Episode 20 - Soda By Sumaira Hamed

قسط نمبر 20 - سودا - سمیرا حمید

کیا یہ سب قسمت کے کھیل ہیں؟
میاں کو کس نے کہا تھا ہیرا منڈی آکر گناہ کرے؟
رشید چاند دلال نہ بنتا تو کیا بنتا؟ حلال کے ہوتے ہوئے بھی جاوید نے اپنے بچوں کی دکان سجائی وہ اگر دلال نہ بنتا تو امین کہاں ہوتا؟
یہ سب تو انسان کے رچائے کھیل ہیں جو کھیل انسان رچاتا ہے ان میں ہار جیت نہیں ہوتی ان کے بھیانک انجام ہوتے ہیں… اور وہ صرف انجام نہیں کہلاتے… انہیں کئی نام مل جاتے ہیں جو کچھ انسان کے ہاتھ میں آتا ہے برباد ہی ہوتا ہے ”نفس“ کو ہی دیکھ لیں۔
امین… امین… بابا… بابا… یہ آوازیں اڈے پر گونجتی رہیں… ان میں سے ایک آواز بند ہو گئی۔
جوبلی نے غصے میں باؤلے کتے کی طرح رشید کو ادھیر ڈالا،رشید کی اتنی ہمت کہ وہ اس کی گردن دبوچے… جوبلی تو اسے کچا نہ کھا جائے… اس نے سب کو پرے کر دیا ور بھیڑے کی طرح اسے چیر ڈالا۔

(جاری ہے)

