چیف جسٹس کا مقدمہ بہت اہم ہے ، تھوڑا سا رسک بھی نہیں لےسکتے۔ جسٹس خلیل الرحمان رمدے۔۔ صدر، وزیراعظم کی درخواست کا پابند ہے، تاہم اسے یہ بھی تو دیکھنا چاہیے کہ جو اس کے پاس شکایت آئی ہے وہ قابل بھی غورہےکہ نہیں۔ دعا کریں کہ تمیز الدین کیس کی طرح اس مقدمے کا فیصلہ نہ ہو، سماعت کےدوران ریمارکس، کیس کی سماعت کل بدھ تک ملتوی کردی گئی

منگل 22 مئی 2007 14:00

اسلام آباد (اردوپوائنٹ تازہ ترین اخبار22 مئی2007) سپریم کورٹ آف پاکستان کے فل کورٹ نے صدارتی ریفرنس اور سپریم جوڈیشل کونسل کی تشکیل کے خلاف چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اور دیگر افراد کی جانب سے آئینی درخواستوں کی سماعت کل بروز بدھ تک کیلئے ملتوی کر دی ہے۔ فل کورٹ کے سربراہ جسٹس خلیل الرحمان رمدے نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اللہ تعالیٰ کمزور اور غریب شخص کے ساتھ ہے۔

چیف جسٹس کا مقدمہ بہت اہم ہے جس کا فیصلہ 13ججوں نے کرنا ہے اس سلسلے میں تھوڑا سا رسک بھی نہیں لے سکتے۔ صحیح نتیجے پر پہنچنے کے لئے ہر بات پر جرح کرتے ہیں ۔ صدر ، وزیر اعظم کی درخواست کا پابند ہے تاہم اسے یہ بھی تو دیکھنا چاہیے کہ جو اس کے پاس شکایت آئی ہے وہ قابل غور بھی ہے کہ نہیں ۔ ریفرنس کا فائل کرنا پروسیڈنگ نہیں ہے۔

(جاری ہے)

سماعت کے معانی کو اسی تاثر کے ساتھ سمجھنا پڑتا ہے جو آئین اور قانون نے واضح کیا ہے۔

جبکہ وفاق کے وکیل قیوم ملک نے دلائل دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر صدر ریفرنس دائر نہ کریں تو پروسیڈنگ کیسے ہو گی۔ ڈائریکشن کا مطلب یہ ہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل معاملے کی ضرور انکوائری کرے کوئی بھی عدالت سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کے خلاف سماعت کا اختیارنہیں رکھتی جسے پارلیمنٹ میں ہونے والی پروسیڈنگ کو چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے یہ دلائل منگل کے روز فل کورٹ سماعت کے دوران دئیے ہیں۔

سپریم کورٹ کے 13رکنی فل بنچ نے جسٹس خلیل الرحمان رمدے کی سربراہی میں مختلف آئینی درخواستوں کی سماعت کی۔ وفاق کے وکیل قیوم ملک نے گزشتہ روز بھی سپریم جوڈیشل کے حق میں اپنے دلائل جاری رکھے ۔ قیوم ملک نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ وہ آئین کے 30آرٹیکل کے تحت اپنی بحث کا آغاز کریں گے جن کے تحت سپریم کورٹ کو سپریم جوڈیشل کونسل کے خلاف کسی بھی درخواست کی سماعت کا اختیار نہیں ہے۔

اس حوالے سے انہوں نے آئین کے آرٹیکل 13۔ 1956ء کے آرٹیکل 189۔ اور 1973 کے آئین کا حوالہ دیا اور کہا کہ اسمبلی کی کارروائی کے خلاف کسی بھی عدالت میں نہیں جا سکتے۔ اس طرح سے کونسل کی کارروائی بھی ایکسکلوژو ہے اس لئے اس کے خلاف بھی کسی عدالت میں نہیں جایاجا سکتا ہے۔ ان نقاط کی وضاحت کیلئے زیادہ وقت نہیں لگاؤں گا اس پر جسٹس خلیل الرحمان رمدے نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آپ نے ہمرا صبر آزما لیا ہے ہمیں کوئی جلدی نہیں ہے یہاں تک کہ اس مقدمے کی اہمیت کے پیش نظر تمام ججوں نے اپنی گرمیوں کی چھٹیاں بھی ختم کر لی ہیں۔

