چیف جسٹس کو سپریم کورٹ پاکستان کی گولڈن جوبلی تقریبات مین شرکت کے لیے سیکورٹی فراہم نہ کرنے پر وفاقی سیکریٹری داخلہ ، چیف سیکریٹری سندھ ، سیکریٹری داخلہ سندھ ، صوبائی پولیس افسر سندھ اور سی سی پی او کراچی کو توہین عدالت کے نوٹس جاری ۔تفصیلی خبر

جمعرات 17 مئی 2007 22:15

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔17مئی۔2007ء) سندھ ہائی کورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس مسٹر جسٹس سرمد جلال عثمانی اور مسٹر جسٹس علی سائیں ڈنو مھتیلو پر مشتمل ڈویژن بینچ نے عدالتی حکم کے باوجود چیف جسٹس پاکستان افتخار محمد چوہدری کو سپریم کورٹ پاکستان کی گولڈن جوبلی تقریبات مین شرکت کے لیے سیکورٹی فراہم نہ کرنے پر وفاقی سیکریٹری داخلہ سید کمال شاہ، چیف سیکریٹری سندھ شکیل درانی، سیکریٹری داخلہ سندھ بریگیڈیئر (ر) محمد محترم، صوبائی پولیس افسر سندھ نیاز احمد صدیقی اور سی سی پی او کراچی اظہر فاروقی کو توہین عدالت کے نوٹس جاری کردیئے اور ان کو حکم دیا کہ وہ 22 مئی تک اپنے جواب داخل کریں۔

مذکورہ افسران کے خلاف صدر سندھ ہائی کورٹ بار ایسویس ایشن ابرار حسن ، صدر کراچی بار ایسوسی ایشن افتخار جاوید قاضی ، ممبر پاکستان بارکونسل محمدیاسین آزاد اور ممبر سندھ بار کونسل صلاح الدین گنڈا پور نے توہین عدالت کی درخواست دائر کی ہے ۔

(جاری ہے)

توہین عدالت کی درخواست دائر ہونے کے بعد مذکورہ درخوسات گزاروں نے سندھ بار ایسوسی ایشن کے دفتر میں ایک ہنگامی پریس کانفرنس بھی کی درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ سندھ ہائی کورٹ کے حکم پر عملدرآمد نہ کرکے مدعا علیہان توہین عدالت کے مرتکب ہوئے ہیں لہذا ان کے خلاف توہین عدالت کا مقدمہ درج کرکے قانون کے مطابق کارروائی کی جائے اور انہیں قرار واقعی سزا دی جائے ۔

توہین عدالت کی درخواست میں موقف اختیا ر کیا گیا ہے کہ سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن نے سپریم کورٹ پاکستان کی گولڈں جوبلی کی تقریبات منانے کا فیصلہ ڈیڑھ ماہ قبل 23مارچ 07ء کو کیا تھا جس میں طے کیا گیا تھچا کہ 12مئی کو گولڈن جوبلی تقریبات میں چیف جسٹس پاکستان افتخار محمد چوہدری کو مہمان خصوصی کے طور پر مدعو کیا جائے گا لیکن حیرت انگیز طور پر حکومت پاکستان اور حکومت پنجاب کو جیسے ہی پتہ چلا کہ چیف جسٹس پاکستان 12مئی کو سندھ ہائی کورٹ بار سے خطاب کریں گے اسی روز انہوں نے اسلام آباد میں ریلی اور جلسہ منعقد کیا ۔

جبکہ حکومت سندھ اور اس کی اتحادی جماعتوں نے بھی اسی روز اسی وقت کراچی میں ریلی اور جلسے منعقد کرنے کا فیصلہ کرلیا ۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ سندھ ہائی کورٹ نے گیارہ مئی 07ء کو ایک بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیم کی درخواست پر مدعا علیہان کو حکم دیا تھا کہ 12مئی کو چیف جسٹس پاکستان کی کراچی آمد کے موقع پر انہیں مکمل سیکورٹی فراہم کی جائے اور وہ جس روٹ سے جس طرح جانا چاہیں انہیں بحفاظت وہاں لے جایا جائے جس پر مدعا علیہان اور حکومت سندھ نے عدالت کو مکمل یقین دہانی کرائی کہ اس کے حکم پر عملدرآمد کیا جائے گا۔

لیکن 11مئی اور 12مئی کی درمیانی شب سے ہی مدعا علیہان نے عدالتی حکم اور تمام یقین دہانیوں کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرنا شروع کردی ۔ جبکہ خلاف ورزی کرنے والے نہ کسی سرکاری یونیفارم میں ملبوس تھے اور نہ ہی وہ کسی سرکاری گاڑی پر سوار تھے ۔ بلکہ سادہ کپڑوں میں ملبوس افراد نے پرائیویٹ گاڑیوں میں سوار ہوکر عدالتی حکم کی دھجیاں بکھیریں ۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ پوری شارع فیصل اور قائداعظم انٹرنیشنل ایئر پورٹ کو بڑے کنٹینرز ، ٹرکوں اور منی بسوں کے ذریعے مکمل طور پر بند کردیا تھا ۔

جبکہ سندھ ہائی کورٹ ، سیشں کورٹ کراچی ، ملیر کورٹ اور مزار قائد کی جانب جانے والے تمام راستی بھی مکمل طو رپر بند کردیئے گئے تھے جس کے باعث سندھ ہائی کورٹ اور سیشن عدالتوں کے ججوں اور وکلاء کو آنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑا ۔ جبکہ کوئی راستہ ایسا نہیں تھا جس سے ایک موٹرسائیکل پر سوار ہوکر چیف جسٹس پاکستان افتخار محمد چوہدری کے استقبال کے لئے ایئرپورٹ تک جایا جاسکتا ہو ۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ نے اس تمام تر صورتحال پر 12مئی کو عدالت پہنچنے ہی از خود کارروائی کی اور نوٹس لیتے ہوئے انسپکٹر جنرل پولیس سندھ کو طلب کیا جس پر اس نے کہا کہ اسے نہیں معلوم کہ یہ تمام راستے کس کے کہنے پر بند کئے گئے ہیں ۔ اس سلسلے میں پولیس بالکل بے بس ہے اور ان رکاوٹوں کو ہٹانے کا پولیس کے پاس کوئی اختیار نہیں ہے ۔

عدالت نے سیکریٹری داخلہسندھ اور دیگر اعلیٰ صوبائی حکام کو حکم دیا کہ تمام راستوں سے فی الفور رکاوٹیں ہٹائی جائیں لیکن عدالتی حکم کے باوجود راستے نہیں کھولے گئے ۔ اس طرح 11اور 12مئی کو مدعا علیہان نے عدالت کو جو یقین دہانیاں کروائیں اور عدالت نے جو حکم دیتے انہیں یکسر نظر انداز کیا گیا اور رکاوٹیں نہیں ہٹائی گئیں ۔ ان ذمہ داروں کی جانب سے بے بسی کا اظہار کرنے کا صاف مطلب ہے کہ انہوں نے غیر قانونی اقدامات کی اجازت دی اور ان غیر قانونی اقدامات کو تحفظ فراہم کیا ۔ مدعا علیہان کی جانب سے عدالت کے حکم کی خلاف ورزی جان بوجھ کر کی گئی تاکہ چیف جسٹس پاکستان کو ملیر کراچی اورسندھ ہائی کورٹ بار سے خطاب کرنے سے روکا جاسکے ۔