Episode 16 - Soda By Sumaira Hamed

قسط نمبر 16 - سودا - سمیرا حمید

بنگلے پر آدھے گھنٹے تک فائرنگ ہوتی رہی تھی گھر چھلنی پڑا تھا پولیس کی نفری موجود تھی اور گھر سیل تھا۔ چوکیدار کی،کل وقتی ملازم کی،گھر کی مالکن کی اور مالکن کی گود لی بچی کی ہلاکت ہو چکی تھی۔ لاشیں اٹھائی جا چکی تھیں وہ دونوں ہسپتال آ گئے وہاں چوکیدار اور ملازم کے خاندان کا مجمع جمع تھا۔ فاخرہ کی طرف سے کوئی نہیں تھا بچی کی ماں نوری اب وہاں پہنچی تھی۔

چوکیدار کے بیوی بچے رو رہے تھے،ملازم کی ماں بہن بین کر رہی تھیں نوری جاوید کے گلے سے جھول گئی۔
”ایک کا جنازہ تیار کروا دیا نا…“ وہ رونے لگی۔
”میری بچی لاش بن گئی… میں نے تو اسے زندہ کو دیکھا ہی نہیں… ہم نے اسے مار دیا… ہم قاتل ہیں اس کے نوری گر کر بے ہوش ہو گئی۔
بچی کی حوالگی کے کاغذات پولیس کو دکھائے اور ضروری کارروائی کے بعد جاوید مردہ بچی کا جسم گھر لے کر آ گیا،جسم ڈبے میں سیل بند تھا۔

(جاری ہے)