رشید کب کا بے ہوش ہو چکا تھا… جابجا خون نکل کر پھیل چکا تھا۔
دو بدمعاش اسے گھسیٹ کر سڑک کنارے پھینک آئے۔
رات گئے سڑک کنارے خون میں لت پت ایک لاش کو چند راہگیروں نے دیکھا تو ایدھی سنٹر فون کیا،ایمبولینس آئی،اس کی سانسیں ابھی باقی تھیں… اسے ایمرجنسی میں قریبی ہسپتال لے گئے۔
رشید کی بس سانسیں ہی باقی تھیں،خون بہت نکل چکا تھا،اندر سب کچھ ختم ہو چکا تھا… تین دن وہ سرکاری ہسپتال کی ایمرجنسی میں رہا… وہ چند گھنٹوں یا زیادہ سے زیادہ چند دنوں کا مہمان تھا،اسے وارڈ میں شفٹ کیا جا رہا تھا۔
وہ موت سی نیند میں تھا… کپکپاتی پلکوں اور بے چین پتلیوں کے ساتھ… اندر کہیں بہت اندر… امین… امین کرتا…
اسے وارڈ میں لے جایا جا رہا تھا… وہ کالی سیاہ چادر میں ملبوس ایک سوگوار عورت کے قریب سے گزرا… وہ چونکی اسے سمجھ آئی نہ یاد آیا کہ وہ کیوں چونکی… آخر کیوں؟
”یہ کیا ہوا تھا رشید بھائی؟ اشارہ پیشانی کی طرف تھا۔
”چند بدمعاشوں سے بھڑ گیا تھا آنکھ بچ گئی ورنہ آج کانا ہوتا۔“
پیشانی سے کنپٹی کی طرف آتا نشان تھا جو رشید کو تیز دھار چاقو سے لگا تھا اس پر نظر پڑتے ہی پہی نظر اس نشان کی طرف اٹھتی… سالوں بعد یہ نظر اس سوگوار عورت نوری کی بیڈ پر پڑے نیم مردہ بوڑھے پر پڑی تو وہ چونک گئی۔
”رشید“ وہ بڑبڑائی… گم سم نہ جاننے کی کیفیت لئے کھڑی رہی۔
رشید نے داڑھی رکھ لی تھی… بیماری کی وجہ سے بہت کمزور ہو چکا تھا… لاغر اور بوڑھا…
”رشید“ پھر سے بڑبڑائی۔ اسے یاد نہیں آ رہا تھا کہ کیا کرے اس کا… وہ وہاں اماں کے ساتھ آئی تھی ماں آنکھ کے موتیے کا آپریشن کروانے آئی تھیں۔ وہ سب جاوید کو پسند نہیں کرتے تھے نہ ہی نوری کے گھر آئے تھے… نوری ہی ملنے چلی جاتی تھی۔ اماں بھائی کے ساتھ گاؤں سے سیدھی ہسپتال آئی تھیں اور نوری اپنے گھر سے اماں کے پاس آ گئی۔
نوری دو قدم چلی رک جاتی… زخم کا نشان اس کی آنکھوں میں گھوم رہا تھا وہ بے چاری خود بھی کم ہی حواسوں میں رہتی تھی… یاد ہی نہ کر سکی…
رشید… کون رشید…؟؟
”رشید بھائی“ گم گفتہ خو اس کی مالک نوری نے چیخ ماری… یہ چیخ اس کے اندر کے سناٹے کو چیر کر نکلی۔ کوریڈور میں موجود سب لوگ اسے دیکھنے لگے۔
”میرا بچہ رشید بھائی…“ اس نے ایک اور دہائی دی،جی چاہا کہ دیواریں گر جائیں اور وہ رشید تک جا پہنچے۔
اس کا بھائی چند ضروری چیزیں لینے میڈیکل سٹور گیا تھا اماں کا آپریشن ہو رہا تھا۔ وہ اس طرف کو بھاگی جس طرف رشید کو لے جایا جا رہا تھا،وہ باؤلی ہو کر بھاگی،سر کی چادر گلے میں جھولنے لگی۔
”رشید بھائی“ پاگل تھی نوری بھاگتے ہوئے آوازیں دے رہی تھی جیسے وہ چھپا بیٹھا ہو خود سے۔
”رشید بھائی کہاں ہو“ وارڈ اسے نظر ہی نہیں آ رہا تھا جبکہ وہ اسی وارڈ کے قریب سے گزر کر آئی تھی۔
”مجھے رشید بھائی کے پاس جانا ہے“ اس نے قریب سے گزرتی ایک نرس کا بازو ہلا ڈالا۔
”وہاں کاؤنٹر پر معلوم کرو“ نرس بگڑ کر بولی۔
وہ کاؤنٹر کی طرف بھاگی۔ رشید…؟ انہیں کیا معلوم کون رشید؟ وہ مریض نامعلوم تھا… بیڈ نمبر کے ساتھ نام اس کا کسی کو معلوم نہیں تھا۔ وہ اس کے زخم کا بتانے لگی پھر بھاگ بھاگ کر ایک ایک وارڈ دیکھنے لگی ایک ایک بیڈ کے پاس جاتی… تیسرے وارڈ کی دوسری قطار کے آخری بیڈ پر اسے رشید چاند نظر آ گیا۔
