Episode 13 - Soda By Sumaira Hamed

قسط نمبر 13 - سودا - سمیرا حمید

گھر آئی تو ثاقب گھر بھی نہیں تھا سارہ کو وہ پک کر چکا تھا،فون کیا تو اس کا فون بند تھا۔ اس نے دو مزید گھنٹے دونوں کا انتظار کیا کہ شاید سارہ کو کہیں گھمانے لے گیا ہو فون بیٹری کی وجہ سے بند ہوگا۔ تین گھنٹے گزر گئے تو اسے ذرا تشویش ہوئی اور اسے معلوم نہیں ہوا کہ یہ تشویش کیسی ہے اور ہے کیوں؟
وہ آہی جائیں گے گھر۔
وہ کھانا پکاتی رہی… شام سے رات ہو گی دونوں نہیں آئے اس نے ڈیڈی کو کال کی وہ بھاگے آئے۔
”سارہ کو تم نے اس کے ساتھ جانے کیوں دیا؟ وہ آتے ہی چلانے لگے۔“
”وہ اکثر اسے پک کر لیتا ہے ڈیڈی پھر کیا ہوا… کوئی حادثہ نہ ہو گیا ہو دونوں کے ساتھ۔“
”ہاں حادثہ ہی نہ ہو گیا ہو“ وہ دھاڑے گوہر سہم گئی۔
کیوں جانے دیتی ہو ثاقب کے ساتھ تمہیں کتنی بار منع کیا میں نے“ انہوں نے کئی بار منع کیا تھا۔

(جاری ہے)

لیکن گوہر ہر بار بھول جاتی تھی وہ اس کا شوہر تھا اور اس شوہر سے وہ بے حد محبت کرتی تھی۔

