Episode 11 - Soda By Sumaira Hamed

قسط نمبر 11 - سودا - سمیرا حمید

اس بات سے چاند کے اندر کا دلال مر گیا اس کا داڑھی والے سے لپٹ کر بھاگ جانے کو جی چاہا ”میرا بچہ… میرا بچہ…“ چاند اس نغمے پر جھوم کر مرنے کے قریب ہوا۔
گر پڑنے کے انداز کو لئے میاں بہت دیر تک کھڑا رہا۔
”قبروں کا ہی اتا پتا دے دو“ آواز بہت مشکل سے نکلی۔ قبریں ہم یاد نہیں رکھتے میاں… دفنا دیا تو دفنا دیا پھر پجاری نہیں بنتے ہم… کسی بھی قبر پر کھڑے ہو کر پڑھ لے فاتحہ۔
“ 
”فاتحہ کسے پڑھنی ہے… مغفرت تو انہیں میری کروانی ہے،معاف کریں گے تو ہی آگے کے راستے کھلیں گے نا میرے لئے… اب کیا کروں میں اپنا… کس آسرے پر موت سے نہ ڈروں… دم نکلا جاتا ہے یوم حساب کا سوچ کر… جو میرا گریبان پکڑا تو کس دلیل سے آزاد کرواؤں گا… کچھ بول بچے… کچھ کر میرا…“
”اس نے تجھے معاف کیا… تیرا گریبان وہ چاک نہیں کرے گا“ اگر میاں ابھی بھی نہ جاتا تو چاند بھرے بازار اپنا تماشا بنوا لیتا۔

(جاری ہے)

”تجھے کیسے پتا؟… وہ مجھے کیوں کرے گا معاف۔“
”اپنے آخری وقت میں گلابی کہا کرتی تھی،محمد ذاکر میں نے تجھے خدا کیلئے معاف کیا… جس روز تو میرے سامنے لایا جائے گا اس روز سے پہلے ہی معاف کیا…“
”یہ کہا کرتی تھی گلابی؟ داڑھی والا سیاہ تر ہو گیا۔“
چاند نے بمشکل سر ہلایا۔
گلابی نے یہ کیا کہہ دیا… گلابی نے یہ کیوں کہا… بڑبڑاتا ہوا میاں چلا گیا۔
چاند کو اپنے ساتھ لے گیا۔ چاند چوبارے کی سڑھیاں چڑھنا بھول گیا نورتن نے سوچا بیمار ہے خود ہی ٹھیک ہو جائے گا۔ کبھی کبھی آپ سے آپ جی خراب ہو ہی جاتا ہے وہ تو ہر طرف سے نورتن کے کام کا نہ رہا۔
چند دن گزرے میاں پھر آیا… سیدھا اسی کے پاس آیا۔
”میرا بچہ نہ سہی تو ہی سہی… سرکار کہتے ہیں جتنوں کو بھلی راہ دکھا سکوں اتنا ہی اچھا… بچے تو چل میرے ساتھ اللہ کی راہ بھلی سرکار کا نام بھلا… نکل چل یہاں سے… چھ لاکھ لے لے مجھ سے کاروبار کر… یہاں سے کسی ایک کو لے جا اپنے ساتھ،شادی کر باپ بن… چھوڑ دے اس بازار کو…“
چاند پھیکی ہنسی ہنس دیا۔
”ہر انسان اپنی مرضی والا،میں نے کر دیکھی اپنی مرضی،دیکھ میرا انجام یہ ہے میں میں کرنے کا نتیجہ… کہاں کی میں؟ میں ہی کیوں؟ جب راہ دکھا دی ہے سرکار دو عالمﷺ نے تو اسی ایک راہ پر کیوں نہیں چلتے ہم سب؟ اب سرکار کی مرضی ہی میری ہے میں نے بہت دیر کر دی پر تو دیر نہ کر،راستہ بدل لے،تو بھلا مانس لگتا ہے مجھے،ہم سب ہی بھلے مانس ہوتے ہیں بس یہ جو ادھر ادھر اپنی اپنی کرتے ہیں یہی ہماری جون بدل دیتی ہے۔
میرے ساتھ چل کر شادی کر،گھر بنا اپنا… خدا خوش ہو جائے گا باپ بنے گا تو قدر آ جائے گی خدائی کی،پتا لگنے لگے گا تجھے کہ خدا بندے سے کیا چاہتا ہے،باپ بن کے دیکھ بچے کو سرکار دو عالمﷺ کا نام سیکھا پڑھا،پھر اسے سینے سے لگا،سرور آ جائے تجھے… اس سرور کو چکھ سب مزے بھول جائے گا… میرے بچے تیری منت کرتا ہوں میرے ساتھ چل میں تجھے سرکار دو عالمﷺ کا نام سکھاتا ہوں،پڑھاتا ہوں بندہ مومن کہتے ہیں اطاعت میں کبھی دیری نہیں کرنی چاہئے،علم میں کوئی شرم نہیں… خدا کے بندوں میں کوئی بڑا چھوٹا نہیں چل آ میرے ساتھ… چاند نے میاں کے ہاتھ کو اپنے بازو سے پرے کیا“ دیر نہیں بہت دیر ہو گئی میاں… تم جیسے بہت دیر کر دیتے ہو میری تو اپنی جوانی جا چکی اور کتنی دیر ہوگی… خدا کے یہاں دیر نہیں ہوتی اس معاشرے میں بہت دیر ہو گئی… جنم کا اگلا ہی پل بہت دیری کر دیتا ہے۔
میاں وہیں کھڑا رہا وہ اسے لے جا کر ہی ٹلنے والا تھا چاند وہاں سے بھاگ گیا پھر کبھی نہ آیا میاں وہاں… آیا ہی کیوں تھا چاند کو پاش پاش کر گیا۔ اس میں سوراخ ٹھوک گیا۔ دھڑا دھڑ کئی در بنا گیا… میاں اسے برباد کر گیا… علم سے لاعلمی بھلی وہ رشید چاند پر خدائی جادو پھونک گیا۔ گاہک گھیرتے گھیرتے اس نے انسان گھیرنے شروع کر دیئے،الٹ پلٹ سا ہو گیا۔
 
