نواب بگٹی کی شہادت امریکی سی آئی اے کی گیم کا حصہ ہے، امان اللہ کنرانی

پیر 16 اکتوبر 2006 20:51

کوئٹہ(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔16اکتوبر۔2006ء) جمہوری وطن پارٹی کے سیکرٹری اطلاعات امان اللہ کنرانی نے کہا ہے کہ 1973ء کے آئین پر اگر صحیح معنوں میں عملدرآمد ہوتا تو آج پاکستان میں صوبوں کے درمیان ٹکراؤ نہ ہوتا اس ملک کو پہلے بھی جرنیلوں نے توڑا اور اگر مستقبل میں بھی کچھ ہوا تو اس کے ذمہ دار فوجی جرنیل ہی ہوں گے نواب بگٹی کی شہادت دراصل امریکی سی آئی اے کی گیم کا حصہ ہے اب بھی وقت ہے کہ اس ملک میں قومیتوں کو حقوق دیکر مکمل صوبائی خود مختاری دی جائے ۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے لبرل فورم آف پاکستان کے زیر اہتمام کوئٹہ میں ”بلوچستان کے مسائل کو ڈائیلاگ سے کس طرح آگے بڑھایا جائے ‘،کے موضوع پر سیمینار سے خطاب کے دوران کیا۔ دیگر مقررین میں معروف صحافی مجید اصغر‘متحدہ مجلس عمل کے سینیٹر کامران مرتضیٰ ایڈووکیٹ‘لبرل فورم آف پاکستان کے چیئرپرسن آصف خان ‘گل مینا بلال اور شکیل بلوچ بھی شامل تھے۔

(جاری ہے)

جے ڈبیلو پی کے سیکرٹری اطلاعات امان اللہ کنرانی نے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بد قسمتی سے اس ملک میں ہم 59سالوں میں ایک دوسرے کو نہیں سمجھ سکے بلوچستان کے مسئلے کو سمجھنے کیلئے ضروری ہے کہ ہم سب سے پہلے پاکستان کو سمجھے علامہ اقبال کے صاحبزادے جسٹس جاوید اقبال نے درست کہا تھا کہ پاکستان ایک غیر فطری ملک ہے انہوں نے پاکستان کوپانچ بلیوں کو ایک دم سے باندھنے کے مترادف قرار دیا تھا یہ ہمارے نہیں بلکہ پاکستان کے لئے خواب دیکھنے والے علامہ اقبال کے صاحبزادے کے ریمارکس ہے انہوں نے کہا کہ وہ بنگالی جنہوں نے 1906ء میں مسلم لیگ بنایا تھا اور پاکستان بنانے کیلئے اپنی جان و مالی کی قربانیاں دی تھی مگر پاکستان میں موجود اقلیت جو اب اکثریت میں ہے نے انہیں بھاگنے پر مجبور کیا انہوں نے کہا کہ نواب اکبر بگٹی کی شہادت کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنے اور ساحل پر کسی قسم کا سمجھوتہ کرنے کیلئے تیار نہیں تھے امریکہ نے عراق اور افغانستان میں مصنوعی جنگ مسلط کی ہے ان کو عراق اور افغانستان کی خود مختاری قبول نہیں تو بلوچستان کی خود مختاری کو کس طر ح قبول کریں گے انہوں نے کہا کہ نواب اکبر بگٹی سی آئی اے کے کھیل کا شکار ہوئے انہوں نے پہلے کہا تھا کہ گوادر امریکہ کے اڈے کے طور پر بنایا جارہا ہے چین کی مثال تو صرف ایک بزنس مین کی ہے ۔

امان اللہ کنرانی نے کہا کہ نواب بگٹی کا اور کوئی گناہ نہیں تھا وہ چاہتے تھے کہ ہمارے صوبے کے وسائل اور ساحل پر ہمیں ہی اختیار دیا جائے انہوں نے کہا کہ 1940ء کی قرارداد میں طبقوں کی نہیں بلکہ قوموں کی بات کی گئی ہے اور اس میں پاکستان کا ذکر بھی موجود نہیں صرف اور صرف قوموں کو اکٹھا ہونے پر زور دیا گیا تھا انہوں نے کہا کہ بلوچوں نے بھی وہی نکات پیش کئے ہیں جو قائد اعظم نے انگریزوں کے سامنے پیش کئے تھے اگر ہم غدار ہے تو قائد اعظم کے بارے میں کسی کا کیا خیال ہے ۔