ڈیڈی پولیس کو فون کرنے لگے گوہر حیران رہ گئی۔
پولیس کیوں ڈیڈی؟
”چپ رہو گوہر… بے وقوف،تمہیں وہ ہمیشہ اچھا لگا اور مجھے ہمیشہ برا… تمہاری آنکھوں پر محبت کی پٹی تھی اور میری پر تجربہ کی،تم نے کبھی میری نہیں سنی سوچا تھا ماں بن کر ضرور سمجھنے لگو گی لیکن جانچ پرکھ والی آنکھ ہی تم نے بند کر رکھی ہے۔“
پولیس آ گئی… گوہر کے بھائی،بہن،بہنوئی بھی آ گئے،دونوں کا کچھ پتہ نہیں تھا،رات گزرنے لگی گوہر بے ہوش ہو کر ہسپتال پہنچ گئی۔
ایئر پورٹ سے کنفرم ہو چکا تھا ثاقب نامی پاکستانی شخص شام کی فلائٹ سے جا چکا تھا،سارہ کا کچھ پتا نہیں تھا،سارہ گم شدہ تھی پولیس ڈھونڈ رہی تھی رات گزر رہی تھی۔ گوہر نیم بے ہوشی کی حالت میں تھی۔
رات بھر پولیس سارہ کو ڈھونڈتی رہی… گوہر کے گھر والے رات بھر دوڑ دھوپ کرتے رہے تھے۔
دن چڑھے شہر سے دور ویرانے میں جنگل کی طرف کرائے کی ایک کار کی پچھلی سیٹ پر سارہ نیم مردہ حالت میں پڑی ملی۔
کوئی ہوش والا اس کی حالت کو دیکھ کر ہوش میں نہیں رہ سکتا تھا۔
گوہر کی سارہ… نوری کی سارہ… جاوید کا سودا۔
ٹھیک اسی رات پہلی بار گرو گوری نوری کے خواب میں آیا نوری ڈر کر سارہ گھر میں بھاگتی پھری چیخ چیخ کر آسمان سر پر اٹھا لیا۔
”میرا دل پھٹا جا رہا ہے جاوید“ وہ زمین پر بچھ گئی لوٹ پوٹ ہونے لگی جاوید کیلئے مشکل ہو گیا اسے سنبھالنا۔
کانوں پر ہاتھ رکھ فرش پر پھیلتے اس نے ایک دلخراش چیخ ماری… پھر بھاگ کر سیڑھیاں پھلانگتی نیچے آئی تیسری سیڑھی سے گر گئی اور منہ سے خون فوارے کی صورت میں نکلنے لگا۔ جاوید نے رکھ کر دو طمانچے مارے منہ پر…
”پاگل ہو گئی ہے کتی… مرے باپ کو دیکھ لیا خواب میں کون مر گیا اب تیرا۔“
خواب تو وہ بھول گئی… پھر چلائی اور روئی کیوں؟
نجانے کیا کیا یاد آ رہا تھا اور یاد بھی نہیں آ رہا تھا… وہ جاوید کا منہ دیکھنے لگی دل چاہا اپنا سر دیوار میں دے مارے یا اپنا کلیجہ کچا کھا جائے۔
جاوید کو بڑا ترس آیا دیکھ کر اس کا منہ صاف کیا ساتھ لے کر کمرے میں آیا بیڈ پر لٹایا… سر دبانے لگا… بال سہلانے لگا۔
”نوری یہ حرکتیں چھوڑ دے… مجھے غصہ نہ دلایا کر… ورنہ گھر سے نکال دوں گا… اپنی حالت دیکھ بچیاں دیکھ لیتی تو تجھے پاگل سمجھتی… ڈر جاتیں… کچھ خیال کر نوری۔“
نوری نے ترحم سے جاوید کی طرف دیکھا۔
”میرا دل جاوید“ اس نے مکے مارے دل کی جگہ پر
”دل ٹھیک ہے تیرا… وہم نہ کر…
میرے اندر کچھ ہو رہا ہے جاوید… مجھے بڑی تکلیف ہو رہی ہے“ اس کے سینے پر سر رکھ کر وہ سسکنے لگی۔
کل ڈاکٹر کے لے چلوں گا تجھے…
مجھے بچا لے جاوید… میں مر جاؤنگی۔
جاوید نے الماری میں سے دو نیند کی گولیاں نکال کر اسے کھلائیں اور بتی بجھا کر خود سو گیا… نوری گولیاں کھا کر بھی ”جاننے نہ جاننے“ کی کیفیت میں معلق سوتی جاگتی رہی… انجانی آہیں سنتی رہی… سمجھ نہ پائی۔
###
جس حمل سے اب نوری تھی اس بچے کے دماغ میں پانی تھا ڈاکٹروں نے کہا پیدا ہوا بھی تو بچے گا نہیں اور پیدا ہونے سے پہلے بھی مر سکتا ہے۔
