بلدیاتی اداروں کو سیاسی نہیں انتظامی ہونا چاہئے ، سپریم کورٹ آف پاکستان ،عوامی نمائندوں کا انتخاب ہر شہری کا حق ہے ،جمہوریت آسمان سے نہیں گرتی، اس کا اطلاق نچلی سطح سے ہوتا ہے ، اکرم شیخ ،حلقہ بندی کی ذمے داری الیکشن کمیشن کو دینی ہے تو قانون میں ترمیم کرنا ہو گی ،الیکشن کمیشن کے وکیل کا موقف ،حلقہ بندیوں سے متعلق اٹھارویں ترمیم میں آرٹیکل دو سو بائیس میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی، لوکل باڈیز سسٹم سیاسی نہیں انتظامی یونٹ ہوگا ، اٹارنی جنرل ، چیئرمین اور میئر کا انتخاب الیکٹورل کالج کے ذریعے ہونا انتظامی نہیں سیاسی یونٹ ہوگا، جسٹس شیخ عظمت سعید

بدھ 19 فروری 2014 19:34

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔19 فروری ۔2014ء) چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی نے سندھ میں بلدیاتی انتخابات سے متعلق کیس کی سماعت کے دور ان کہا ہے کہ بلدیاتی اداروں کو سیاسی نہیں انتظامی ہونا چاہئے بدھ کو سندھ میں بلدیاتی انتخابات سے متعلق کیس کی سماعت چیف جسٹس تصدق جیلانی کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی ۔ الیکشن کمیشن کے وکیل اکرم شیخ نے کہا کہ عوامی نمائندوں کا انتخاب ہر شہری کا حق ہے ،جمہوریت آسمان سے نہیں گرتی، اس کا اطلاق نچلی سطح سے ہوتا ہے۔

اکرم شیخ نے کہا کہ حلقہ بندیوں کے موجودہ قوانین شفاف انتخابات کرانے میں مدد گار نہیں، حلقہ بندی کی ذمے داری الیکشن کمیشن کو دینی ہے تو قانون میں ترمیم کرنا ہو گی جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ بلدیاتی اداروں کو سیاسی نہیں انتظامی ہونا چاہئے، آسان کام تو یہ تھا کہ 1974میں حلقہ بندیوں کا قانون بنا، اس میں بلدیاتی انتخابات کی بات بھی شامل کر دی جاتی ۔

(جاری ہے)

اٹارنی جنرل سلمان اسلم بٹ نے موقف اختیار کیا کہ اٹھارویں ترمیم سے پہلے قومی و صوبائی اسمبلیوں کا انتخاب الیکشن کمیشن کی ذمہ داری تھی، ترمیم کے بعد بلدیاتی انتخابات کی ذمہ داری بھی اسے سونپ دی گئی۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ حلقہ بندیوں سے متعلق اٹھارویں ترمیم میں آرٹیکل دو سو بائیس میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی، لوکل باڈیز سسٹم سیاسی نہیں انتظامی یونٹ ہوگا۔

بلدیاتی انتخابات میں ووٹ بنیادی نہیں، سول حق ہے۔ جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہا کہ چیئرمین اور میئر کا انتخاب الیکٹورل کالج کے ذریعے ہونا انتظامی نہیں سیاسی یونٹ ہوگا، آپ سندھ اور پنجاب کے بلدیاتی ایکٹ نکال کر پڑھ لیں ، آرٹیکل دو سو بائیس کے تحت حلقہ بندیاں کرنا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے۔ جسٹس خلجی عارف حسین نے کہاکہ شفاف حلقہ بندیاں نہ ہوں تو ایسی صورت میں بلدیاتی انتخابات کیسے شفاف ہو سکتے ہیں؟جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ کیا بلدیاتی انتخابات میں بدعنوانی جائز ہے، الیکشن عمل میں بدعنوانی کے عمل کو روکنا بھی الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے ۔

چیف جسٹس نے کہا کہ 140 اے کو آئین میں شامل کرنے کی کیا منطق تھی،انہوں نے اکرم شیخ سے استفسار کیا کہ آپ کے خیال میں کیا الیکشن کمیشن کو بلدیاتی حلقہ بندیوں کا اختیار دینا غیرآئینی ہے جس کا اکرم شیخ نے ہاں میں جواب دیا اور کہا کہ قانون اور حلقہ بندیوں کے بغیر ہی بلدیاتی انتخابات کرانے کا ہائیکورٹ کا حکم ناقابل عمل ہے۔قانون سازی کے ذریعے الیکشن کمیشن کو حلقہ بندیوں کا اختیار دیا جائے تو انتخابات شفاف ہو سکتے ہیں۔ بعد ازاں سپریم کورٹ میں حلقہ بندیوں سے متعلق سندھ ہائیکورٹ کے فیصلہ کیخلاف اپیلوں کی سماعت (کل) جمعرات تک ملتوی کر دی ہے.