انہوں نے کہا کہ میگا پروجیکٹ اور نام نہاد اعلانات سے بلوچوں کا مسئلہ حل نہیں ہوگا ضرورت اس امر کی ہے کہ صوبوں کے وسائل پر وہاں کے مقامی لوگوں کو اختیار دیا جائے۔لبرل فورم آف پاکستان کے چیئر پرسن آصف خان نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ لبرل فورم کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ جنہوں نے نواب بگٹی کی شہادت کے بعد ملک کے مختلف شہروں میں سیمینار کرائے اور واقعہ کی مذمت کی اور ہم نے تجویز دی ہے کہ بلوچستان میں جو احساس محرومی اور افراتفری پائی جاتی ہے وہاں کے عوام کو حقوق اور مراعات دی جائے اور جو ترقیاتی پروگرام شروع کئے گئے ہیں ان پروگراموں کو بگٹی پلان کا نام دیا جائے انہوں نے کہا کہ ہمارا خیال تھا کہ بلوچستان میں مڈل کلاس طبقہ موجود نہیں اس لئے وہاں کے سردار اور نواب عوام کی نمائندگی کرتے ہیں اور حکومت انہیں بھی سپورٹ کرتی ہے لیکن یہاں آکر حالات اس کے برعکس نکلے یہاں پر بہت بڑی تعداد میں مڈل کلاس موجود ہے جو اپنے حقوق کی بات بڑی آسانی اور واضح طورپر کرسکتے ہیں انہوں نے کہا کہ انڈیا اس لئے ہم سے آگے ہے کہ وہاں پر مڈل کلاس اور جمہوریت قائم ہے وہاں بھی صوبوں کے درمیان پانی کے مسئلے پر لڑائیاں لڑی جارہی ہے قتل ہوتے ہیں کیسز سپریم کورٹ میں چل رہے ہیں لیکن کبھی بھارت سے علیحدگی کی نوبت نہیں آئی ہے انہوں نے کہا کہ پاکستان میں قومیتوں کا مسئلہ انتہائی شدت کے ساتھ موجود ہے مسائل کا حل جمہوریت اور مذاکرات میں ممکن ہے انہوں نے کہا کہ بلوچستان کا مسئلہ اس وقت شروع ہوا جب صوبے میں چھاؤنیاں قائم کرنے کا سلسلہ شروع کیا گیا چھاؤنیاں بنیادی طور پر بارڈر کے قریب بنائی جاتی ہے یہاں بلوچستان میں چھاؤنیاں بنانا سمجھ سے بالاتر ہے انہوں نے کہا کہ اگر ملک میں غیر جمہوری عمل جاری رہا تو وفاق کو شدید خطرہ لاحق ہوگا ۔

سینیٹر کامران مرتضیٰ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم اور ہندوستان نے ایک ہی دن میں انگریزوں سے آزادی حاصل کی اگر موازانہ کیا جائے تو انڈیا اور پاکستان دو مختلف مقامات پر کھڑے ہیں انڈیا نے شروع ہی دن سے جمہوریت کی رو پر عمل کیا اور ہم نے جمہوریت کو اپنے پاس سے بٹکھنے نہیں دیا ملک میں 59سالوں میں آدھی زائد حکمرانی فوج نے کی تھوڑی بہت اگر سیاستدانوں کو موقع ملا تو انہوں نے اپنے اعمال سے فوج کو آنے کا موقع دیا انہوں نے کہا کہ ماضی میں اس ملک کو فوج کی جرنیلوں نے تھوڑا اور مستقبل میں بھی اگر کچھ ہوا تو اس کے ذمہ دار فوجی جرنیل ہی ہونگے۔

معروف صحافی مجید اصغر نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان کا مسئلہ اسی روز پیدا ہوگیا جب قلات اسٹیٹ اور برٹش بلوچستان کو ان کے مرضی کے بر خلاف پاکستان میں شامل کیا گیا خان آف قلات اور نواب محمد خان جوگیزئی کے ساتھ ہونے والے معاہدوں کی پاسداری نہیں کی گئی انہوں نے کہا کہ ریاست قلات اور برٹش بلوچستان کے عوام کو خود مختاری اور وسائل ان کے مانگنے سے زیادہ دینے چاہئے تھا مگر اس پر عملدرآمد نہیں ہوا قائد اعظم نے بھی 14نکات میں بلوچستان کو زیادہ سے زیادہ خود مختاری دینے کی بات کی ہے قائد اعظم کے سوا مرکز کے کسی بھی حکومت نے بلوچستان کو اہمیت نہیں دی بانی پاکستان کی وفات کے بعد اس ملک کا اقتدار انگریز کے تربیت یافتہ بیوروکریسی اور جاگیرداروں کی ہاتھوں چلا گیا جنہوں نے پاکستان اور آئین کو نہ بنانے کا تہیہ کیا ہوا ہے بیورو کریسی اور جاگیرداروں کا اس ملک چلانے کی نیت ہے اور نہ ہی اہلیت ہے انہوں نے کہا کہ وفاقی طرز حکومت میں اکائیوں کے اختیارات سب سے زیادہ ہوتے ہیں لیکن پاکستان میں وفاق طاقتور جبکہ صوبے انتہائی کمزور ہے جس کی وجہ سے تعصب اور نفرتیں جنم لے رہی ہے انہوں نے کہا کہ اس ملک نے صوبے نہیں بلکہ پہلے سے موجود صوبوں نے اس ملک کو بنایا ہے یہاں کی قیادت سے پوچھا جائے کہ وہ مرکز کو کسطرح اختیارات دینا چاہتے ہیں انہوں نے کہا کہ یہاں کے سردار اور نواب غدار نہیں بلکہ انہوں نے تو اپنی سیاسی ‘قومی ‘ساحل اور وسائل پر اختیارات کی بات کی جو کوئی جرم نہیں گرینڈ جرگے نے جو نکات پیش کئے ہیں ان میں علیحدگی کا کوئی ذکر نہیں ۔

شکیل بلوچ نے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ دور میں بلوچستان نے خطے میں اہم صورت اختیار کرلی ہے یورپ کے وسائل ختم ہونے کے بعد اب وہ سینٹرل ایشیاء کے وسائل پر دسترس حاصل کرنے کیلئے گوادر اور بلوچستان کو اپنے کنٹرول میں رکھنا چاہتے ہیں انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے مسئلے کو اگر شروع میں مذاکرات کے ذریعے حل کیا جاتا تو آج یہ صورت حال نہیں ہوتی۔

متعلقہ عنوان :