ماں کی جان کو دونوں صورتوں میں خطرہ ہے۔ ڈاکٹروں نے صاف صاف بات کی حمل برقرار رکھنا نوری کی جان لے کر ٹلے گا ، جاوید نے نوری کی منت کی لیکن نوری نہیں مانی،اب ہی تو جاوید کو کوئی گاہک نہیں ملا تھا یہی بچہ تو نوری کا تھا۔ نوری نے چھ مہینے تکلیف سے چلا چلا کر آسمان سر پر اٹھائے رکھا دھرتی ہلائے رکھی لیکن بچے کو پیٹ میں ہی رکھا ،ساتویں مہینے وہ دنیا میں آیا ہسپتال میں ہی رہا،نوری پندرہ دن رہ کر گھر آ گئی اور پورے نو ماہ کا ہو کر بچہ مردہ ہو کر گھر آ گیا۔
نوری نے جاوید کا گریبان پکڑ لیا۔
”بچہ دے میرا… نکال میرا بچہ جاوید… مجھے میرا بچہ چاہئے“
اس کی میت کے پاس وہ یہ چلاتی رہی…
”نکال میرے بچے… دے میرے بچے“ میت اٹھتے ہی وہ اس پر آ گئی۔ ایک دو بار تو جاوید نے برداشت کر لیا کہ دکھی ہے پھر رکھ رکھ کر مارنے لگا گالیاں نکالنے لگا۔
”میرے سر پر ہی چڑھتی آ رہی ہے تو تو“ وہ لاتیں گھونستے مارتا جاتا۔
نوری میں کائنات کے تاج ”محبت“ انسانیت کی معراج ”ماں“ کے چند بال اگ آئے اور جاوید کا گریبان چھوڑ گلا دبوچنے لگی۔
جب حمل نہیں ٹھہرا تھا تو نوری مزاروں پر دیے جلاتی ،جمعراتوں کی پابند ہو گئی،کئی سو نت نئی منتیں مانگ لی،صبح و شام درباروں میں گزارتی… ننگے پیر جمعرات کو داتا دربار جاتی،منت بھی مان رکھی تھی بیٹا ہوا تو سال تک ہر جمعرات ننگے پیر دربار جائے گی۔
جب اسے جاوید سے شادی کرنی تھی تب بھی وہ درباروں کی پابند ہو گئی تھی ،اماں کہتی نوری نماز پڑھ لے… تیری ماں تہجد گزار ہے اور تو نماز سے ہی دور ہے وہ دربار جا کر منت کے نفل پڑھتی رہتی،ادھر ادھر سے اٹھائے پیسوں سے تیل اور دیے جلاتی ہاتھ جوڑے گھنٹوں دربار والی سرکار سے مانگتی… خدا کو تو وہ جانتی بھی نہیں تھی۔ دو بیٹیوں کی ماں تھی اب اسے صرف ایک بیٹا چاہئے تھا اور اس شدت سے چاہئے تھا جیسے سدا سے بے اولاد ہو بانجھ ہو۔
ابا کے مرنے کے بعد اسے لڑکی ذات سے نفرت ہو گئی تھی اس رات وہ گھر آ کر سو نہیں سکی پہلی بار واضح خلل آیا تھا اس کی ذات میں اس کی اماں نے کس دھڑلے سے اس کی پوٹلی کھول دی تھی نوری کو بددعا لگ گئی تھی،کس کی؟
کس کس کی نہیں لگی ہو گی… ابا کی قبر میں پہلی رات اس کی حساب کتاب کی پہلی رات بن گئی۔ اس کا حساب کتاب شروع ہوا تو وہ تھر تھر کانپنے لگی ایسی کپکپاہٹ جو نظر نہیں آتی جو تھمتی بھی نہیں… اس نے اگلے دن ڈھیروں چیزیں منگوا کر بچوں میں بانٹیں،گاؤں میں جس جس کا جب کبھی دل پریشان ہوتا وہ میٹھی گولیاں،گڑ والے چاول یا بھنے دانے بچوں میں بانٹ دیتا،نوری کا دل پھر بھی ویسا ہی رہا۔
 سکول سے گڑیا مانو آ جاتیں انہیں کھانا کھلا کر سلا کر وہ دربارآ جاتی جاوید فون کرتا ”کہاں مری ہے گھر آنا ہے کہ نہیں؟“وہ چونکی رات ہو گئی کتنی اذانیں ہو چکی جماعتیں کھڑی ہو چکی اور وہ وہیں دربار میں ایک طرف کی ایک طرف بیٹھی رہی۔ وہ دعا کرتی کہ وہ منحوس ہیجڑا مر جائے اس کی جان لے کر ہی ٹلے گا کیا؟
بدھائی میری بدھائی… بتا کون کھا گیا میری بدھائی؟
جو بھی لے گیا تجھے کیا؟ نوری بعد ازں بڑبڑاتی ”تو ماما لگتا ہے پوچھنے والا۔“
”اماں تو پاگل ہے ہماری“ گڑیا اسے ایسے بڑبڑاتے دیکھ لیتی تو ہاتھ اٹھا کر اشارہ کرکے کہتی۔
”ماں پاگل ہے ماں کی اولاد ٹھیک ہے“ نوری دھاڑتی۔
گندی اماں… چھی… شیم شیم…

Chapters / Baab of Soda By Sumaira Hamed