”رشید بھائی“ وہ چلائی اور اس کے وجود کو اپنے دونوں ہاتھوں سے جھنجھوڑ ڈالا اٹھیں… میں نوری… میرا بچہ کہاں ہے… آپ… آپ کو کیا ہوا؟ وہ کیسا ہے… کس کے پاس ہے… رشید بھائی… میرا بچہ… میرا بیٹا…“
اندھا بھی رشید کی حالت دیکھ کر سمجھ جائے کہ وہ اٹھ کر بیٹھنے یا بات چیت کرنے کے قابل نہیں ہے وہ اس کا بازو جھنجھوڑ رہی تھی۔
رشید بھائی… رشید بھائی چلا رہی تھی… ایک مریض کی رشتے دار نرس کو بلا لائی،وارڈ میں موجود سبھی مریض اور عورتیں اسے دیکھ رہے تھے نرس آئی۔
”پاگل ہوئی ہو کیا مسئلہ ہے… نظر نہیں آ رہا آخری سانسیں لے رہا ہے… کون ہو تم اس کی؟
”آخری سانسیں؟ نوری نے ذرا غور سے رشید کو دیکھا۔“
”یہ کیسے آخری سانسیں لے سکتا ہے اس کے پاس تو میرا بیٹا ہے… یہ کیسے؟
”میں ان کی بہن ہوں… یہیں رہنے دے مجھے“
طریقے سے رہو اور لوگ بھی ہیں یہاں ”نرس منہ بنا کر چلی گئی نوری کھڑی رونے لگی۔
کیا یہ مر رہا ہے؟ کیوں مر رہا ہے؟ کیسے مر سکتا ہے؟ نوری پور پور جھنجھنا اٹھی بلبلانے لگی۔
وارڈ میں موجود ہر شخص اسے ہی دیکھ رہا تھا وہ دیکھے جانے والی حالت لئے ہی کھڑی تھی۔
”بھائی ہے یہ میرا“ساتھ کے بیڈ کے مریض کی ایک عورت ٹانگیں دبا رہی تھی گردن موڑے ٹکٹکی لگائے نوری کو بھی دیکھ رہی تھی تو نوری نے رندھے گلے سے اسے بلاوجہ ہی بتایا۔
عورت نے افسوس لئے سر ہلا دیا۔
”میرے بچے کا باپ ہے“ بلاوجہ ہی بتایا عورت کی آنکھیں حیرت سے پھٹنے کے قریب ہو گئیں۔
بھائی… بچے کا باپ؟
نوری بیڈ کے قریب جھک کر رشید کے منہ کے پاس ہوئی۔
”رشید بھائی“ سرگوشی کی ایک آنکھ وارڈ کی طرف رکھی اِکا دُکا ابھی بھی اسے ہی دیکھ رہے تھے… بہت دیر تک سرگوشیاں کرتی رہی… رشید بھائی… بچہ… میرا بچہ…
اب نوری ساری دنیا ہار کر وہاں کھڑی تھی ایک ایسی دنیا جو سودے کرکے اس نے بسائی تھی۔
ایک ایسی ماں جس کے بچوں نے اسے ترنوالے کھلائے تھے۔ اب ایسی عورت جب ماں بنے گی تو قیامت سے گزرے گی۔ وہ بچوں کو پیدا کرنے کے بعد ماں نہیں بنی تھی… وہ انہیں کھا چکنے کے کہیں بہت دیر بعد ماں بنی تھی۔
”ایسی عورت پر خدا رحم کرے۔“
”ایسی عورت پر سب ملکر رحم کریں۔“
نوری کا بھائی اسے ڈھونڈتا پھر رہا تھا ناکام ہو گیا تو اکیلا ہی اماں کو لے چلا گیا اس نے سوچا کہ نوری اپنے گھر واپس چلی گئی ہوگی،الٹ پلٹ سی ہو گئی تھی تو ایسی ہی حرکتیں کرتی تھی سب جانتے تھے جبکہ وہ بت بنی رشید کو تکے جا رہی تھی۔
جیسے رشید اس کا بچہ لے کر بھاگ گیا تھا اب ہاتھ آیا تھا… نوری خاکوں خاک ہو کر اسے ڈھونڈتی رہی اب ملا یہ رشید… اس کا بچہ لے جانے والا۔
”مل گئی بدھائی نوری… منے کی میّا… ملا کچھ؟ خدا کی پناہ یہ منحوس ماری آواز کس تہہ خانے سے پھر نکل آئی؟
نوری نے ڈر کر آنکھیں میچ لی… پسینے پسینے ہو گئی… صدیوں کی پیاسی لگنے لگی۔
”کیسی رہی بدھائی؟ میری بدھائی کھا گئی… کیسی رہی نوری…؟

Chapters / Baab of Soda By Sumaira Hamed