جسے کھولنے کی اجازت نہیں تھی ایسی لاشیں جو بری طرح سے مسخ ہو چکی ہوں انہیں ایسے ہی سیل بند کیا جاتا ہے آدھے گھنٹے سے زیادہ وہ اسے گھر نہیں رکھ سکتے تھے۔
نوری تابوت سے لپٹ لپٹ کر رو رہی تھی وہ ایک آخری بار بھی بچی کو ہاتھ نہیں لگا سکتی تھی اسے چوم نہیں سکتی تھی،نیلم کی ماں اپنے گناہ کو کوس رہی تھی بہت دیر میں کوس رہی تھی۔ بہت دیر ہو چکی تھی۔
نیلم مر چکی تھی۔
فائرنگ والے وہی لوگ تھے جو فاخرہ کے خاندانی دشمن تھے،جائیدادیں چھین لی تھیں جانیں چھین لی تھیں بھائی اسی ڈر سے بھاگ کر باہر گمشدہ بیٹھا تھا۔ جاوید اور گڈو نے فیکٹری پر قبضہ کیا تو انہیں ایک عورت کا یہ منہ توڑ جواب اچھا نہیں لگا۔
بعد کے معاملات سب گڈو نے ہی سنبھالے ان سے معاملات طے کئے ان کی ذاتی دشمنی تو تھی نہیں،بات صاف کی کہ عورت سے ان کا کوئی تعلق نہیں تھا… دشمنی چلتی بنی… ہاں فیکٹری ہاتھ سے نکل گئی۔
جاوید پیچ و تاب کھاتا رہا،اتنا گھاٹے کا سودا نہ بچی رہی نہ فیکٹری،وہ اور گڈو اب ملکر ایسی ہی دوسری فیکٹری لگا رہے تھے پیسے تھے اب ان کے پاس۔ جاوید پھر سے جمع تفریق کرنے لگا… بچی تفریق ہو گئی لیکن اس نے فیکٹری کو ہی تفریق کیا۔ قلم اٹھا کر اس نے دیوالیے کے خانے میں بھی نیلم کا نام نہ لکھا۔
نیلم انسانوں سے مردوں میں شامل ہو گئی۔
صرف تیس منٹ اس کا مردہ ڈبہ بند جسم نوری کے پاس رہا… نوری پر قیامت کر گیا۔
وہ گاؤں بھاگی… رو رو کر اس نے گاؤں اکٹھا کر لیا،نہ وہ اس گھر سے نکلتی نہ اس کی نیلم مرتی۔ گاؤں بھر کی عورتیں اس کے واویلے سے ان کے گھر کے اندر باہر اکٹھی ہو گئیں کچھ دیواروں کے ساتھ لگی تھیں کچھ چھتوں سے دیکھ رہی تھیں اس کی حالت دیکھ دیکھ دہل رہی تھیں… اماں نے بھابیوں نے بڑھ بڑھ کر سینے سے لگایا۔
”اماں میں اپنے بچے کھا گئی“ وہ کسی سے سنبھالی نہیں جا رہی تھی“
”سب کھا گئی… مال سمجھ کر کھا گئی… خون پی گئی ان کا۔“
”نوری کیہ کہندی اے“ وہاں کھڑی گاؤں کی ایک عورت نے بات جان کر سمجھ کر بے یقینی سے دوسری سے پوچھا۔
”کہندی اے بچے ویچ دتے“
توبہ توبہ ایہ نوری نوں کیہ ہویا؟
بھائی نوری کو سینے سے لگائے بیٹھے رہے۔
لیکن اب اسے چین نہیں مل رہا تھا اب اسے چین نہیں ملنا تھا اس کے منہ سے جھاگ نکلنے لگی۔ بھابیاں ہاتھ پاؤں دبانے لگی اماں اس پر پڑھ پڑھ کر پھونک رہی تھیں۔
وہ اکیلی ہی گاؤں آ گئی تھی منہ اندھیرے ہی نکل آتی تھی جب وہ ہیجڑا آیا تھا،وہ تالی بجا رہا تھا ٹھمکے لگا رہا تھا،گا رہا تھا،نوری او نوری کر رہا تھا۔
”اب آ میرے ساتھ… آچل… بدھائیاں لے… ناچ لے گالے… خوشی منا لے…“
اماں کے سینے سے لگ کر اس نے ایک ایک بات بتا دی۔
حاجن بی اس کے ہاتھ پکڑے بیٹھی تھیں۔ نوری نے صاف صاف بات کی کہ وہ راضی بہ رضا تھی… اسے معصوم نہ سمجھو،اسے بے گناہ انجان بھولا نہ جانو،وہ سب سودے جانتی تھی،وہ ہر سودے میں شریک تھی،وہ ماں کبھی نہیں بنی،وہ انسان بھی کبھی نہیں بنی،وہ گوشت کے لوتھڑے سونے کے بھاؤ بیچتی رہی وہ سارے حساب رکھنے والی تھی وہ ماں نہیں تھی۔
اماں،حاجن بی سن سن کر روتی رہیں کوئی اور ہوتا تو ضرور بار بار کانوں کو ہاتھ لگاتا لعن طعن کرتا،تھوک دیتا،ماں تھی صبر کرکے بیٹھی رہی توبہ استغفار دل ہی دل میں کرتی رہی۔
”مجھے معافی کر دے اماں“ نوری نے ہاتھ جوڑ دیئے اماں نے اس کی پیشانی چومی۔
”معافی دلوا دے اماں مجھے“ اس پر اماں خود ہاتھ جوڑ کر بیٹھ گئی چھوٹی انگلی میں تسبیح تھی وہ آسمان کی طرف بار بار نظر اٹھا کر دیکھ رہی تھیں۔