دماغ کوٹھے سے پرے ہوتا گیا… ایک کوٹھے والی کے لڑکا ہوا اسے بڑا پیارا لگا بہت منت کی کہ دے دے مجھے… کوٹھے سے پرے پالوں گا لیکن اس نے صاف کہا کہ وہ تو اسے دلال ہی بنائے گی۔ ڈھلتی عمر میں اس ایک بچے کی صورت دیکھی تو اس پر دل و جان سے فدا ہو گیا۔ ماں کی طرح سٹھیا گیا… بچہ بچہ ہونے لگی دل میں… بہت منت کی اس کی لیکن وہ نہ مانی… بہت راضی باضی تھی وہ اسے دلال ہی بنانے پر… گاہک گھیر کر لانے میں… چاند چھپ چھپ کر بچے کو دیکھتا اس کی غوں غاں سنتا… تڑپ اٹھتا،دل کھٹا ہو گیا اس کا کوٹھے سے… بازار میں عجیب عجیب تماشا کرنے لگا… باقی لڑکوں کے ساتھ بھڑ جاتا… گاہکوں کے ساتھ بدتمیزی کرتا… اسے کوٹھے پر چڑھنے والے سب میاں ہی نظر آتے آج نہیں تو کل سب میاں کے ہی حال کو پہنچ جائیں گے… یہ سب پلٹ کر اپنے قدموں کے نشانات کیوں نہیں مٹا دیتے کہ دوزخی دروغے انہیں کھوجنے یہاں نہ آ جائیں۔
“ چاند سوچتا آجکل ایسے ہی سوچتا تھا نورتن نے صاف صاف بیٹھا کر پوچھا کیا موت پڑی ہے؟
”بچہ“ ایک ہی لفظ نکلا فوراً نکلا
کون سا بچہ کس کا بچہ؟
گلابی کا بچہ… میاں جی کا…
”وہ تو تو ہے“ نورتن چڑ گئی۔
”میں تو چاند ہوں دلال ہوں… مجھے تو میاں کا بچہ چاہئے جو اس کی مغفرت کروا سکے۔ مجھ سے کہاں ہوگی اب… مجھے تو اپنی پڑ گئی ہے…“
”پاگل ہو گیا ہے تیری ماں پر بھی یہی موت پڑی تھی… کیا کرے گا بچے کا… کیوں مانگتا پھرتا ہے ادھر ادھر والیوں سے؟“
”پالونگا… انسان بناؤنگا…“
”دلال کا بچہ دلال ہی بنے گا نا“
”دلال تو کتا ہوتا ہے سوٴر…“
”تو سوٴر ہے؟ نورتن ہنسی“
”وہ بھی اچھا ہے مجھ سے…“
اتنی غیرت کیوں امڈتی آ رہی ہے؟؟
کیا پتا…
عورت کی منڈی ہے یہ چاند جی… بچوں کی نہیں… لڑکا لڑکی سب اپنے اپنے دھندے سے… سیدھی طرح رہ ورنہ چلتا بن،بہت لحاظ کیا ہے میں نے تیرا… تو نے مجھے بہت خوش رکھا اب تک اس لئے بٹھا کر پوچھ رہی ہوں ورنہ تو جانتا ہے مجھے۔
سیدھی طرح اب اس سے رہا نہیں جا رہا تھا۔ درباروں میں جا جا فقیروں،ملنگوں کے گھٹنوں سے لگ کر بیٹھ جاتا نورتن کہتی ”گلابی بھی ایسے ہی سیٹھا گئی تھی اب اس کی باری ہے۔“
بہت جمع پونجی تھی چاند کے پاس… لیکن اب وہ اس سے وہ نہیں خرید سکتا تھا جو میاں کو چاہئے تھا،شہروں شہروں گھومتا،کہیں مہینے،کہیں سال،کہیں ایک دن… کرائے کے گھر لے لیتا پڑا درباروں میں رہتا۔
اس کے اندر ایسی بچہ بچہ ہوئی کہ اسے ساری دنیا اپنی طرح بنا بچے کے نظر آنے لگی۔اس نے کبھی کچھ نہیں مانگا تھا اب خواہش پھوٹ ہی نکلی تھی تو اس تڑپ کو دیکھ کر آسمان والا ضرور ہی بچہ آسمان سے ٹپکا دے گا۔ وہ بچے کا باپ بنے گا ماں بنے گا۔ اس کے دلار کرے گا۔ ”بچہ خواہش“ اس میں آن بسی اب جانے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔
وہ میاں کی مغفرت کا باعث نہیں بن سکا اس کا بچہ ضرور بنے گا پارکوں میں بیٹھا بچوں کو دیکھتا رہتا۔ چند ایک نرسوں کی منت کی… ایک دو غریب عورتوں سے انہوں نے بات کی… عین وقت پر ایک عورت نے پیسے واپس کر دیئے کہ نہیں دینا بچہ،ایک نے دے تو دیا… دو دن بار بار بے ہوش ہوتی رہی،روتی رہی چاند دو دن رکھ کر خود بچہ واپس اس کی گود میں ڈال آیا۔

Chapters / Baab of Soda By Sumaira Hamed