پانچ دنوں میں پانچ بم دھماکے ،60سے زائد افراد شہید ہوئے ، فورسز اور شدت پسندوں کا آمنا سامنا جنوبی وزیرستان میں ہے ، لاشیں اسلام آباد، پنڈی، پشاور اور چارسدہ میں گر رہی ہیں ، برطانوی ریڈیو

جمعہ 13 نومبر 2009 21:06

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین ۔13نومبر۔2009ء) ضلع چارسدہ میں منگل کو ہونے والے دھماکے میں ملوث ہاتھوں نے’ دھماکوں کی ہیٹرک’ کرنے کے بعد صرف ایک دن کا وقفہ دیتے ہوئے پشاور میں انتہائی حساس علاقے کو نشانہ بنایا اور اس کے فوراً بعد ہی بنوں میں پولیس سٹیشن پر حملہ کر دیا۔ان پانچ دنوں میں ہونے والے پانچ بم حملوں میں 60 سے زائد افراد شہید ہوگئے ہیں۔

بظاہر یہ جنوبی وزیرستان میں جاری فوجی کارروائی کا ردعمل سمجھا جاتا ہے جہاں پر سکیورٹی فورسز اس غرض سے کارروائی میں مصروف ہیں تاکہ شدت پسندوں کا قلع قمع کرکے ملک کے اندر ہونے والے تشدد کا گھلا گھونٹ دیا جائے لیکن نوے فیصد علاقے پر قبضے کے بعد تشدد میں کمی تو کْجا بلکہ اس میں الٹا مسلسل اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے۔

(جاری ہے)

ایسا لگتا ہے کہ ملک میں بیک وقت دو عسکری کارروائیاں جاری ہیں۔

ایک سکیورٹی فورسز جنوبی وزیرستان میں شدت پسندوں کے زیر کنٹرول علاقوں میں کررہی ہیں جبکہ دوسری کارروائی شدت پسندوں کی جانب سے حکومت کے زیرکنٹرول علاقوں میں جاری و ساری ہے۔عجیب بات تو یہ ہے فریقین کا آمنا سامنا جنوبی وزیرستان میں ہے اور لاشیں اسلام آباد، پنڈی، پشاور اور چارسدہ میں گر رہی ہیں۔فرض کریں کہ ہم کچھ دیر کے لیے جنوبی وزیرستان میں طالبان کی ہلاکتوں کے حوالے سے حکومتی بیانات کے اعدادو شمار کو درست مان لیتے ہیں تو آپریشن میں مارے جانے والے شدت پسندوں کی تعداد ساڑھے تین سو سے زائد بنتی ہے۔

اب اگر اس کا موازانہ اسی عرصے کے دوران بظاہر شدت پسندوں کے ہاتھوں ہونے والی کارروائیوں کے نتیجے میں ہونے والی سکیورٹی اہلکاروں اور عام شہریوں کی شہادتوں سے کیا جائے تو اکتوبر کے مہینے سے اب تک اسلام آباد، راولپنڈی، پشاور اور چارسدہ میں شہداء کی تعداد بھی تین سو کے لگ بھگ بنتی ہے اور اگر اس میں جنوبی وزیرستان میں سکیورٹی فورسز کو پہنچنے والے جانی نقصان کو شامل کرلیا جائے تو یہ تعداد ساڑھے تین سو کے قریب پہنچ جاتی ہے۔

شدت پسندوں اور عام شہریوں و سکیورٹی فورسز کو پہنچنے والے جانی نقصانات کے ان اعداد و شمار کے نتیجے میں فوجی کارروائی اور شدت پسندوں کی کارروائیوں کا اگر تقابلی جائزہ لیا جائے تو دونوں کا پلڑہ قریب قریب برابر لگتا ہے ۔ فرق صرف یہ ہے کہ جنوبی وزیرستان میں طالبان سے نوے فیصد علاقے واپس لینے کو بس ایک قسم کا ’ بونس’ سمجھا جائے۔