دعا کرو ان سب کیلئے وہ سب خوش رہیں“ حاجن بھی تسلی دینے لگی۔
”اولاد بنا کر لے کر گئے ہیں انہیں اولاد ہی بنا کر رکھیں۔
چند دن گاؤں میں رہ کر نوری واپس آ گئی گڑیا اور مانو پر توجہ دینے لگی۔ اماں حاجن بی نے کہا اپنی بچیوں کا خیال کر ان کی اچھی تربیت کر،وہ بات کو سمجھ گئی۔
اس کی ذات میں جو بدلاؤ آیا وہ کرب اور تکلیف ہی لایا بس… سکون تو اسے مر کر ہی ملے گا اب۔
###
نیم مردہ حالت میں سارہ کو ہسپتال لایا گیا تھا اور گوہر کو زبردستی اس کا بھائی گھر لے گیا تھا تاکہ وہ سارہ کو نہ دیکھ سکے۔
گوہر سہڑیائی دورے پڑنے لگے،اس کی لاڈلی کے ساتھ یہ سب کچھ ہو گیا تھا۔ ثاقب نکل چکا تھا اس میں کوئی شک نہیں رہ گیا تھا کہ یہ سب اسی شیطان کا کیا تھا۔ وہی شیطان جس سے ڈیڈی اسے بار بار خبردار کرتے تھے۔ بچے والدین کے ہر تجربے کو جھٹلا کر اپنا تجربہ خود کرنا چاہتے ہیں۔
 گوہر جیسی ضدی لڑکی نے اپنے خاندان کی ”نا“ کے باوجود ثاقب سے شادی کی اتنے سال اس کے ساتھ رہتے ہوئے بھی اسے پہچان نہ سکی۔
ٹھیک کہا تھا اس کی ایک کولیگ نے کہ ”خوبصورتی کے تمہارے اس پتلے کو وہ ساتھ رکھنے کیلئے لایا ہے بیوی اور ماں وہ پہلی والی کو بنا چکا ہے… تم بس ماڈل بنی اس کے پہلو سے لگی رہو۔“
وہ فوراً پاکستان آکر اسے پکڑوانا چاہتی تھی۔
اس نے ایسا کیوں کیا؟ سوچا بھی کیسے؟ نام کی ہی سہی بیٹی تو تھی اس کی۔ واقعی گوہر بہت بھولی تھی۔ ماما نے تاسف سے گوہر کو دیکھا۔
”یہاں سگے باپ پیچھے نہیں اور تمہیں یہ دکھ کھائے جا رہا ہے کہ ثاقب سارہ کا باپ تھا،باپ بن جانے اور باپ ہونے میں بہت فرق ہوتا ہے،یہ فرق ہمیشہ رہتا ہے،یہ فرق انسان مٹاتے ہیں شیطان نہیں۔“
ثاقب دو بیٹوں کا باپ تھا بیٹی کا نہیں،خود سے بارہ سال چھوٹی لڑکی کا شوہر بھی۔ نجانے اپنے غیر ملکی دوروں پر کیا کیا کرتا ہوگا۔ گوہر نے زندگی میں ایک بار بھی یہ نہیں سوچا کہ اس کی فیملی آخر کیوں ثاقب کو پسند نہیں کرتی۔
اس کا اپنا یہ خیال تھا کہ وجہ صرف اس کا شادی شدہ ہونا ہے لیکن وجہ صرف یہ نہیں تھی جب ڈیڈی اس سے ملے تو انہوں نے صاف انکار کر دیا کہ وہ اس سے شادی کرنے کا سوچے بھی نا،گوہر نے بحث کی تکرار کی ٹھوس وجہ مانگی۔
”اگر وہ برا نہیں ہے تو اچھا بھی یقینا نہیں ہے ثبوت تو نہیں ہیں میرے پاس ہاں چھٹی حس ضرور ہے۔“ یہ آخری بات تھی جو گوہر کو سمجھانے کیلئے انہوں نے کی۔
چھٹی حس کس زمرے میں آتی ہے؟ محبت کے زمرے میں تو بالکل بھی نہیں،گوہر پہلے اس کی محبت میں پاگل ہو رہی تھی اب اس کی نفرت میں ہو رہی تھی۔ اتنے سال اس کے ساتھ رہتے اسے جان نہ سکی،عشرے گزار کر انسان خود کو نہیں جان پاتا دوسرے کو کیا جانے گا۔
سب نے گوہر کو سمجھایا کہ اب صرف سارہ کو ہی اس کی ضرورت ہے،پاکستان جیسے ملک میں جہاں ہزاروں واقعات ہوتے ہیں اور کوئی سنوائی نہیں وہاں وہ ثاقب کو سزا کیسے دلوائے گی۔
وقت ہی ضائع ہوگا اور یہ وقت اب صرف سارہ کا ہے۔ گوہر سارہ کو دیکھ دیکھ کر روتی رہتی وہ زندہ ضرور بچ گئی تھی لیکن اب وہ صرف سارہ نہیں رہی تھی۔
جس کی چیخوں سے سناٹا گونج اٹھا تھا اب اس کی مسکراہٹوں سے زندگی کیسے مہکے گی…؟؟؟
گوہر نے اتنا ضرور کیا کہ ایک آخری بار ڈیڈی کے ساتھ وہ پاکستان گئی اس کی بیوی،دونوں بیٹوں کے سامنے ثاقب کا پول کھولا۔ ثاقب نے صاف انکار کر دیا الٹا دھمکیاں دیتا رہا وہ ثبوت مانگ رہا تھا،ثبوت صرف سارہ کا بیان تھا۔

Chapters / Baab of Soda By Sumaira Hamed