Last Episode - Soda By Sumaira Hamed

آخری قسط - سودا - سمیرا حمید

”بتا رشید… اگر تو مرا تو میں تجھے معاف… رشید…“
نرس کو ایک اور زور دار دھکا دے کر نوری رشید کی طرف لپکی اس کے منہ کے پاس کان لے کر گئی۔
جلدی کر… بتا…
”دونوں کی سانسیں اکھڑ رہی تھیں“
”دونوں جان کنی سے گزر رہے تھے“
”دونوں ہی مرنے والے تھے“
نرس باہر وارڈ بوائے اور ڈاکٹر کو لینے کیلئے بھاگی نوری نامی چیز اس کے بس کی نہیں تھی۔
رشید کا ہاتھ پھر ذرا سا بلند ہوا اسی دیوار کی طرف جس کے بہت پرے بہت سی سڑکوں کے پار ہیرا منڈی تھی اور بہت سی گلیوں کے پار جوبلی کا اڈہ تھا جہاں امین تھا۔
ا… ا… م… مین…
ہاں ہاں… بول میں سن رہی ہوں۔
مم… مم… منہ… ڈی…
منڈی…؟ نوری ہر حال سے بے حال ہو گئی۔
کس منڈی؟ سبزی منڈی… کس کے گھر… کس کے پاس؟ کوئی جاننے والا ہے تمہارا… ٹھیک ہے نا میرا بچہ…
رشید کی آنکھیں دنیا سے پردہ کرنے کے قریب ہوئیں۔

(جاری ہے)

”ب… ب… با… زار… مم… منڈی…“
نرس،وارڈ بوائے ڈاکٹر بھاگ آئے۔
بازار؟ نوری اس کا بازو ہلا رہی تھی اسے پوری جان سے جھنجھوڑ رہی تھی… وارڈ بوائے نے پکڑ کر اسے باہر کی طرف گھسیٹا۔ کس بازار… کون سی منڈی؟
ڈاکٹر رشید کو دیکھنے لگا ماسک پہنایا… پمپ کیا،نوری بازار… منڈی چلا رہی تھی وارڈ بوائے کے ہاتھوں سے خود کو آزاد کروانے کی کوشش کر رہی تھی۔
گلے سے چادر اتر کر گر چکی تھی۔ دو تین عورتیں ڈرتے ڈرتے اسے قابو کرنے کیلئے قریب آئیں… نوری خود کو چھڑواتے… ہاتھ پاؤں مارتے بے حال ہو چکی تھی وہ مڑ مڑ کر صرف رشید کی طرف دیکھ رہی تھی جس کی آنکھیں… دنیا سے پردہ کر چکی تھیں۔
”میرا بچہ“ آخری چیخ مار کر وہ فرش پر گر گئی۔
رشید مر چکا تھا،ڈاکٹر اس کا ماسک اتار چکا تھا نوری بے ہوش ہو چکی تھی… فرش پر نوری ہاری پڑی تھی بیڈ پر رشید بے جان… مردہ… ایک ہر فکر سے آزاد ہوا ایک مبتلا… سفر دونوں کے شروع ہو چکے تھے۔
###
رشید چاند کے بارے میں جاوید سب جانتا تھا۔ ہیرا منڈی میں اس کا ٹھکانہ معلوم کرنا کوئی مشکل نہیں تھا۔ جاوید نے اتا پتا کروایا تو جوبلی کا ہی نام سامنے آیا کہ اسی کے ساتھ دیکھا گیا تھا چاند کو…
گڈو بدمعاش کے ساتھ جا کر جاوید نے جوبلی کے اڈے پر بات کی تھی… لیکن وہ ماننے کیلئے تیار نہیں تھا… جاوید نے پیسوں کا لالچ بھی دیا لیکن کوئی نہ مانا… چاند کو جانتے تھے چاند کے امین کو نہیں جانتے تھے… اندرون خانہ جو کچھ معلوم کروایا اس کا لب لباب یہ تھا کہ بچہ بھوکا پیاسا رہ کر مر گیا۔
کچھ خبریں ایسی تھیں کہ بچہ انہوں نے بیچ ڈالا… اگر بیچ دیا تھا تو ایسی جگہ بیچا تھا جہاں سے مل نہیں سکتا تھا اور اگر مر گیا تھا تو…
اس نے نوری کو صاف بتا دیا کہ رشید کا کوئی پتا ٹھکانہ نہیں ملا وہ ہر روز آکر نوری کو یہی کہتا پر نوری کہاں ماننے والی تھی۔
وہ منہ اندھیرے… کڑی دوپہروں میں… شاموں میں… شاہی محلے… اندرون،بیرون بازاروں میں… بچہ بچہ کی رٹ لگائے… ہر شخص کی طرف لپکتی… جاوید کہتا نوری اب بس حواسوں میں نہیں رہی…
”ذات کا کمینہ… خواص کا شیطان“
جھوٹ بکتا تھا… اب ہی تو حواسوں میں آئی تھی اب ہی انسانیت کی کی معراج پر آن کھڑی ہوئی تھی… کائنات کے تاج ”محبت“ کو پہن لیا تھا۔
اماں اسے زبردستی اپنے ساتھ گاؤں لے گئی،حاجن بی اسے سارا وقت اپنے ساتھ لگائے رکھتیں۔ مانو اور گڑیا کبھی کبھار اس سے آکر مل جاتیں۔
جاوید نے دوسری فیکٹری لگا لی مطلب… دوسری شادی کر لی… وہ امیر سے امیر تر ہونے لگا۔
نوری پانچ وقت نماز پڑھتی… تلاوت کرتی… اور باقی کا وقت اپنے بچوں کو ڈھونڈتی تھی۔
”وہ پاگل نہیں تھی… وہ پاگل ہو ہی نہیں سکتی تھی اب“ گاؤں سے باہر نہیں نکلتی تھی… گاؤں والے اس کی رکھوالی کرتے تھے… نمازوں کے اوقات میں حاجن بی کے گھر آ جاتی… ورنہ… ورنہ… نوری کیلئے بہت گلیاں… بڑے راستے… دھول مٹی ہونے کو جہاں بھر کی خاک…
بہت ہفتے گزرے… مہینے… چند سال…
گڑیا ایک میڈم کو اپنے باپ کی کار میں بٹھا کر گاؤں لائی ”یہ گوہر تھی“ جو سارہ کو اس کے اصل ماں باپ سے ملوانے لائی تھی… وہ پچھلے چند سالوں سے جاوید کو ڈھونڈ رہی تھی۔
اب جاوید ملا تو فوراً سارہ کو لے کر پاکستان آ گئی تھی… ”سارہ“ ایک مضبوط لڑکی کی مکمل تصویر وہ نوری کے سینے سے لگی… اس کی آنکھوں کو چوما،بے نور نوری میں کچھ نور در آیا۔
”یہ اس کہانی کا انجام نہیں ہے… اس کہانی کا کوئی انجام نہیں ہے… جب نفس کی موت ہو گی… اعمال کا حساب ہوگا… جب سوال ہوگا… بس اسی وقت اس کا کہانی کا انجام ہو گا۔“

Chapters / Baab of Soda By Sumaira Hamed