا گودام تھا…“ نوری سب جانتی تھی۔
”اپنے اس پنڈ کے گودام کی دو کوڑیاں لے لے مجھ سے… پتا ہے یہاں زمین کا بھاؤ کیا ہے۔”
”مجھے اس زمین کے بھاؤ کا پتا ہے“ اس نے پیٹ کی طرف اشارہ کیا۔
”یہ پلاٹ کی طرف بھی میں ہی لایا ہوں اسے… سودا نہیں کر رہی وہ… میں نے کہا ایک بچی ہے بے گھر ہوں… یہ ہوں وہ ہوں… کتنے جھوٹ سچ بولے… افسوس ہی کرتی رہی بے چاری اس لائن پر تو میں لایا اسے اب کیسے بھاؤ تاؤ کر لوں… بس ٹھیک ہے جو مل رہا ہے۔
نوری کو اس بات پر دنوں غصہ رہا۔
پرائیویٹ کلینک کے ویٹنگ روم میں جاوید نے میڈم کے ہاتھوں میں بچی تھمائی جسے گود میں لیتے ہی وہ رونے لگی چومنے لگی،افسوس کرنے لگی،جاوید اسے اب ملا پہلے کہیں مل جاتا تو اتنا عرصہ اکیلے نہ گزارتی۔
اگلے دن جاوید میڈم گوہر کے گھر بچی واپس لینے گیا۔ ساری رات تو گوہر بچی سارہ کو گود میں لئے بیٹھی رہی تھی اس کی تصویریں بناتی رہی تھی… اب جاوید آ گیا تھا واپس لینے… کیوں؟ اب ہی تو ٹھیک وقت آیا تھا بھاؤ تاؤ کرنے کا،جاوید بچی لینے آیا ہے گوہر کا دم ہی نقل گیا۔
 
ایک ہی رات میں وہ سارہ کی سچ مچ کی ماں بن چکی تھی اب تو اپنا آپ وار کر بھی اس سے الگ نہ ہوتی۔ اس کا شوہر اس کے اس اقدام سے خوش نہیں تھا۔ ایک عرصے سے دونوں کے درمیان ہی چپقلش چل رہی تھی اب گوہر نے اکیلے ہی یہ فیصلہ کر لیا تھا… اکیلے کیا… جاوید ملا اس نے راستہ دکھایا کہ شریفوں کا بچہ ملنا کون سا مشکل ہے،چھوڑے شوہر کو،وہ خود تو اولاد والا ہے آپ کا دکھ کبھی نہیں جانے گا اور نہ ہی کچھ کرنے دے گا ،بچوں کے خرچے سے بچتے ہیں… اب آپ خوبصورت ہیں جوان ہیں سوچتے ہونگے ایسے ہی ٹھیک ہے۔
بچوں کی دم کیوں لگانی ساتھ،اصل بیوی سے اولاد پر فخر کرتے ہونگے۔“گوہر نے بہت سوچا… بچے کیلئے نئے سرے سے تڑپنے لگی اور جاوید جیسے بھلے مانس غریب انسان سے بچی لے لی… اب وہ غریب بھلا مانس بچی واپس مانگ رہا تھا گوہر تو اب کبھی سارہ واپس نہ دیتی ایک ہی رات میں اس نے دیکھ لیا تھا کہ زندگی کیسے بدل جاتی ہے۔
جاوید پر غصہ آیا لیکن اب کیا کرتی۔
سارہ کیلئے اس نے پلاٹ اور چند لاکھ اور دیئے اور جاوید سے ڈر کر جھٹ کاغذات بنوا کر کینیڈا چلی گئی۔
جاوید نے پلاٹ بیچ دیا دکان خالی کی اور فیصل آباد سے لاہور آ گیا کرائے کا گھر لیا اور اچھے علاقے میں سٹور کھول لیا۔
نوری چند دن روئی ضرور… دل مسوس کر رہی گئی لیکن میوؤں بھرے منہ کے ساتھ چپکی رہتی۔ ایسا نہیں تھا کہ وہ بچہ بیچنے والی تھی… نہ… توبہ… بس وہ بچوں کے اچھے مستقبل کیلئے ایسا کر رہی تھی۔
بے اولادؤں کی مدد کر رہی تھی۔ بچے خوش تو بچوں کے ماں باپ خوش۔ بڑے فلسفے تھے نوری کے پاس اب تو،باتیں گڑھنے میں وقت ہی کتنا لگتا ہے جتنی چاہے اپنی مرضی کی گڑھتے جاؤ… اپنی ہی مرضی ہے نا جہاں چاہے،جیسے چاہے چلا لو۔
جاوید نے سٹور کھولا تو تازہ ڈبل روٹی ،انڈوں،مکھن کی ترسیل کا کام بھی شروع کر دیا۔ کالونی کی کوٹھیوں سے فون آ جاتا کتنا کیا کیا چاہئے۔