اس پر قیوم ملک نے کہاکہ فاروق لغاری کیس میں بھی ججوں نے گرمیوں کی چھٹیاں نہیں کی تھیں ۔ اسلام میں کوئی چھٹی نہیں ہے۔ اس پر جسٹس خلیل الرحمان رمدے نے ریمارکس دئیے کہ اسلام کو اپنے مطلب کے وقت استعمال کر لیا جاتا ہے کیسا اسلام ہے کہ جس میں ججوں کا رگڑا نکالنے کا حکم دیا گیا ہے۔ چیف جسٹس کو اٹھا کر سیکشن آفیسر بنا دو اور جو عرضی آئے اسلام کے نام پر بے ایمانی کرو۔

وفاق کے وکیل نے کہاکہ آئین کے آرٹیکل 211کے تمام شقوں کے بارے میں بتاؤں گا فیصلہ عدلت نے کرنا ہے۔ آئین بنانے والے نہیں چاہتے تھے کہ صدر کے اختیارات پر کسی قسم کی کوئی قدغن لگائی جا سکے۔ جسٹس منیر کے مقدمہ کے تحت سپریم جوڈیشل کونسل ہی 209کے تحت دائرکردہ ریفرنس کی سماعت کر سکتی ہے۔ اور اس کو چیلنج نہیں کیا جا سکتا ہے۔ اس پر جسٹس محمد نواز عباسی نے کہاکہ آپ ابھی پروسیڈنگ کے حوالے سے بات کریں باقیوں کا ابھی مرحلہ نہیں آیا۔

جسٹس خلیل الرحمان رمدے نے کہا کہ ریفرنس کے معاملات صدر کی ڈائریکشن سے جاری ہوتے ہیں پھر سپریم جوڈیشل کونسل انکوائری کرتی ہے۔ پھر صدر کو اپنی رپور دیتی ہے جس پر وہ جج کی برطرفی کا فیصلہ کرتا ہے یہ تمام اقدامات تو 209 میں واضح ہیں جبکہ آرٹیکل 211میں صرف 3 مرحلوں کا ذکر ہے اور یہی سب سے بڑی مشکل ہے ۔ وفاق کے وکیل نے کہاکہ ریفرنس کا فائل کرنا بھی پروسیڈنگ میں شامل ہے جسٹس خلیل الرحمان رمدے نے کہاکہ سپریم کورٹ کے تمام فیصلے اہم ہیں ان سے ہمیں علم حاصل ہوتا ہے۔

تاہم ہر فیصلہ اپنے وقت اور ماحول کے مطابق ہے وفاق کے وکیل نے کہاکہ اگر صدر ریفرنس دائر نہ کرے تو پروسیڈنگ کیسے شروع ہو گی۔ باقی جو مسائل ہیں وہ قانون سازوں کا درد سر ہے۔ انہوں نے اس سلسلے میں سپریم کورٹ کے کئی فیصلوں کا حوالہ دیاجن میں جان محمد 1968ء ، سجاد احمد خان کیس جو کہ 5ججوں کا فیصلہ تھا جس میں کمشنر کے پاس فیصلے کے دو مرحلے تھے ایک تو اس بات کا فیصلہ کرنا کہ معاملہ عدالت میں بھیجنا ہے یا نہیں اور بعد ازاں عدالت کا اس معاملے کی پروسیڈنگ کرنا شامل ہے۔

1965ء میں محمد افضل بنام حکومت پاکستان کے مطابق ملزم کو کمشنر کے سامنے پیش کیا جاتا ہے تو اس کے پاس اختیارات ہیں کہ وہ چاہے تو عدالت کو معاملہ بھیج دے۔ جسٹس سید جمشید علی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہاکہ صدر کا حکم انتظامی حکم ہے کیا انتظامیہ کا حکم عدالتی پروسیڈنگ میں حائل ہو سکتا ہے۔ جسٹس خلیل الرحمان رمدے نے کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل کی پروسیڈنگ کا سٹیٹس کیا ہے۔

انہوں نے قیوم ملک سے کہاکہ آپ کی طرف سے پیش کردہ ججمنٹ تو مقدمے سے متعلقہ نہیں ہے البتہ آپ عدالت سے متعلقہ ضرور ہیں۔ وفاق کے وکیل نے کہاکہ آپ مجھے پڑھنے نہیں دے رہے ہیں ۔ پہلے ہی نئی عینک لگوانے کی وجہ سے پڑھنے میں دشواری ہو رہی ہے اس پر جسٹس خلیل الرحمان رمدے نے کہاکہ عینک کے ساتھ ساتھ پتہ نہیں آپ کو کیا کیا لگانا پڑے گا۔ وفاق کے وکیل نے کہاکہ مرزا محمود بیگ بنام کمشنر ملتان ایک فٹ کیس ہے جس میں ٹربیونل کو ریفرنس بھیجا گیا تھا۔

جسٹس محمد نواز عباسی نے کہاکہ کمشنر پہلے تو مقدمے کا ریکارڈ طلب کرتا ہے بعد میں کوئی کارروائی کرتا ہے۔ وفاق کے وکیل نے کہا کہ کمشنر کی طرح صدر بھی وزیر اعظم کی درخواست کا جائزہ لے کر فیصلہ کرتا ہے۔ جسٹس خلیل الرحمان رمدے نے کہاکہ کمشنر کے معاملے میں دو سٹپ ہیں پہلا کمشنر کا سوچنا اور دوسرا پروسیڈنگ ہے لیکن یہ پروسیڈنگ اور رائے ایکٹ کے تحت ہے جبکہ صدر ریفرنس اور پروسیڈنگ ایکٹ کے تحت نہیں آتے اگر کمشنر کے معاملے میں بھی پروسیڈنگ کا ذکر ہوتا تو بھی ہم کہتے یہ متعلقہ بات ہے ۔

انہوں نے وفاق کے وکیل کو کہا کہ آپ اپنی کہی ہوئی باتوں کی خود نفی کر دیتے ہیں آپ چاہتے ہیں کہ ہم وہی کچھ دیکھیں جو آئین اور قانون میں نہیں ہے اور فیصلہ کر دیں آج آپ غلط موڈ میں ہیں۔ اس پر وفاق کے وکیل قیوم ملک نے کہاکہ میں موڈ میں نہیں ہوں۔ میں بہت خوش ہوں آپ جو مرضی آئے سوال کریں لیکن اس پر بحث نہ کریں۔ وفاق کے وکیل نے سٹیٹ بنام نعیم اللہ 2001ء کیس کا ہوالہ دیا جو کہ ہزار فورسٹ ایکٹ 1996ء کے تحت دائر کیا گیا تھا جس میں تمام سماعت کا تعلق الزام اور جرم کی نوعیت پر ہوتی ہیں۔

جرم ہونے پر ہی فرد جرم عائد ہوتی ہے قیوم ملک ایڈووکیٹ نے جان محمد ، درباری لال ، ویندر کمار ، غلام محمد بنام سٹیٹ ، فضل فراش بنام مشتاق جان کے مقدمات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ پروسیڈنگ ریفرنس کے تمام تقاضوں کو کور کرتی ہے۔ ریفرنس کا فائل کیا جانا بھی ناقابل چیلنج ہے۔ اس پر جسٹس فقیر محمد کھوکھر نے ریمارکس دیتے ہوئے کہاکہ ریفرنس کا فائل کیا جانا کونسل کی پروسیڈنگ سے پہلے ہے جبکہ پروسیڈنگ بعد میں ہے۔

نواب دین 1979ء کیس کے مطابق ریفرنس کا فائل کیا جانا پروسیڈنگ کا حصہ نہیں ہے۔ وفاق کے وکیل نے مزید دلائل دیتے ہوئے کہا کہ تمیز الدین کیس کے بعد یہ دوسرا اہم مقدمہ ہے اس پر جسٹس خلیل الرحمان رمدے نے کہاکہ دعا کریں کہ تمیز الدین کی طرح اس مقدمے کا فیصلہ نہ ہو جو سلوک آج تمیز الدین کے پاس کوئی چوائس نہیں ہے اسے تو سماعت کرنا ہی ہے۔ وفاق کے وکیل نے کہاکہ کونسل کی طرح صدر بھی وزیر اعظم کی درخواست کا پابند ہے۔