کوٹھی نمبر… لین نمبر اور سب ان کے گھر پہنچ جاتا۔ موٹر سائیکل کے پیچھے لکڑی کا بڑا ڈبہ فکس تھا اسی میں سب کچھ ہوتا،صبح صبح وہ یہی کام کرتا باقی کا سارا دن کام والے دو لڑکے سٹور دیکھنے وہ ادھر ادھر اسی کام کا اتا پتا رکھتا جس سے دو پیسے کی بچت ہو سکے منافع تھوڑا زیادہ ہو جائے۔
بہت علیک سلیک ہو گئی تھی اس کی کالونی کی بیگمات کے ساتھ آتے جاتے ان کے حسن اور سلیقے کے قصیدے پڑھتا۔
ان کے گھروں کو دیکھتا رہتا ان کی گاڑیوں کو گنتا… گاڑیوں کے نام بھی آ گئے تھے اسے… نیا ماڈل ہے کہ پرانا ماڈل ہے یا فلاں سن کا ماڈل ہے یہ بھی معلوم ہو رہا تھا ،ایک پستول بھی خرید لیا تھا اس نے،پاس رکھتا ،نوری کو ڈراتا اب خود ڈرنے لگا تھا نوری کے گھر والوں سے،گبرو جوان تھا پہلے تو ایسے نہیں ڈرا تھا۔ کہتا تھا دو پیسے آ جائیں تو ڈرنا ہی پڑتا ہے،کوئی میری جان فضول میں کیوں لے گا ،پیسے کیلئے ہی مارے گا نا۔
نوری سارا دن چرتی رہتی،کھا کھا کے بھینس بن رہی تھی،کہتی تھی گھر جاؤنگی اپنے ٹھاٹ دکھاؤں گی۔
”ہونہہ کتنا لڑتی تھی وڈی بھر جائی کہ میرے ٹرنکوں میں گھس کر چیزیں کھا جاتی ہے،منہ پر مار آؤنگی وہ ساری چیزیں کھاتی پھرے گی سارا سال۔“
جاوید سوچ میں پڑ گیا۔
”ہاں اگر انہیں دکھا آئے اپنے ٹھاٹ تو ڈر بھی جاتا رہے،پستول رکھی کھلی الماری کو بھی تلا لگا دے گا وہ پھر۔
جاوید نے کرائے پر ایک کار لی اور نوری گڑیا کو بٹھا کر گاؤں لے آیا۔ پہلے اپنے گھر گیا،ماں نے بٹھایا،ماتھا چوما گڑیا کو گود میں بٹھایا نوری کو منہ بھی نہ لگایا،بھاوجیں آئیں چار باتیں دونوں کو سنا کر چلتی بنیں،بھائی گھر ہی نہ آئے۔ ابا ایک طرف بیٹھا حقہ پیتا رہا،جیسے گھر میں کوئی آیا ہی نہیں۔ جاوید نے ہزار ہزار کے کئی نوٹ اماں کو نکال کر دیئے انہوں نے پلو سے باندھ لئے اور پھر جاتے وقت گڑیا کے ہاتھ میں دے دیئے۔
جاوید کا منہ بگڑ گیا ”تو نے دیئے میں نے رکھ لئے اب میری طرف سے یہ گڑیا کیلئے۔“ کیا ضرورت تھی آنے کی جاوید جل بھن گیا۔ ابھی کچھ دیر پہلے ابا نے منہ اندر کی طرف کرکے کہا تھا کہ ”وہ جو ڈبا گلی میں کھڑا ہے اسے پرے کروا آنے جانے والوں کو تنگی ہو رہی ہے،ہمیں تو اس گاؤں میں رہنا ہے گاؤں والوں کا ہی خیال رکھنا ہے۔“
دونوں کے ٹھاٹ بھاٹ وہیں راکھ ہوئے،منہ اتر گئے،پیسہ جیب میں ہی پڑا رہ گیا… کار گدھا گاڑی سے بدتر لگنے لگی۔
جاوید نے نوری کے گھر کی طرف کار کی دروازے پر بڑا تالا لگا تھا۔ گاؤں میں تنہا پرندہ بھی اڑ کر نکل جاتا تو سب کو خبر ہوتی ان کے آنے کی خبر نہیں ہوئی ہوگی؟ مرگوں میں بھی جاتے تو ایک کو گھر ضرور چھوڑ جاتے اماں کہتی منہ تو صرف قبروں کے بند ہوتے ہیں گھروں کے در کھلے ہی رکھنے چاہئے۔“
کار کی ڈگی میں رکھے شہری کپڑے،پراندے،شیشے کے گلاس،سیب کے مربے،دیسی گھی کی مٹھائی کا ڈبہ پڑے قہقہے لگا رہے ہونگے،نوری کی آنکھیں گیلی ہو گئیں جاوید کو کار میں ہی چھوڑ کر وہ حاجن بی کے گھر آئی۔ حاجی بی نے پیار سے بٹھایا پانی کا پوچھا اس نے گھر والوں کا پوچھا،وہ مسکرائیں۔

Chapters / Baab of Soda By Sumaira Hamed