صدر تو صرف ریفرنس بھیجتا ہے۔ اصل کردار تو وزیراعظم کا ہے۔ سماعت جاری تھی کہ پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین علی احمد کرد نے عدالت سے استدعا کی کہ حکومتی وکلاء عدالت کا فضول بحث میں وقت ضائع کر رہے ہیں انہیں وقت کا پابند بنایا جائے اس پر جسٹس خلیل الرحمان رمدے نے کہاکہ دونوں فریقوں کے لئے دو راستے ہیں ایک تو وقت طے کر لیں کہ کس نے کتنا بولنا ہے یہاں یہ روایت نہیں رہی ہے کہ کسی وکیل کو دلائل مختصر کرنے کی ہدایت کی جا سکے۔

یہ اہم کیس ہے جس میں کسی ناراضگی مول نہیں لے سکتے۔ آپ دونوں جائیں اور چائے کافی نہ پئیں صرف ٹھنڈا پانی پی کر فیصلہ کریں اور عدالت کو آگاہ کریں اس کے بعد عدالت کی کارروائی ساڑھے گیارہ بجے تک ملتوی کر دی گئی۔ وقفے کے بعد وطن پارٹی کے ظفر اللہ نے اپنی درخواست کے حوالے سے جلد سننے کی استدعا کی جومسترد کر دی گئی۔ بعد ازاں وفاق کے وکیل نے کئی اور مقدمات کا حوالہ دیا جن میں کریم بی بی کیس ، وزیر کیس ، ماہ جبیں کیس ، خستہ گل کیس ، گینگا تقسیم کیس کا حوالہ دیا اور کہا کہ ان سب مقدمات میں کبھی پروسیڈنگ کو اہمیت دی گئی ہے اور پروسیڈنگ کی تعریف بیان کی گئی ہے۔

اس پر جسٹس خلیل الرحمان رمدے نے کہاکہ پروسیڈنگ کی جس طرح تعریف کی گئی ہے اسے اس طرح استعمال کیا جائے نوب دین کیس 1979ء میں کیا گیا ہے ۔ پروسیڈنگ کا لفظ استعمال ہواہے جس کا عام مفہوم بیان نہیں کیا جا سکتا۔ مجسٹریٹ کے ایف آئی آر کینسل کرنے سے اس کے خلاف نظر ثانی کی اپیل دائر نہیں ہو سکتی جبکہ جسٹس فقیر محمد کھوکھر نے کہاکہ ایف آئی آر کو پیش کرانے کے لئے رٹ پٹیشن دائر کرنی پڑتی ہے بعد ازاں قیوم ملک نے چوہان بنام سٹیٹ ، محمد انجم فاروق پراچہ کے مقدمات کا حوالہ دیا تو جسٹس خلیل الرحمان رمدے نے کہاکہ ابھی اس قانون کا فیصلہ نہیں ہو سکا ہے قیوم ملک نے مختلف ملکی اور غیر ملکی ڈکشنریوں کا بھی حوالہ دیا جس میں پروسیڈنگ کا مطلب بیان کیا گیا تھا ۔

انہوں نے مزید کہا کہ کونسل ہائی جوڈیشل باڈی ہے جس کے پاس لا محدود اختیارات ہیں اس لئے اس کو دیکھنے کیلئے آرٹیکل 211 کے ساتھ ساتھ 209 کا بھی جائزہ لینا پڑے گا۔ جسٹس خلیل الرحمان رمدے نے وفاق کے وکیل سے کہاکہ آپ نے صدر کو الیکشن کی اجازت دی تھی اس وقت آؤسٹر کلا زکہا گیا تھا کیا اس وقت اتنا لائق نہیں تھے ۔ اس پر وفاق کے وکیل نے کہاکہ وہ اتنا لائق ہوتا تو آج ججوں کے ساتھ بیٹھا ہوتا اس پر جسٹس خلیل الرحمان رمدے نے کہاکہ جہاں او رجس جگہ اللہ تعالیٰ چاہتے ہیں اسے جگہ عنایت فرماتے ہیں۔

اس میں انسان کا کوئی عمل دخل نہیں ہے نہ ہی اس کا معیار لائق اور نالائق ہونے پر ہے۔ انہوں نے وفاق کے وکیل قیوم ملک سے کہاکہ بطور جج ہائی کورٹ آپ نے صدر رفیق تارڑ کو اتنا پکا صدر بنایا تھا کہ وہ آج بھی خود کو صدر کہتے ہیں ۔ سماعت ابھی جاری تھی کہ مزید سماعت آج بروز بدھ تک کے لئے ملتوی کر دی گئی۔ وفاق کے وکیل آج بھی اپنے دلائل جاری رکھیں گے۔